ایک زمانہ تھا جب ہم ہر چند دنوں بعد لاہور شہر میں پائے جاتے۔ کوئی کام نہ کاج مگر کئی کئی دن اُدھر گذارتے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے لاہور بے وفا صنم کی طرح منہ دوسری طرف کیے بیٹھا ہے، جیسے ہم سے روٹھ گیا ہو۔ وہی لاہور جو ہمیں ایک ماہ بھی گاؤں میں رہنے نہیں دیتا تھا اور بلا لیتا تھا، لیکن اب تو سال سال بھی نہیں بلاتا۔ خیر اس دفعہ کئی کام تھے، اوپر سے سعد ملک اکثر پوچھتا کہ پھر کب آ رہے ہو؟ ایک دن اچانک ہی لاہور ”یاترا“ کا پروگرام بن گیا۔ جس دن میں نے جانا تھا اس سے پہلی رات اتفاقاً ریاض شاہد صاحب کا فون آیا اور انہوں نے کہا ”میں لاہور آیا ہوا تھا، سوچا آپ سے پوچھ لوں کہ کہیں آپ بھی لاہور میں تو نہیں۔“ میں نے کہا: ابھی تو نہیں ہوں لیکن کل پہنچ جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا ”کیا میرے لئے آ رہے ہو یا کوئی کام ہے؟“ میں نے کہا: جناب آ تو ویسے ہی رہا تھا لیکن آپ یہی سمجھو کہ آپ کے لئے ہی آ رہا ہوں۔ 🙂
دوسرے دن میں لاہور میں تھا۔ پہنچتے پہنچتے رات کے نو دس بج گئے۔ کچھ ہم ٹھہرے رات کے پنچھی اور کچھ زندہ دلان لاہور، یوں اسی وقت ایک چھوٹا سا کام تھا وہ کیا اور پھر ریاض شاہد صاحب کے پاس پہنچا۔ رات گئے تک گپ شپ ہوتی رہی اور ساتھ ساتھ لاہور کے دیگر ساتھیوں سے رابطہ ہوا۔ ساجد اور نجیب صاحب نے اگلے دن پاک ٹی ہاؤس پر ملاقات رکھ لی۔ یہ اچانک ہی اور رات گئے پروگرام بنا۔ اس وجہ سے کئی ساتھیوں کو اس کی فوری اطلاع نہ کر سکے۔ جس کی معذرت چاہتا ہوں۔ خیر میں اور ریاض صاحب رات گئے تک گپ شپ کرتے رہے۔ پھر میرے کزن جو میرا انتظار کر رہے تھے ان کے پیغام پر پیغام موصول ہو رہے تھے تو مجھے گھر جانا پڑا۔
اگلے روز محمد عبداللہ کو پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے ساتھ لیا اور پہنچے پاک ٹی ہاؤس۔ ہم دونوں ہی ٹھہرے ”غیر لاہوری“ یوں پہلے اللہ اللہ کر کے پاک ٹی ہاؤس ڈھونڈا لیکن پارکنگ کے لئے مال روڈ پر ایک اشارے سے دوسرے اشارے کے درمیان کئی چکر لگائے مگر جگہ نہ ملی۔ آخر کافی دور گاڑی کھڑی کر کے ”دوڑتے“ ہوئے پاک ٹی ہاؤس پہنچے۔ اتنے میں ساجد، نجیب اور ریاض صاحب پہنچ چکے تھے۔ سلام دعا کے بعد بات چیت ہونے لگی۔ اتنے میں سعد ملک کا فون آیا، جوکہ باہر پہنچ چکا تھا۔ میں نے اسے کہا ادھر ہی ٹھہرو میں آیا۔ جا کر اسے بتایا کہ چند دوست آ چکے ہیں مگر یار میں گاڑی بہت دور ”بے یارومددگار“ کھڑی کر آیا ہوں، اس لئے چلو پہلے اسے کسی مناسب پارکنگ میں کھڑی کرواؤ۔ یوں ہم دونوں ادھر پہنچے اور گاڑی مناسب جگہ پر کھڑی کی اور واپس پاک ٹی ہاؤس۔ اس ملاقات میں باباجی (فراز)، ساجد، عاطف بٹ، نجیب عالم،محمد عبداللہ، سعد ملک، ریاض شاہد اور میں ”بقلم خود“ شامل تھا۔ اردو اور بلاگنگ کے کئی موضوعات پر سنجیدہ باتوں کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہوا۔ مزاح میں ایک دوسرے کو بڈھا ثابت کرنے پر لگے رہے، ساتھ ساتھ تصاویر بنیں۔ بریانی کے ساتھ پیٹ پوجا ہوئی اور پھر جب کھانے کے بعد تھوڑی دیر بات چیت ہوتی رہی تو آخر میں خود ہی بول پڑا ”ارے بھائی! کیا ٹی ہاؤس میں ٹی نہیں ملتی؟“ یوں ہمیں ”ٹی“ مل ہی گئی۔ 🙂 بہرحال یہ ایک زبردست ملاقات رہی۔ یوں تو سب دوستوں سے پہلے بھی مل چکا تھا لیکن اس دفعہ ملنا بھی اچھا رہا۔ لاہوریوں نے اچھی بھلی میزبانی کی۔
ادھر سے نکلے تو ریاض صاحب نے کہا کہ مجھے سنگ میل پبلشرز تک جانا ہے۔ کتابوں کی بات ہو اور ہم پیچھے رہیں یوں شاید ہی کبھی ہو۔ لہٰذا بلال، سعد، عبداللہ، باباجی اور عاطف بٹ ان کے ساتھ ہو لئے۔ کتابوں کی دکان پر پہنچ کر میرا دل کرتا ہے کہ ساری کی ساری خرید لوں اور پھر کوئی کام نہ کروں اور انہیں پڑھتا رہوں۔ خیر سب نے اپنی اپنی مرضی کی چند کتابیں خریدیں مگر میں نے اپنی مرضی کے ساتھ ساتھ ”دیگران“ سے بھی رائے لی، پھر رائے کا احترام کیا اور یوں جیب خالی کروا بیٹھا۔ یہ تو بھلا ہو جیب کا جس میں اس وقت زیادہ گنجائش نہیں تھی اور کریڈٹ کارڈ مشین پر نظر نہ پڑی ورنہ گاڑی میں پٹرول ادھار کا ہی ڈلوانا پڑتا۔ 🙂 شاید خالی ہوتی جیب دیکھ کر ہی باباجی نے کہا کہ بھائی کتابوں میں کمی بیشی کر لو۔ انہیں کون بتاتا کہ بھائی ابھی تو بس نہیں چل رہا اگر چلتا تو خود کے بدلے بھی کتابیں ہی خرید لیتا کیونکہ ہمیں کوئی ”ظالم“ مفت میں کتاب نہیں بھیجتا۔ جب بھی پڑھی اپنی خرید کر یا زیادہ سے زیادہ قریبی دوستوں سے ادھار مانگ کر۔ اوپر سے بیماری یہ ہے کہ مجھے ای بک پڑھنے کا مزا نہیں آتا دوسرا اچھی کتاب چاہے ادھار لے کر پڑھ لوں پھر بھی اپنی خرید لیتا ہوں۔ اب اس بات سے یہ نہ سمجھئے گا کہ میں بڑا ”کرمِ کتابی“ ہوں اور وسیع مطالعہ رکھتا ہوں۔ یہ تو بس ”شو،شا“ مار رہا ہوں۔ خیر کتابیں خریدنے کے بعد باقی چلے گئے مگر میں، عبداللہ، سعد اور باباجی سنگ میل پبلشرز کے باہر کھڑے ہو کر کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب تھک گئے تو پھر اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئے۔ واپسی پر عبداللہ کو کیمپس اتارا۔ عبداللہ نے بہت ضد کی کہ رات کا کھانا ادھر میرے ساتھ ہی کھاؤ مگر مجھے کہیں اور جانا تھا تو اس سے معذرت کی اور پھر کبھی کا کہہ کر چل دیا۔
دوسرے دن اچانک مجھے فیصل آباد سے آگے گوجرہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جانا پڑ گیا۔ جب فیصل آباد بائی پاس پہنچا تو سوچا، چلو یہاں کے بلاگر دوستوں کو فون پر سلام کہہ لیتے ہیں۔ شاکر عزیز تو اس وقت غالباً لاہور میں اپنی کلاس میں مصروف تھے اس لئے ان سے فوری رابطہ نہ ہو سکا، البتہ مصطفیٰ ملک صاحب سے رابطہ ہوا اور انہوں نے بہت اصرار کیا کہ مل کر آگے جاؤ۔ یہ ان کی محبت ہے ورنہ میں اس قابل کہاں۔ خیر گوجرہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا۔ ادھر دور دراز کے ایک گاؤں میں بھی جانا تھا۔ وہ چیزیں جو ہمارے ادھر اب دیہاتوں میں نہیں ملتی مگر وہ ادھر نظر آئیں۔ جیسے بیلوں سے چلنے والا کنواں اور چارہ کاٹنے والا ٹوکہ، وسیع و عریض کلری زمین، کچے مکان اور ڈاک بنگلے وغیرہ وغیرہ۔ خیر اپنے کام ختم کر کے واپس فیصل آباد پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی۔ ایک مرتبہ پھر مصطفیٰ ملک صاحب سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے بہت کہا کہ آپ گھر آؤ اور رات ادھر ہی رہو۔ مجھے علم تھا کہ اگر میں گھر چلا گیا تو ملک صاحب نے واپس نہیں جانے دینا اور میرا آج رات ہی لاہور پہنچنا ضروری تھا۔ خیر ملک صاحب اپنے بیٹے کے ہمراہ گھنٹہ گھر کے آس پاس کسی چوک میں پہنچے۔ ادھر ہی سلام دعا ہوئی۔ پھر وہ گھنٹہ گھر لے گئے، وہاں کا مشہور فالودہ کھلایا اور ساتھ ساتھ گھنٹہ گھر اور فیصل آباد کی تاریخ پر روشنی ڈالنے لگے۔ پہلے بھی کئی دفعہ فیصل آباد سے میرا گزر ہوا لیکن گھنٹہ گھر آج تک نہیں دیکھا تھا اور یہ بھی ملک صاحب کے بتانے پر پتہ چلا کہ وہ جو فیصل آباد کو آٹھ بازارو ں کا شہر کہتے ہیں دراصل گھنٹہ گھر انہیں آٹھ بازاروں کا مرکز ہے یعنی آٹھ بازار گھنٹہ گھر پر آ کر ختم ہوتے ہیں۔ یہ آٹھ بازار برطانیہ کے یونین جیک (برطانوی پرچم) کی شکل دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے انگریز گورنر سر جیمز لائل نے یونین جیک بناتے ہوئے یہ آٹھ بازار اپنے ملک کی یادگار کے طور پر بنوائے تھے اور گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔
خیر مصطفیٰ ملک صاحب سے بلاگنگ کے متعلق بھی گپ شپ ہوئی اور پھر وقت کافی ہو چکا تھا تو ان سے اجازت چاہی اور لاہور کے لئے چل پڑے۔۔۔
اگلا حصہ:- چاچا مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات
جناب م بلال م صاحب !
السلام و علیکم ،
آپ کی تحریر ” لاہور اور فیصل آباد کی یاترا” پڑھ کر بہت اچھی لگی ۔ خصوصی طور پر اس لیے کہ اس میں میرے شہر فیصل آباد کا ذکر ہے۔
وعلیکم السلام!
تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
جناب بلال صاحب آپ نے بہت خوبصورت تحریر لکھی ہے بہت ہلکی پھلکی اور سادہ اور عمدہ تحریر ہے
پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
السلام علیکم!
بلال بھائی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آپ کس گاؤں میں گئے تھے، میں بھی ٹوبہ کے قریب ایک گاؤں کا رہائشی ہوں مگر میرے گاؤں میں اب “گاؤں” والی کوئی بات نہیں ہے، سب قصبہ ٹائپ ہو گیا ہے، کنواں اور نلکا وغیرہ دیکھے ہوئے تو عرصہ گزر گیا ہے کیونکہ میں اپنی جاب کی وجہ سے فیصل آباد میں ہوتا ہوں۔
وعلیکم السلام!
میں ویسے ہی کسی کام سے ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا جبکہ جس گاؤں میں جانا ہوا اس کا نام ”چک چٹھہ“ ہے اور وہ غالباً گوجرہ کے قریب ہے۔
بلال بھائی جواب دینے کیلئے شکریہ، آپ نے آخر میں “جاری ہے” لکھا ہے، تو اس سفرنامے کی دوسری قسط کب پوسٹ کریں گے؟
اگلا حصہ:- چاچا مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات
دلچسپ روداد ہے۔ اور سنگِ میل کا ذکر۔۔۔
اچھی خاصی کمائی لٹائی جاسکتی ہے وہاں تو۔۔۔ پتا نہیں، یہ کون لوگ ہوتے ہیں جنھیں کتابوں کا تحفہ دینے والے دوست احباب مل جاتے ہیں 🙂
روداد پسند کرنے کا شکریہ۔
واقعی جناب میں خود سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں تحفے میں کتابیں ملتی ہیں۔ 😀
معذرت برادر چھ گھنٹے سفر اور چھ گھنٹے کی کلاس کے بعد پیر کا دن بھی کسی سے کیا اپنے آپ سے ملنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ 😳 😆
کبھی نارمل دنوں میںتشریف لاؤتو ست بسم اللہ۔
اجی کوئی بات نہیں۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ کلاس میںمصروف ہوں گے اور پھر واپسی کا سفر۔ خیر پھر کبھی موقع ملا تو ضرور ملیںگے۔
السلام و علیکم
واہ بلال صاحب مزہ آگیا روداد پڑھنے کا ۔۔۔ اور میں نے تو پڑھی بھی بہت عرصے بعد ہے اسلیئے زیادہ مزہ آیا ۔۔۔۔ مستقبل قریب میں کب تک آنے کا ارادہ ہے ؟؟ ایک ملاقات اور ہونی چاہیئے
بھائی میں بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہوں کافی پہلے آپ کی ویب سائٹ وزٹ کرتا تھا بھر پتا نہی اچانک ہی کیا ہوا کھبی آپ کی ویب سائٹ بر ہی نہی آ ہوا آج اچانک ہی یاد آیا تو رات کے اس وقت ہی لیپ ٹاپ آن کر لیا ویسے اگر اب ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے تو ہمارے سے بھی رابطہ کرنا
اور اب پتہ نہی مجھے لگا یا سچی بات ہے آپ کی تحایرر پڑھنے کا مزہ نہی آیا
باقی آپ سفر نامہ آچھا لکھ لیتے یں