اکتوبر 27, 2011 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

پاکستان میں ”انگریزیا“ کی بیماری

گذشتہ سے پیوستہ

اگر کوئی جدید تحقیق یا کسی دوسرے علمی مقاصد کے لئے انگریزی سیکھے پھر بھی بات دل کو لگتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ایک گروہ کو ”انگریزیا“ کی بیماری ہو چکی ہے۔ یہ بیمار اور غلام ذہن انگریزی کو اس لئے نہیں اپناتے کہ انہوں نے جدید تحقیق کرنی ہے بلکہ یہ لوگ انگریزی کو اعلیٰ مرتبے کی زبان سمجھتے ہیں یعنی ”سٹیٹس سمبل“۔ اور عام انسانوں سے خود کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے اپنی اصل پہچان کھوتے ہوئے انگریزی کا سہارا لیتے ہیں۔ دراصل یہ ایسے لوگ ہیں جن کو پتہ ہی نہیں کہ وہ اس بیماری کی وجہ سے ”نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے“۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زبان اور رہن سہن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عام پاکستانیوں سے جدا کر لیا ہے تاکہ یہ ہمارے لاشعور میں یہ بات بیٹھا سکیں کہ یہ انگریزیا والے اعلیٰ لوگ ہیں اور ہم عام عوام جاہل ہیں۔ بیماری ان لوگوں میں اتنی رچ چکی ہے کہ یہ لوگ ”انگریزیا“ کے غلام ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ تو بیمار ہیں ہی لیکن ان کی وجہ سے یہ بیماری معاشرے میں سرطان کی طرح پھیلتی جا رہی ہے اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہی بیمار اور غلام لوگ ہمارے سروں پر بیٹھے ہیں اور دن رات ”انگریزیا“ کا وائرس عام عوام تک پہنچا رہے ہیں بلکہ اس وائرس کے ٹیکے ہاتھ میں پکڑے ہر کسی کو ”ٹھوک“ رہے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ ان غلام لوگوں نے ہمیں اپنا غلام بنا رکھا ہے یعنی ہم غلاموں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ جیسے انگریز دور میں انگریزوں سے بات چیت کرنے کے لئے ان کی زبان سیکھنی پڑی تھی بالکل آج اسی طرح ان بیماروں نے ہمارے اوپر وہی نظام لاگو کر دیا ہے۔ پہلے ہم صرف انگریزوں کے غلام تھے لیکن اب مزید ذلت امیز غلامی کا طوق ہماری گردنوں میں ہے کیونکہ اب ہم انگریزوں کے غلاموں کے غلام بن چکے ہیں۔ انگریز سے آزادی لی تھی کہ ہم آسان زبان میں اور مکمل آزادی سے بات چیت کر لیں لیکن اب ان غلام ذہنوں کی وجہ سے ہم دن بدن رسوا ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس بیماری سے بچنا ہے اور ساتھ ساتھ خود کو اور اپنی سوچ کو غلامی سے بچاتے ہوئے مکمل آزادی حاصل کرنی ہے۔ دوستوں اپنے دماغوں پر زیادہ زور نہ ڈالو! بس اتنا سوچو کہ پچھلے 64سال سے یہی انگریزیا کے بیمار لوگ ہمارے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں دن رات انگریزی کی خوراک دے رہے ہیں۔ اگر اس دوائی سے ہم نے ٹھیک ہونا ہوتا تو کب کے ہو چکے ہوتے۔ 64 سال تھوڑے نہیں ہوتے۔ خدارا اپنے آپ کو پہچانو، حقیقت کو پہچانو اور اس انگریزی کے سحر سے باہر نکلو۔ اپنی زبان اپناؤ، آسانی سے بات چیت کرو اور اتنی ہی آسانی سے ترقی کرو۔
اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کے ان بیماروں کو صحت دے اور ساری قوم کو ”انگریزیا“ کے وائرس سے بچائے۔۔۔آمین

اگلا اور آخری حصہ :- ہمارے لئے اردو کیوں ضروری – خلاصہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان میں ”انگریزیا“ کی بیماری

  1. بلال بھائی، آپ نے ایک اہم مسئلہ پہ بہت بہترین اور جاندار مضامین لکھ ڈالے ہیں۔ ان میں سے بہت سی باتیں سمجھتے ہوئے بھی ان پہ عمل پتا نہیں کیوں مشکل معلوم ہوتا ہے۔ 64 سال واقعی کم نہیں ہوتے، اسی لئے ان چونسٹھ سالوں کا نشہ یا بیماری اتنی آرام سے جان بھی نہیں چھوڑ سکتی۔
    ایک عام سی بات ہے کہ جس زبان میں آپ سوچتے ہیں، وہی آپ کی زبان ہے۔
    آپ نے انتہائی سیر حاصل مضامین لکھے ہیں۔ اس کے لئے مبارکباد۔ 🙂

    1. عمیر بھائی مضامین پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
      ان باتوں کو سمجھتے ہوئے اگر ہم سے کہیں پر عمل نہیں ہوتا تو اس کی ایک وجہ بعض دفعہ مجبوری ہوتی ہے تو دوسری وجہ جو میں نے اکثر خود میں محسوس کی ہے وہ احساس کمتری ہوتی ہے۔ خیر بات آپ کی ٹھیک ہے 64سال کم نہیں ہوتے اور یہ بیماری اب آہستہ آہستہ جائے گی۔ چلیں جی آہستہ آہستہ جائے لیکن ہمیں اپنی طرف سے کوشش تو کرنی چاہئے۔ سوچا تھا ماہر لسانیات ان باتوں پر روشنی ڈالیں گے لیکن وہ بھی سوئے ہوئے ہیں تو پھر مجھ جیسے ان پڑھ نے ہی اپنی طرف سے کوشش کی۔

  2. محترم
    ہم آپ کی تحریر لازمی پڑھتے ہیں۔ آپ ہمارے لئے قابل احترام ہیں کہیں ان جانے میں گستاخی نا ہو جائے اس لئے تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں،
    بس اعتراض تھا کہ فین صاحب کی خواہش پوری کرنی کیلئے ایک ساتھ سارا مضمون شائع نہیں ہو نا چاہئے تھا :sweating:
    آپ نے تو خود کسی مضمون میں سمجھایا تھا کہ ایسا کس طرح لوگوں بلاگ پڑھایا جانا چاھئے۔ :laughloud:

    1. یاسر بھائی یہ تو میرے لئے اعزاز کی بات ہے آپ اس ناچیز کو اتنی عزت دیتے ہوئے تحریر لازمی پڑھتے ہیں۔ ویسے اگر ”گستاخی“ اصلاح کے لئے کریں تو مجھے اس ”گستاخی“ کی بہت خوشی ہو گی۔ واقعی مجھے سارے مضمون ایک ساتھ شائع نہیں کرنے چاہئے تھے لیکن اب پنکھوں کی عزت بھی تو ہونی چاہئے آخر وہ ہمیں ہوا دیتے ہیں۔ ویسے جو ہوتا ہے اچھا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ستارے سیارے بتا رہے ہیں کہ جو ہوا اچھا ہی ہوا۔

  3. بہت اہم نکتہ اٹھایا آپ نے۔ دراصل ہمارے یہاں انگریزی اور اردو کی تفریق اسکول میں پہلے دن سے ہی ہوجاتی ہے۔ چونکہ مقتدر حلقوں اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کے باعث ملک میں یکساں نظام تعلیم موجود نہیں، اس لیے اچھے گھرانوں کے چشم و چراغ انگلش میڈیم جبکہ پسماندہ گھرانوں کے بچے گورنمنٹ یعنی اردو میڈیم کی طرف جاتے ہیں۔ اور یہیں سے مستقبل کے معماروں میں اسٹیٹس کی تفریق شروع ہوجاتی ہے۔

  4. انگلش کو اس لیے سیکھنا یہ ایک فخریہ چیز ہے، آپ کی بات درست ہے۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ انگلش سیکھنے کے بعد انٹرنیٹ سے استفادہ کئی گنا آسان اور تیز ہوجاتا ہے۔

  5. ضرورت کی حد تک تو ٹھیک ہےحصول علم کی خاطر کوئی حرج نہیں لیکن قومی زبان کا بھی قوم پر حق ہے یہاں سعودیہ میں جو بھی چیز امپورٹ ہو کر آتی ہے اُس کے عربی زبان میں بروشر یا معلوماتی کتابچہ ہونا لازمی ہے خواہ وہ کوئی مشینری ہو دوا ہو یا کھانے پینے کی اشیاَِ، اسی طرح چین جاپان ایران مصر شام اور بہت سے دوسرے ممالک اپنی قومی زبان میں ہی میڈیکل انجنئرنگ اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے ہیں آخر قومی زبان کا بھی تو کوئی حق ہے یہ انگریزی زبان کی ہی برکت ہے کہ وزیر داخلہ صاحب سورہ اخلاص کی تلاوت بھی صحیح طرح سے ادا کرنے سے قاصر ہیں ہر تقریر ہر بیان اُن کو رومن اردو میں لکھ کر دینا پڑتا ہے۔(کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا ہمارے محلے ایک صاحب بڑی اچھی خاطر فرماتے تھے کہ دیسی کُتی تے ولائتی چیکاں) کسی کی دل آزاری مقصود نہیں کاش ہم لوگ عربی کو بھی اس نیت سے سیکھنے کی کوشش کرتے کہ قرآن کریم سمجھنے کی صلا حیت حاصل ہو گی آخرت بھی سنور جاتی اور دنیابھی صرف اسلامی گھرانے میں پیدا ہونا اور اسلامی نام رکھ لینا اسلام نہیں اسلام سمجھنے سیکھنے اور عمل کا نام ہے، ،عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی اور جہنم بھی ۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔

  6. اسلام علیکم سدا خوش رہو
    عزیزی میری عمر کوئی 65کے قریب ہے آپکی اُردوکام جان کے بڑی خوشی ہوئی یقین جانئے مجھ جیسے آدمی کو بھی یہکام آگیاہے
    حالانکہ میری تعلیم کوئی پرائمری ہے میں انگریزی ٹھیک سے نہیں پڑ سکتا ۔لیکن آپکی اس وئب نے مجھے کافی کچھ سیکھنے کوملا۔
    اُمید کرتاہوں کہ آپکی رہنمائی اسی طرح جاری رہے گی۔اگر آپ سے فون پر کوئی بات کرنی ہو توآپ سے کیسے بات کریں
    اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاںمیں ہے زندگی کا مقصد اورں کے کام آنا۔۔۔۔۔۔
    ایک اور گوزاش ہے کہ اس میں سرائیکی کا فاونڈ بھی شامل کریں اس طرح اور لوگ بھی آپ کے اس کام سے فائدہ اُوٹھا سکیں گے۔اس کام کا اللہ آپکو جزائے خیر دے آمین۔۔۔۔۔

  7. اسلام وعلیکم، جب سے مجھے اردو انسٹالر ملا ہے میرا تو یہ مشن بن چکا ہے ہے ہر جگہ اس کا تعارف کرواوں، الحمدوللہ سب لوگ بہت خوش ہیں جس نے بھی ایک دفعہ بھی اسعتمال لیا، اردو زبان کسی دوسری زبان سے کم نہیں اصل مسئلہ تو ہمارے اباب اختیار کا ہے جو چاہیتے ہی نہیں کے اردو رایج ہو، میں اسپین میں رہتا ہوں یہاں اگلش کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہر کتاب ہر کتبہ، حکومتی لوگ سب اسپینش زبان میں ہے، کیا انہوں نے ترقی نہیں‌کی، جو لوگ یہ کہتئ ہیں کہ انگلش ترقی کا زینہ ہے وہ زہنی غلامی کا شکار ہیں بس

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *