آج کل سوشل میڈیا کا توتی بولتا ہے۔ کسی کو ٹیکنالوجی کی الف ب پتہ ہو نہ ہو مگر اس کی فیس بک پروفائل ضرور ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کی بڑی اہمیت ہے۔ سوشل میڈیا اپنی ایک طاقت رکھتا ہے، ایک اثر رکھتا ہے۔ یہ سوچوں کے دھارے تبدیل کرنے سے لے کر نئی سے نئی تحقیق اور جھوٹ کے پول منٹوں میں کھول کر پوری دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اسی لئے تو اب پوری دنیا اس جدید ترین ہتھیار کو استعمال کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ فورم، بلاگ، وکی اور دیگر سوشل نیٹ ورک جیسے فیس بک، گوگل پلس اور ٹویٹر وغیرہ کا شمار سوشل میڈیا میں ہوتا ہے۔
عام طور پر چیزیں کچھ خاص کاموں کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ گو کہ ان سے دیگر کئی کام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر جن خاص کاموں کے لئے بنائی گئی ہوتی ہیں، ان سے وہی کام اچھے طریقے سے ہو سکتے ہیں۔ جیسے صوفہ بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے مگر اس پر سویا بھی جا سکتا ہے۔ قلم لکھنے کے لئے ہوتا ہے مگر کسی کو چبویا بھی جا سکتا ہے۔ اخبار پڑھنے کے لئے ہوتا ہے مگر اس سے مکھی بھی ماری جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب صوفے کا صحیح استعمال بیٹھنا، قلم کا لکھنا اور اخبار کا پڑھنا ہی ہیں۔ لیکن اگر آپ صوفہ سونے، قلم چبونے اور اخبار مکھی مارنے کے لئے استعمال کریں گے تو یہ فائدے کے ساتھ ساتھ نقصان بھی دے سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی مختلف چیزیں مختلف کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اگر ان کا ٹھیک ٹھیک استعمال کریں گے تو پھر ہی حقیقی معنوں میں دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔
آپ سوشل میڈیا پر جو کام کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے مناسب چیز کا انتخاب کریں۔ مثلاً اگر آپ جنرل نالج کے مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو وکی پیڈیا وغیرہ پر لکھیں۔ اگر آپ حالاتِ حاضرہ یا کسی بھی موضوع پر بحث مباحثہ کرنا چاہتے تو اس کے لئے فورم بہترین چیز ہے۔ اگر آپ اپنے خیالات، رائے اور تجزیے، تبصرے، تجربے (تین ت) وغیرہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بلاگ سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں۔ اگر انٹرنیٹ پر اپنا حلقہ احباب بڑھانا، چِٹ چیٹ کرنا یا کسی چیز کے بارے میں اپنے حلقہ احباب کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے فیس بک وغیرہ بہترین ہیں۔ یاد رکھیں فیس بک وغیرہ کو آپ ایک لاؤڈ سپیکر کی طرح اعلان کرنے کے لئے استعمال کریں جبکہ جس چیز کے بارے میں اعلان کر رہے ہیں وہ جس نوعیت کی ہے اس کو اس کی بہتر جگہ پر رکھیں۔
ہمارے ہاں معاملہ بڑا عجب ہے۔ ایک طرف یار لوگ فیس بک سے بلاگنگ کا کام لینے کی کوشش میں ہیں تو دوسری طرف بلاگ کو ٹویٹر بنا رکھا ہے۔ قوموں کے فلسفے فیس بک پر زیرِ بحث ہیں تو فورمز پر چِٹ چیٹ ہو رہی ہے۔ اردو وکی پیڈیا ویران پڑا ہے مگر لوگ بلاگ پر جنرل نالج کاپی پیسٹ کر رہے ہیں۔ مجھے حیرانگی تب ہوئی جب ایک اچھا بھلا بندہ بلاگ کو چھوڑ کر فیس بک پر لکھنا شروع ہوا۔ کاش، کوئی اسے سمجھاتا کہ ”بلاگ کی ایک تحریر، فیس بک کی سو شیئرنگ سے بہتر ہے“ (ابو الفتح فتح علی خان ٹیپو سلطان سے معذرت کے ساتھ)۔ خیر قصور اس بندے کا بھی نہیں کیونکہ ہمیں یہ پتہ ہی نہیں کہ کونسی چیز کس کام کے لئے ہے اور اس سے صحیح معنوں میں فائدہ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے۔
کبھی آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے لوگوں کا انٹرنیٹ فیس بک سے شروع ہو کر فیس بک پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اچھا بھلا لکھنے والے لوگ بھی فیس بک کو ہی اوڑنا بچھونا بنا کر بیٹھے ہیں۔ تخلیق کار سے لے کر فنکار تک، شعراء سے لے کر عام انسان تک سب کے سب اپنا سرمایا فیس بک پر لٹا رہے ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ فیس بکی شہرت یا حوصلہ افزائی نہایت ہی عارضی ہے۔ آپ فیس بک یا ٹویٹر وغیرہ پر چاہے جتنی قیمتی چیز شیئر کریں، ایک دو دن تو اس کا بہت چرچا ہو گا مگر پھر وہ ایسے غائب ہو گی کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ اوپر سے سرچ انجن بھی فیس بک کو کوئی خاص منہ نہیں لگاتے۔ اس کے علاوہ آپ آج فیس بک کے منظر سے غائب ہوں، کل کوئی جانتا بھی نہیں ہو گا کہ آپ کا بھی کوئی وجود تھا۔ اس کے برعکس بلاگ یا فورم وغیرہ پر شہرت یا حوصلہ افزائی حاصل کرنے میں وقت تو لگتا ہے مگر یہ حقیقی اور دیر پا ہوتی ہے۔ بلاگ اور فورم وغیرہ پر لکھا محفوظ رہتا ہے۔ آپ لکھنا چھوڑ بھی دیں تو آپ کی پرانی تحاریر سے لوگ فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ مواد تلاش میں آسان ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر سرچ انجن بلاگ کو صرف منہ ہی نہیں لگاتے بلکہ بلاگ سرچ انجن کا چہیتا ہے۔
اوئے کوئی تو ان فیس بکی مسکینوں کو سمجھائے کہ فیس بک جس کام کے لئے بنی ہے اس سے وہی کام لیں بلکہ اچھی طرح لیں مگر سستی و عارضی، شہرت و حوصلہ افزائی کے پیچھے نہ بھاگیں اور اصل بات کو سمجھیں۔ اپنے لکھے کو مناسب جگہ پر رکھیں تاکہ لوگ آسانی سے اور دیر تک اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ قلم کو چبونے کی بجائے لکھنا سیکھیں اور اخبار سے مکھیاں مارنے کی بجائے اسے پڑھیں۔
سوچیں! جب تک کوئی آپ کے لکھے سے فائدہ اٹھائے گا تب تک آپ کا نام زندہ رہے گا مگر اس طرح فیس بک وغیرہ پر لکھ کر آپ دو دن کی چاندنی تو حاصل کر سکتے ہیں مگر آپ کا نام بھی جھاگ کی طرح جلد بیٹھ جائے گا۔
ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ جو چیز جس کام کے لئے ہے اس سے وہی کام لیجئے اور غلط جگہ پر اپنے قیمتی الفاظ ضائع مت کیجئے۔
اس کا مطلب ہے کہ میں اپنا بلاگ بھی اپنی ڈومین سے بلاگ سپاٹ پر منتقل کر دوں۔ کیونکہ ابھی بھی کوئی سرچ انجن میرے بلاگ پر نہیںآتا۔ میرے مرنے کے بعد جب یہ ڈومین ایکسپائر ہو جائے گی تب تو میرا سارا مواد تلف ہو جائے گا۔ 🙂
السلام علیکم ۔ ۔ ۔ ۔ گو کہ میں خود بھی کچھ عرصہ سے فیس بک کی طرف مائل ہوں لیکن جو بات اس مضمون میں لکھی گئی ہے اس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ بہت قیمتی، معلوماتی اور قابل غور نکتہ ہے جسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ یہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ کاش فیس بک کے نشئی اس بات کو سمجھ سکیں اور بلاگنگ کی طرف راغب ہو سکیں ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ ۔ ۔ ۔ بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ سالک صدیقی، لاہور
السلام علیکم ۔ ۔ ۔ محترم بلال صاحب، میں جاننا چاہوں گا کہ بلاگ سپاٹ پر اپنے بلاگ پر میں اردو کا یہ خط / فونٹ جو غالبا نستعلیق ہے کیسے استعمال کر سکتا ہوں؟ کیا مجھے اس کی سپییثل ورژن خرینا پڑے گی یا یہ کہیں سے فری بھی مل سکتا ہے؟ پلیز ضرور جواب دیجیئے گا، اوروں کا بھی بھلا ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ بہت شکریہ
سالک صدیقی، لاہور
2005 کے آس پاس جب جامعہ کا انٹرنیٹ بند ہو جاتا تھا تو یار لوگ پوچھتے تھے : اوئے “اورکٹ” چلا کہ نہیں؟
اس کا مطلب ہے میں کسی حد تک ٹھیک جا رہا ہوں
بہت شکریہ بہت اچھی تحریر ہے۔
یعنی کہ آپ نے ہمیں سدھار کر ہی دم لینا ہے۔
بلاگ بھی لکھ ہی دیتے ہیں۔۔اپنے آپ کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ کسی کیلئے کچھ اچھا لکھ بھی سکیں گے۔
السلام علیکم بلال بھائی آپ کی اس تحریر نے تو آنکھیں کھول دیں اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور آپ اسی طرح ہم لوگوں کی اصلاح کرتے رہیں ۔
بہت بہتر مشورہ ہے! لیکن فیس بک کا ایسا استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟ وجہ کیا ہے؟
بہت بہترین انداز میں بیان کیا ہے ۔ کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ۔ ویسے آج کل آپ کے قلم میں سیاہی زیادہ بھر گئی ہے ۔ 😀
بہت عمدہ 😛
بہت عمدہ بات کی بلال بھائی اچھا تو یہ وہ تحریر تھی 😆
لگتا ہے چوہدری صاحب سارے فیس بُکیوں کو ٹھیک کر کے ہی دم لیں گے۔ تُسی جو مرضی کرو اساں کیڑی مننی ایں 😆
اس تحریر کی بہت ضرورت تھی.جزاک اللہ
کچھ عرصہ سے میں نے اک مہم شروع کی ہوئ ہے، سوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر کوئ اچھا اور معیاری لکھنے والا دیکھتا ہوں، جیسے آپ نے فیس بک کی تحریر کے محدود نفع اور ٹائم آف ڈسپلے وغیرہ کے متعلق لکھا’ کا تذکرہ کرکے انہیں بلاگ بنانے کی ترغیب دیتا ہوں. بلاگ بنوانا چاہیں تو خود بنا کر اردو اور تھیم وغیرہ کی سیٹنگ کردیتا ہوں. بہت سے لوگوں کو بلاگ بنا کر دے چکا ہوں ابھی بھی اک بھائ نے بلاگ بنا کردینے کا کہا ہوا ہے، اک دو اور رائٹر نظر میں ہیں ان کو بھی آمادہ کرنا ہے. اس کا سارا ثواب انکل ٹام کو پہنچ رہا ہے جنھوں نے مجھے بلاگستان سے متعارف کروایا :-) اپنے اس عمل کا تذکرہ صرف اس لیے کیا کہ دوست بلاگر بھی اس طرح کی کوشش فرماویں.
آپ مجھے بھی ایک بلا گ بنا دیں ❗ ❗ ❗ ❗ ❗ ❗
جناب! فی سبیل اللہ ہے تو لگے ہاتھوں میرا بلاگ بھی بنا دیجے۔
سمجھ گئے بھائی سمجھ گئے۔ اور کچھ؟ 🙂
ابو شامل بھای کھا ھو آپ کابلاگ بڑے عرصے سے اپ ڈیٹ نھیں ھوا۔۔۔۔
جزاک اللہ ۔
موزوں مشورے ۔ اور بروقت تحریر ہے۔
میں نے حالیہ تحریروں کی طرح اسے طویل سمجھ کر کمر ٹکالی تھی، مگر یہ ٹکائیت جلد اختتام کو پہنچی۔
میں آپ سے متفق ہوں۔ اپنے دوستوں کو بھی اس کی تلقین کرتاہوں۔
السلام علیکم ،
کیا کوئی صاحب بلاگ بنانے میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں- مجھے کہیں سے بھی کوئی مدد نہیں مل رہی –
ڈومین نیم تک تو میں پہنچ گئی تھی – نورین نور کے نام سے بنایا تھا آگے کچھ نہ کر سکی –
پیارے بھائی بہت اچھی بات کی لیکن میرے مطابق فیس بک پہ لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہان پہ منٹوں میں کئی تبصرے آجاتے ھیں جبکە اس کے برعکس بلاگ کی پوسٹ پە مھینوں کوئی تبصرە نھیں آتا
Bhai blog likhne ka faida usi waqt jb koi parhe, Agar wahi cheez Facebook de raha hai to Faida hai
i have really enjoyed this blog and inspired by the admin