اِدھر آنکھ لگتی، اُدھر خاموش ہوئے جنگلی پھر شور مچا دیتے۔ کچھ سکون آتا تو پتہ نہیں کہاں سے ٹھنڈ آ جاتی۔ میرے تو صرف پیروں کو ٹھنڈ لگ رہی تھی مگر عباس کئی دفعہ ٹھنڈ سے کانپنے کی بجائے ”پھڑکتا“۔ آخر کار ہم دونوں اٹھے اور باہر جنگلیوں نے جو آگ جلا رکھی تھی اس کے پاس پہنچے۔ سوچا چلو کچھ آگ تاپتے ہیں اور کچھ ان کو سمجھاتے ہیں کہ اب خاموش ہو جاؤ اور ہمیں سونے دو۔ اس وقت آگ کے پاس دو چار بچے ہی بیٹھے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ان کو ڈانٹنے کی بجائے نفسیاتی مار دیتے ہیں۔ مگر کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔ ہم کہتے کہ
یار ہم آپ کے علاقے میں آئے ہیں، آپ کے مہمان ہیں۔
تو جواب ملتا کہ ہم تو گلگت کے ہیں۔ اگر آپ گلگت میں ہوتے تو ہمارے مہمان ہوتے۔
آپ پڑھے لکھے بچے ہو۔ دوسروں کے آرام کا کچھ تو خیال کرو۔
ہم بچے نہیں۔
یار ہم بہت تھکے ہیں اور مہربانی کر کے سونے دو۔
اگر سونا تھا تو گھر ہی رہتے، یہاں آئے ہو تو پھر موج مستی کرو۔
جب کوئی بات کامیاب نہ ہوئی تو ہم نے کہا کہ پھر زور سے شورشرابہ کرو۔ ہم جان گئے ہیں کہ آپ اچھے لوگ نہیں اور آپ کے گھر والوں اور استادوں نے آپ کو انسانیت سیکھائی ہی نہیں۔ میں اور عباس اتنے میٹھے انداز میں بول رہے تھے کہ لڑائی نہیں ہو سکتی تھی۔ خیر ہم اپنے خیمے میں واپس آ گئے۔ اب ان کا شور کچھ کم تو ہو چکا تھا مگر پھر بھی دور کہیں سے کوئی تھوڑا بہت چیختا۔ آگ تاپنے کے بعد بھی عباس کی سردی کم نہ ہوئی کیونکہ اس کا ”پھڑکنا“ جاری رہا۔ مجھے لگا کہ شاید میرا سلیپنگ بیگ بہتر ہے جس وجہ سے مجھے کم ٹھنڈ لگ رہی ہے، خیر میں نے خیمے میں روشنی کی تو دیکھا کہ عباس سلیپنگ بیگ میں ٹھیک طرح سے نہیں گھسا ہوا۔ ایک تو میں نے اپنے والا سلیپنگ بیگ اسے دیا اور دوسرا اس پر گرم چادر دے کر سلیپنگ بیگ سے ایسا پیک کیا کہ امید تھی کہ اب اسے سردی نہیں لگے گی، مگر پھر بھی وہ کسی کسی وقت ”پھڑکتا“۔ شاید یہ خوراک کا یا کسی اور چیز کا اثر خاص عباس پر ہوا تھا کیونکہ ہمیں بس پیروں کو تھوڑی سردی محسوس ہوئی مگر عباس کو کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔ رات کے تقریباً تین بجے ان ”جنگلیوں“ کو کب سکون آیا اور کب ہماری آنکھ لگ گئی، کچھ پتہ ہی نہ چلا۔

میں خیمے سے باہر نکلا، اپنے مالک کی قدرت پر حیران تھا کہ تو نے دنیا میں اتنی خوبصورت جنتیں بنا رکھی ہیں تو پھر اصل جنت کیسی ہو گی۔ فباي الاء ربكما تكذبان (تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے)۔
عبدالرؤف کے علاوہ تمام دوست جاگ چکے تھے۔ عبدالستار اور میر جمال عین میدان کے وسط میں بیٹھے دھوپ کے مزے لے رہے تھے اور باقی بھی اِدھر اُدھر چہل قدمی میں مصروف تھے۔ وادی کے حسن کے علاوہ اردگرد دیکھا تو سوچنے لگ پڑا کہ یہ مردے کون ہیں؟ غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ تو ”جنگلی“ ہیں، جو گذشتہ ساری رات شورشرابہ کرتے رہے ہیں اور ابھی کوئی کہیں تو کہیں ایسے سو رہا تھا جیسے کسی دھماکے کے ساتھ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کو انہوں نے اتنا تنگ کیا تھا کہ دل کر رہا تھا ان کو ”ٹھڈے“ مار کر اٹھاؤ اور کہوں کہ الو کے پٹھو، اٹھو اور دیکھو کتنی حسین صبح ہے۔ خیر راما اتنا خوبصورت تھا کہ اس نے کمبخت ”جنگلیوں“ کے بارے میں کچھ سوچنے ہی نہ دیا اور میری سوچوں کو اپنی خوبصورتی کی طرف کھینچ لیا۔

”جنگلی“ اٹھ چکے تھے اور ان میں سے ایک کے ہاتھ مصیبت کا مارا گدھا لگ چکا تھا۔ وہ اس پر بیٹھ کر سیر سپاٹے کر رہا تھا۔ انسان تو انسان تھے مگر جانور بھی ان ”جنگلیوں“ سے پناہ مانگ رہے تھے۔ ان کا استاد ہمارے پاس آیا اور ناشتے کی دعوت دی تو میں نے اسے تفصیل سے سمجھایا کہ آپ کے شاگردوں نے جو ساری رات ہماری خاطر کی ہے وہی کافی ہے، اب مزید کسی خاطر مدارت کی ضرورت نہیں۔ خیر وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ اس نے سب ”جنگلیوں“ کو لائن حاضر کر رکھا تھا اور ایک ایک کو ڈانٹ کر گاڑی میں بیٹھا رہا تھا۔ گاڑی چلی گئی اور سرزمین راما نے سکون کا سانس لیا۔

ہمارا کھانا پک چکا تھا۔ اوہ روفیاااا (عبدالرؤف) تیرا بیڑا ترے۔ یہ کیا بنا دیا ہے؟
میں کیا کرتا، بلندی کے اثرات ہیں۔ تم لوگوں کو پتہ ہے کہ بلندی پر چیزیں اتنی آسانی سے نہیں گلتیں۔
مگر یہ تمہارے آلو تو گلے ہوئے ہیں لیکن نہ نمک ہے نہ مرچ، انڈے کیا خود پی گیا ہے؟ پیاز اور ٹماٹر بھی کہیں نظر نہیں آرہے۔ایسا لگ رہا ہے جیسے ابلے آلو کو کاٹا ہے۔
زیادہ باتیں نہ کرو۔ کھانے ہیں تو کھاؤ۔ نہیں تو خود بنا لو۔

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد عبدالستار میدان کے پاس سے گزرتی ہوئی ندی میں برتن دھونے چلا گیا۔ باقی بھی سامان سیدھا کر کے گاڑی میں رکھنے لگے۔ قیمتی سامان گاڑی میں رکھ دیا اور خیمے لگے ہی رہنے دیئے۔ چھٹی کا دن تھا تو مقامی بچے راما کے میدان میں کھیلنے آ چکے تھے، اس کے علاوہ نزدیکی علاقوں سے بھی گاڑیاں بھر بھر کے ”رنگ برنگے“ لوگ راما پہنچ رہے تھے مگر ہم فوجیوں کی طرح بوٹ شوٹ پہن رہے تھے کیونکہ ہمیں راما جھیل تک پہنچنے کے لئے تین ساڑھے تین گھنٹے کی ٹریکنگ کرنی تھی۔
اگلا حصہ:- جھیل کے راستے میں اردو بلاگروں سے ملاقات – پربت کے دامن میں
خوب لکھا ہے۔ مزاح بھی خوب ہے۔
وہ بلندی پر سبزی نہ گلنے کا کیا چکر ہے ؟
اور راما جھیل ۔۔۔۔
پانی تو ہوگا وہاں ڈھیر سارا!
گاڑی چل سکتی ہے ؟
سنا ہے کہ بلندی پر ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے اور پانی تھوڑے درجہ حرارت پر ہی اُبل جاتا ہے جس وجہ سے چیزیں اتنی جلدی نہیں گلتیں۔
اجی راما جھیل میں اتنا پانی ہے کہ اس سے گاڑی تو کیا، پورا ملک چل سکتا ہے۔ فرض کریں اگر پانی کم پڑ گیا تو پھر نانگاپربت کے اتنے گلیشیئر ہیں کہ کئی سو سالوں تک ان سے پانی بنایا جا سکتا ہے، بس ”تسی اک واری گڈی چلاؤ“
بہت خوب بلال بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے ان جنگلیوں نے خوب ناک میں دم کیا
اجی کوئی ایسا ویسا ناک میں دم کیا تھا، دل کرتا تھا کہ ان کی ایسی خبر لیں کہ ساری عمر بولنا چھوڑ جائیں، مگر۔۔۔
لسی کی بوتل

میں بچپن میں ڈالڈے کے ڈبے میں لسی
سائیڈ پاکٹ میں مکئی کے دانے
اور نرم نرم ایک دن پہلے کی روٹی
جنگلی بیر ملیں تو روٹی پہ مل کر لسی سے کھانا مت بھولئے
مزا آجائے گا :
ارے واہ۔ یہ نسخہ پہلے بتا دیا ہوتا تو کئی جگہوں پر تکلیف سے بچ جاتے۔ چلو کوئی بات نہیں زندگی رہی تو آئندہ سہی۔
فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے سینے سے لگا لیا۔ کیا بات ہے مزا آگیا
جناب بہت بہت شکریہ۔ یونہی حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو امید ہے ہمیں بھی لکھنا آ جائے گا۔
بہت عمدہ لکھا ۔ ۔ ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا جیسے میں نے ابھی راما کی ٹھنڈی ہوا اپنے چہرے پر محسوس کی ھو ۔ منظر کشی بہت عمدہ ہے ۔