گزشتہ سے پیوستہ
محبت و امن کے سفیر مسجد سے نکلے تو پاکستانی ہندو برادری سے اظہارِ یکجہتی کے لئے مندر پہنچے۔ بتاتا چلوں کہ یہ بھونگ شریف کا وہی مندر ہے کہ جو اگست 2021ء میں چند لوگوں نے توڑا تھا۔ جس کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت نے از خود نوٹس لیا اور مندر کو فوری مرمت کر کے بحالی کا حکم دیا۔۔۔ اُدھر تم مسجد توڑو، اِدھر تم مندر توڑو۔ گویا تم دلوں کو توڑتے جاؤ، مگر ہم جوڑتے جائیں گے۔ کیونکہ ہمارا مذہب ”امن“ ہے، ہمارا پیغام محبت ہے۔۔۔
اگست والے واقعہ کی وجہ سے مندر میں کافی سیکیورٹی تھی۔ اور ہمیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ مگر پھر بھونگ سے تعلق رکھنے والے ہندی کے استاد اور مذہبی سکالر رمیش کمار لیلوا جی نے مندر کے دروازے کھول دیئے۔ اس مندر کی بنیاد 2001ء میں رکھی گئی۔ گویا یہ ایک جدید مندر ہے۔ یوں تو بنیادی طور پر یہ گنیش مندر ہے مگر وہاں دُرگا (شیراں والی)، شیو اور پاروتی، رام اور سیتا کی مورتیاں بھی ہیں۔ اس مندر کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ بھر کا سب سے بڑا مندر ہے۔
مندر کے اردگرد ہندؤں کے گھر ہیں۔ ہم ہندو برادری کا رہن سہن دیکھنے ایک گھر بھی گئے۔ وہاں سے نکلے تو کئی دیگر لوگوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ مگر چونکہ ہمیں تاخیر ہو رہی تھی تو شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔ اور پھر مسافرانِ شوق کا کارواں رحیم یار خان کے قریب پتن منارہ کی طرف روانہ ہوا۔
رحیم یار خان میں ہمارا ایک دلبر بستا ہے۔ وہاں جائیں اور اسے خبر نہ ہو، نہ یارو۔۔۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ شہر کے ایک انڈرپاس میں ہماری کوسٹر پھنس گئی۔ یوں آگے جا نہیں سکتے تھے اور پیچھے میاں عامر نے اپنی گاڑی لا کھڑی کی۔ گویا ہمیں قابو کر ہی لیا۔ ہم سیاحوں کا ڈاکخانہ ایک ہی ہوتا ہے۔ جہاں بھی جائیں گھوم پھر کر، چکر کاٹ کر بھی ایک دوسرے کو مل جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی میاں عامر سے ملاقات ہوئی۔ اور جناب کے بارے بتاؤں تو مختصر یہی کہ زندہ دل، ہر وقت ہنستا مسکراتا، شوخ و چنچل۔ موٹروے پولیس میں ملازم اور ایسا زبردست سیاح کہ جناب نے شمالی علاقہ جات کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا۔ بہرحال میاں عامر نے مسافران شوق کو پورا پروٹوکول دیا۔ اور اگر وہ شاہراہ خاص کو ہمارے لئے عام نہ کرتا تو یقیناً ہمیں پتن منارہ پہنچتے پہنچتے اندھیرہ چھا جاتا۔
کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے صحرائے چولستان میں ایک دریا ہاکڑہ (گھاگرہ) بہتا تھا۔ پتن منارہ جو کہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسی دریائے ہاکڑہ کے کنارے تعمیر ہوا۔ بعض محققین کے نزدیک اسے 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے تعمیر کیا۔ جبکہ کچھ کے خیال میں یہ اس سے بھی پرانا ہے۔ کسی زمانے میں پتن پور ہندومت اور بدھ مت کا خاص مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر زمانہ بدلا، موسم بدلا اور دریائے ہاکڑہ خشک ہو گیا۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترسے اور ہاکڑہ تہذیب ریت کے ٹیلوں میں کہیں کھو گئی۔ پانی نہ صرف زندگی ہے بلکہ یہ تہذیبوں کا امین بھی ہے۔ پانی کی قدر کیجیئے صاحب۔۔۔
پتن منارہ پہنچے تو ایک مقامی فنکار نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ جو کہ خاص طور پر ہمارے لئے آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک دو زبردست لوک گیت سنائے۔ سورج نے دور کے دیسوں کو دوڑ لگا رکھی تھی اور ہمارے پاس وقت بہت تھوڑا تھا۔ لہٰذا جلدی جلدی تسلی بخش فوٹوگرافی ہوئی نہ ویڈیو گرافی، کہہ لیں کہ پتن منارہ بس ڈاکومنٹ ہی ہوا۔ البتہ یہاں سے میرے ذہن میں ایک زبردست کہانی نے جنم لیا۔ بلکہ ناول کا پورا پورا پلاٹ مل گیا۔۔۔ جب مٹ چکے دریائے ہاکڑہ کے کناروں پر شام اتر رہی تھی تو لوک فنکار ”اک تارہ“ بجاتے ہوئے گیت گا رہا تھا ”آویں آویں دلبر آویں… آویں آویں ڈھولن آویں… آویں روہی چولستان“۔۔۔ اور ہم یہ گیت سنتے سنتے پتن منارہ کو الوداع کہہ کر روانہ ہوئے۔ وہ شام بہت سحرانگیز تھی اور پنجاب کی ایسی شامیں میری کمزوری ہیں۔ کچھ دیر پتن منارہ بیٹھنا چاہتا تھا، مگر امان گڑھ کی ہندو برادری ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
امان گڑھ میں کیا ہی شاندار استقبال ہوا۔ پھول نچھاور ہوئے، مالائیں پہنائی گئیں۔ پریتم داس بالاچ، دھرمیندر کمار بالاچ، محبت رام داس جی اور دیگر احباب نے خوش آمدید کہا۔ پہنچتے ہی محفلِ موسیقی شروع ہوئی۔ ایک بزرگ سرنگی نما ساز جبکہ دوسرا جوان طبلہ بجانے لگا۔ پنڈال سجا اور نوجوانوں نے روایتی رقص کیا۔ اور پھر پنجاب اسمبلی کے رکن(ایم پی اے) یدھسٹر چوہان صاحب خوبصورت چولستانی ”پگ“ باندھے تشریف لائے۔ چوہان صاحب خاص طور پر مسافرانِ شوق سے ملنے اور روہی چولستان کی سیاحت کرنے کو سراہنے آئے۔ پھر کچھ گپ شپ ہوئی۔ مسافرانِ شوق اور ہندو برادری کی طرف سے باری باری جذبہ خیر سگالی پیش کیا گیا۔
اس دوران امرود، مالٹے، پنجیری کے جیسی ایک سوغات اور چائے سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ آخر پر محبت رام داس جی نے اپنی کتاب مُکتی مارگ (راہِ نجات) تحفہ دی۔ بتاتا چلو کہ ہمارے میزبان جناب دھرمیندر کمار بالاچ خود بھی سیاحت کے شوقین اور ہماری طرح کے بنجارے ہیں۔ بلکہ لکھتے بھی کافی اچھا ہیں۔۔۔
امان گڑھ سے نکلے تو ایک لمبے تھکا دینے والے دن کی لمبی چوڑی سیاحت کا اختتام ہوا۔ رات خانپور میں ڈاکٹر عظیم شاہ بخاری کے ہاں ٹھہرنا تھا۔ اور پھر شاہ جی تھے اور ان کی شاندار و پُرتکلف مہمان نوازی۔ مچھلی، بریانی اور دیگر بہت سارے لوازمات۔۔۔
اگلا حصہ : سندھو رانی – انڈس کوئین – مولانا عبیداللہ سندھی
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں