درخت کاٹنے والے لکڑ چوروں نے جب برازیلی قبیلے کے علاقے پر دھاوا بولا تو قبائلیوں نے تیر کمان نہیں جدید ٹیکنالوجی کے بل پہ انہیں شکست دے دی۔ ایک سبق آموز داستان
18 جولائی 2010ء کے سنڈے ایکسپریس میں چھپنے والی ایک سپیشل رپورٹ کا یہ عنوان تھا۔ یوں تو ساری رپورٹ ہی 35 سالہ قبائلی سردار ”علمیر نارایا موگا“ کی ہمت اور جدیدیت پسندی پر لکھی ہے لیکن یہاں اس رپورٹ کے چند اقباس پیش کروں گا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سردار علمیر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کے جنگل اور اپنی قبائلی روایات کی حفاظت کر رہا ہے۔سردار علمیر کا آبائی جنگل دراصل مشہور زمانہ ایمیزن بارانی جنگلات (Rainforest) کا حصہ ہے۔ سردار علمیر ایک پست قامت اور گھٹے جسم کا مالک انسان ہے۔ گول چہرے پر چھوٹی چھوٹی چمک دار آنکھیں ہیں۔ چست و چالاک ہے اور اپنے مقصد کے لیے بڑا سرگرم! دوسروں کو اکثر اپنے سامنے سیاہ نوٹ بک کھولے بیٹھا ملتا ہے۔ اس کے گھر کی دیواریں تیر کمانوں اور دیگر قبائلی سوغاتوں سے سجی ہیں۔
یہ اس کا چھوٹا سا گھر ہی ہے جہاں سے سردار نے اپنے وطن میں ”جنگل کٹائی“(Deforestation) کے خلاف زبردست جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ تاہم اس کے ہتھیار نیزے یا تیر کمان نہیں بلکہ انٹرنیٹ، گوگل ارتھ اور جی پی ایس ہیں۔ اس کی باتیں سنیئے! وہ دشمن قبائل پر دھونس جمانے نہیں بلکہ سیٹلائیٹ تصاویر پر گفتگو کرتا ہے۔ اس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے دیس میں لاکھ نئے درخت لگائے گا۔ یہی نہیں وہ بین الاقوامی کمپنیوں سے گفت و شنید کر رہا ہے تاکہ انہیں ڈیڑھ کروڑ ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فروخت کر سکے۔
جب سردار علمیر نے لکڑہاروں کو جنگل کی کٹائی سے روکا اور ڈٹ کر مقابلہ کیا تو لکڑ ہارے سردار علمیر کے دشمن بن گئے۔ حتیٰ کہ تین سال قبل انہوں نے آرا مشینوں کے مالکوں کے ساتھ مل کر سردار کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر رکھ دی۔ خطرناک صورتحال کے باعث سردار کو امریکہ فرار ہونا پڑا۔ امریکہ ہی میں وہ پھر انٹرنیٹ کی جادوئی دنیا سے آگاہ ہوا اور اسے چلانے کا طریقہ سیکھا۔ پھر حالات معمول پر آئے تو وہ وطن واپس آ گیا۔ اب وہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کو تیار تھا۔
عالمی بینک اپنا ”پلانا فلورا“ نامی منصوبہ لیے برازیل میں سردار علمیر کے قبیلے ”سوروئی (Surui)“ کے جنگل میں پہنچا۔اس منصوبے کے تحت وسیع پیمانے پر درخت کاٹے جانے تھے تاکہ برہنہ زمین پر سڑکوں، ڈیموں اور نئی آبادیوں کا جال بچھایا جا سکے۔ لیکن افسوس ناک طور پر منصوبے میں مقامی قبائل کو نظر انداز کر دیا گیا۔ نتیجہ سوروئیوں سمیت تمام قبائل نے عالمی بینک کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
یہ جنگ ایک عشرہ جاری رہی تاہم کامیابی قبائلیوں ہی کو ملی۔ برازیلی حکومت نے یہ منصوبہ تاحکم ثانی التوا میں ڈال دیا۔ تب تک سردار علمیر اپنے گاؤں واپس پہنچ چکا تھا۔ اس دفعہ وہ اپنے ساتھ ایک کمپیوٹر اور ایک نیا خیال لایا تھا۔ اس نے سوروئیوں کو باور کرایا کہ نئے حالات میں بقا اسی صورت ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور روایات کو ہم آہنگ کر دیا جائے۔ بات سوروئیوں کی سمجھ میں آگئی اور یوں ان کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
گو آج بھی ماری موپ تیر کمان سے شکار کرتا ہے لیکن اس کا بیٹا آئی فون استعمال کر رہا ہے۔ علمیر کا کہنا ہے ”میں جدید ٹیکنالوجی کو بہت سراہتا ہوں“۔ اسے تو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ یہ ٹیکنالوجی جنگل کٹائی بچانے کے لئے شروع ہوئی جنگ میں اس کی مدد کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ گھر سے جنگل میں جاتا ہے تب بھی آئی فون پاس رکھتا ہے حالانکہ وہاں اسے سگنل موصول نہیں ہوتے۔ تاہم وہ خالی سکرین دیکھ کر ہی دل بہلا لیتا ہے۔
علمیر قصبے میں ہو تو دن میں کئی بار بذریعہ آئی فون اپنا ای میل اکاؤنٹ چیک کرتا ہے۔ آج سردار کے پانچ ای میل اکاؤنٹ ہیں اور وہ فیس بک میں 1500 سے زائد دوست رکھتا ہے۔ ان میں سے ایک ساتھی قبائلی اور بولیویا کے صدر ایومورلیس بھی ہیں۔
جنگل کٹائی روکنے اور نئے درخت لگانے میں آج سوروئیوں کے شانہ بشانہ کھڑا سوئٹزر لینڈ سے آیا ایک آدمی بھی اکثر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بانہوں پر جا بجا مچھر کاٹنے کے نشان ہیں مگر وہ یہاں آنے سے نہیں کتراتا۔ اس کا نام تھامس پائزر ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم اکواوردی کا ناظم اعلیٰ! تھامس کو آج بھی وہ ای میل پیغام یاد ہے جو چھ ماہ قبل اسے سردار علمیر کی طرف سے ملا تھا۔ پیغام پر درج تھا ”آپ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ آپ ایمیزن میں جنگل دوبارہ اگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو براہ کرم ہماری بھی مدد کیجئے“۔ اس پیغام کے ساتھ ورڈ اور ایکسل کی دستاویزات بھی منسلک تھیں جن پر کچھ اعدادوشمار لکھے تھے۔ تھامس ہنستے ہوئے بتاتا ہے ”مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ہمیں ایمیزن جنگل سے ایکسل دستاویز موصول ہوئی ہے“۔
ایک ماہ قبل سردار نے تین لکڑ چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ وہ مہاگنی کی لکڑی سے بھرے تین ٹرک لئے جار رہے تھے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ یہ ٹرک پڑوسی ریاست موتو گروسو کے ایک مقامی محکمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ علمیر بتاتا ہے ”چھان بین سے انکشاف ہوا کہ درختوں کی کٹائی ایک میئر نے کرائی ہے۔ یہاں یہ معاملہ عام ہے کہ بااثر لوگ جہاں سے چاہیں درخت کٹوا لیتے ہیں۔“
تین سال قبل اس نے کمپنی گوگل سے رابطہ کیا جو علم کا بحرِذخار رکھتی ہے۔ ایک دن علمیر نے قبائلی لباس پہنا، سر پر پروں کا تاج سجایا اور امریکی ریاست کیلی فورنیا کے مقام ماؤنٹین ویو پہنچ گیا جہاں گوگل کا صدر دفتر واقع ہے۔ اس نے اصرار کیا کہ وہ کمپنی کے اعلی افسروں سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔
اسے تیس منٹ کے لئے اپنی سنانے کی اجازت ملی، تاہم یہ ملاقات تین گھنٹے جاری رہی۔ دو ماہ بعد لیپ ٹاپوں، سیٹلائیٹ ٹیلی فونوں، کیمروں اور ویڈیو کیمروں سے لیس گوگل کے نمائندے علمیر کے قبیلے پہنچ گئے۔ اس موقع پر سوروئیوں نے گوگل سرچ انجن میں اپنا پہلا جملہ لکھا Desmatamento Amanzia (ایمیزن میں درخت کی کٹائی)۔ اس موقع پر ان کی ایک ویڈیو فلم بنائی گئی جو بعد ازاں یوٹیوب میں دکھائی گئی۔ مزید براں گوگل والوں ان کی ایک ویب سائٹ تیار کی۔ مزید سوروئیوں نے کئی نئے الفاظ مثلاً ”بلاگ“، ”تھری ڈی“ اور ”اوور لے“ کے معنی جانے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنی مقامی زبان، توپی۔موندے میں گوگل کے لیے ایک لفظ ”راگوگماکان(Ragogmakan)“ ایجاد کر لیا۔ اس لفظ کے معنی ہیں ”پیغام بر“ چونکہ گوگل نے سوروئیوں اور ان کا منصوبہ دنیا میں متعارف کرایا لہذا اس پر یہ منفرد نام موزوں بیٹھا۔
سردار علمیر کو یقین ہے کہ ایک دن ان کا پورا علاقہ ڈیجیٹل ہو جائے گا۔ سوروئیوں کی خواہش ہے کہ گوگل ارتھ میں جنگل کا تفصیلی نقشہ بھرا جائے تاکہ دنیا بھر کے لوگ ورچوئل طور پر اس علاقے کی سیر کر سکیں۔ کبھی وہ جنگل کی تصاویر سے لفط اندوز ہوں، کبھی قبائلی رہنماؤں کو اپنی روایات پر گفتگو کرتے سنیں۔ آج کل سردار جنگل کے ایک جھونپڑے میں کمپیوٹروں میں گھرا بیٹھا ہے۔ ان کمپیوٹروں کے ذریعے چینی۔برازیلی CBERS111 سیٹلائیٹ سے حاصل شدہ تصاویر کی مدد سے جنگل کے ایک ایک انچ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ تاہم یہ کام بھی ابتدائی مرحلے میں ہے، فی الوقت سردار گوگل ارتھ ہی کو اپنے علاقے کا چوکیدار بنائے ہوئے ہے۔
گوگل ارتھ کی تصاویر مناسب ریزولیشن نہیں رکھتی، مگر ان کے ذریعے یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ جنگل میں کس جگہ لکڑ چوروں نے اپنی سرگرمی شروع کر رکھی ہے۔ اس لئے پچھلے دو سال میں گوگل ارتھ کی مدد سے کئی لکڑ چور پکڑے جا چکے ہیں۔ مزید براں کئی ٹن لکڑی بھی لے جاتے ہوئی پکڑی گئی۔
ماہ اکتوبر میں جب سوروئی گلوبل ایمیشنز ٹریڈنگ میں حصہ لیں گے تو ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب سردار علمیر نے ”ریڈ (REDD)“ کا نام سنا۔ یہ Reducing Emissions from Deforestation and Forest Degradation کا مخفف ہے۔ اسے معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں جنگل کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس چوستے ہیں۔ اب کئی کمپنیاں جنگل کے مالکوں کو منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہیں تاکہ وہاں درخت لگائے جائیں اور یوں گیس فضا میں شامل ہو کر اسے نقصان نہ پہنچائے۔
سردار علمیر کا پیغام، پاکستانیوں کے نام
”تحقیق سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کا وطن پاکستان ایک زمانے میں جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر 1880ء میں یہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربعد کلومیٹر رقبے پر جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ تب پاکستانی علاقے میں جا بجا درخت نظر آتے تھے لیکن آج کیا حالت ہے۔۔۔ آپ کے وطن میں صرف اٹھارہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر جنگل موجود ہیں۔ آپ خود سوچئے کہ قدرت کے یہ حسین اور کارآمد تحفے آخر کہاں غائب ہوگئے؟“
”دنیا تو ایک طرف جنگلات کے معاملے میں پاکستان جنوبی ایشیا میں بھی سب سے پیچھے ہے۔ بھوٹان کا 70 فیصد علاقہ جنگلوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ سری لنکا(37 فیصد)، بھارت(25فیصد) اور بنگلہ دیش(18فیصد) بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ آپ کے دیس میں جنگلات کا علاقہ کتنا ہے؟ صرف 5.2فیصد جو شرمناک عدد ہے۔“(وکی پیڈیا کے مطابق یہ اعدادوشمار تھوڑے مختلف ہیں)
”اس حقیقت سے عیاں ہے کہ پچھلے ساٹھ ستر برسوں میں پاکستانیوں نے وسیع پیمانے پر درخت کاٹ ڈالے۔ میں ایک رپورٹ میں پڑھ رہا تھا کہ پچھلے چند برسوں میں شہروں میں ہزاروں درخت کاٹ دیئے گئے کیونکہ وہ کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں روکاوٹ بنتے تھے۔ انسان کو اتنا خود غرض اور ہوس کا پجاری نہیں ہونا چاہئے کہ انہی کو قتل کر ڈالے جو اسے زندگی بخش آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔“
”تمام پاکستانیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ درختوں کا قتل عام بند کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔۔۔ درخت ماحول پاک صاف رکھنے اور انسان کو کئی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ ان سے دوستی کیجئے، یہ آپ اور آپ کے بچوں کا مستقبل محفوظ کر دیں گے۔ آپ سب پر سلامتی ہو!“
محترم سردار اردو بلاگستان جناب م بلال م صاحب!
آداب!
میں سردار علمیر نارایا موگا تمام جنگل اور جنگلی قبائل کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے قبیلہ اردو بلاگستان کو ناصرف ہمارا تعارف کروایا بلکہ ہمارا مقدس پیغام بھی ان تک پہنچایا۔
ایمازان کے بارانی جنگل کی دیوی محترمہ بل بتوڑی آپ سے خوش ہو!
اونگا مونگا کی جے!
ممنون
سردار علمیر نارایا موگا
موڈریشن کیوں لگا رکھی ہے؟
پانچ فیصد جنگلات تو واقعی بہت کم ہیں۔ پاکستان کی تو لگتا ہے ہر چیز ایمرجنسی وارڈ میں پڑی ہے۔ :beatup:
بہت جامع ، بہت شاندار ، بہت معلوماتی ، میرے خیال میں معلومات میں لزت ہوتی ہے – بہت مزہ آیا – شکریہ
السلامُ علیکم بھائی
میں نے یہ تحریر پڑھی تھی واقعی بہت زبردست کام کیا ہے انہوں نے
یہ تو نئی سنائی
ادھر تو جنگلات کاٹ کاٹ کر سڑکیں اور سیکٹر بن رہے ہیں۔ ادھر کس کو فکر ہی ماحول کی؟
توبہ توبہ توبہ۔۔۔ ارے سردار جی آپ تو واقعی سردار ہو اور ہمیں یہ اردو بلاگستان کا سردار بنوا کر کیوں مار پڑوانی ہے۔ بل بتوڑی :rotfl: :rotfl: :rotfl: :rotfl: :rotfl:
ارے کیا یاد کروا دیا۔ عینک والا جن؟؟؟
وہ بھی کیا دن تھے جب آپ (ہم) جن تھے
اب آپ (ہم) دیو ہیں جنوں کے پیو ہیں
:laughloud: :laughloud: :laughloud:
وہ کیا ہے کہ سردار علمیر پہلی بار تشریف لائے تھے اس لئے ورڈپریس نے چیکنک کے لئے روک لیا۔
سپیم کی وجہ سے سیکیورٹی سخت ہے۔ تکلیف کے معذرت چاہتے ہیں۔ :worship:
وکی پیڈیا کی لسٹ کے مطابق تو اس سے بھی کم ہے۔
بہت شکریہ جناب۔ ویسے یہ تحریر مجھے دو لحاظ سے پسند آئی۔ ایک تو ٹیکنالوجی کا اس طرح استعمال اور دوسرا بارانی جنگلات کی وجہ سے کیونکہ مجھے بارانی جنگلات کی سیر کرنے کا بہت شوق ہے۔
وعلیکم السلام
جی آپ نے درست فرمایا۔
سب سے پہلے تو بلاگ پر تشریف لانے کا بہت شکریہ۔
یہ میرے لئے بھی نئی تھی تو سوچا چلو اور جن جن کے لئے نئی ہے انہیں بھی سنا دیتے ہیں۔
یہی تو مسئلہ ہے۔ باقی حکومت تو ہر کام میں ایسی ہی ہے لیکن ہم بھی خاموش ہیں اس معاملے میں اور یہ ہماری بے حسی کے سوا کچھ نہیں۔
سچ پوچھیں تو بالکل درست کہا ، اگرچہ مقام افسوس و شرمندگی ہے مگر بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ ہم لوگ عجیب لوگ ہیں ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہم کس تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔ اور احساس کی کمی اوپر س نیچے تک ہر جگہ یکساں ہے ۔ اور شاید یہ پانچ فیصد تو 1995 میں بھی تھے جب میں ساتویں کا طالب علم تھا۔ :witsend:
وسلام
:deadflower:
السلام عليکم
اردو بلاگ کی دنيا سے کافي مدت منقطع رہا۔ آيا تو آپ کا گلشن ياد آيا۔ سوچا سير کرتا چلوں اور سلام خدمت ميں پيش کروں۔ آپ کا بلاگ ہميشہ مجھے پسند ہے اور کئی سائلينِ اردو کو اس بلاگ پر بھيج چکا ہوں۔ :flower:
بلال بھائی ميں نے آپ سے پہلے بھی يہ تھيم طلب کی تھے اور آپ نے ارسال بھی فرمائی آپ سے دوبارہ بھيجنے کی درخواست کر رہا ہوں نيز اس بات کی اجازت بھي چاہوں گا کہ اس تھيم ميں رد وبدل کی اجازت مرحمت فرمائيں۔ نيز متعلقہ پلگ ان بھی اس ميں شامل کرديں۔ تھيم کے فولڈر سے تھيم نکال کر زپ کريں اسي طرح پلگ ان کے پورے فولڈر کو زپ کرکے بھيج ديں۔ جزاکم اللہ خير الجزاء۔ ميرا ايميل آپ کے پاس موجود ہے۔
بہت اعلیٰ جی۔۔۔ اچھی تحریر شیئر کی۔۔
سردار جی کو پتا ہے کہ ہمارے ہاں کتنے جنگل تھے۔۔ہمیں تو نہیں پتا تھا۔۔! :island:
ہور تھوڑے ’گل‘ کھلے ہوئے ہیں جو یہاں پھول بوٹے لگانے بیٹھ جائیں۔۔۔ 🙁
وکیپیڈیا کی لسٹ میں ایک اور چیز دیکھیں۔۔۔۔ سوائے چند ایک مسلم ممالک کے، باقی تمام میں جنگلات کا تناسب کچھ زیادہ نہیں ہے۔۔۔۔ ایسا ہے یا میں نے ہی اس نظر سے دیکھا ہے۔۔؟ :whistling:
بس جناب احساس ہو جائے تو پھر ہم بھی کسی منزل کی طرف چل پڑیں۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے احساس کی کمی اوپر سے نیچے تک سب میں ہے۔ جب ہمیں فکر نہیں تو حکمران کو کیا ہو وہ بھی تو ہم میں سے ہیں۔
:flower:
وعلیکم السلام راسخ کشمیری بھائی
خیریت تو تھی کہ اردو بلاگستان سے دور رہے؟ باقی یہ تو آپ کا بڑا پن ہے ورنہ میں کسی قابل نہیں۔ کئ لوگوں نے بلاگ کے ہیڈر میں موجود خطاطی کا پوچھا کہ کہاں سے حاصل کی تو جناب ہم بھی لوگوں کو آپ کا نام ہی بتاتے ہیں کہ یہ جناب راسخ کشمیری بھائی کی مہربانی ہے۔
آپ کو تھیم اور متعلقہ پلگ انز میل کر دیئے ہیں۔ چیک کر لیجئے گا۔
چلو اب ہمیں بھی پتہ چل گیا ہے۔ واقعی ”گل“ تو بہت کھلائے ہوئے ہیں لیکن اب ان ”گل“ کو ختم کر کے پھول بوٹے لگانے چاہیئے۔
ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن ایک بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زیادہ تر ممالک کی مٹی ہی ایسی نہ ہو جہاں پر جنگلات اگائے جا سکتے ہوں۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ سمندر میں مصنوعی جزیرے بن سکتے ہیں تو پھر جنگل بھی تو اگائے جا سکتے ہوں گے۔
so hw are you mr bilal i read ur blog its realy gud wish you very best of luck; :dance:
ارے آپ اور میرے بلاگ پر :think: خیر تو ہے؟ :daydream:
باقی میں بالکل ٹھیک ہوں اللہ کا بڑا کرم ہے۔ آپ سنائیں سب کیسا چل رہا ہے؟
میرے لئے نیک خواہشات کا بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین