اپریل 25, 2012 - ایم بلال ایم
19 تبصر ے

اردو بلاگوں کے تھوڑے قارئین کی وجوہات

گذشتہ سے پیوستہ
پچھلی تحریر ”اردو بلاگ کی ٹریفک کیسے بڑھائیں“ میں پہلی وجہ پر بات کی تھی اور ابھی دیگر وجوہات پر بات کرتے ہیں۔

میری نظر میں اردو بلاگوں پر ٹریفک کم ہونے کی دوسری بڑی وجہ کم مواد ہے۔ گو کہ اب انٹرنیٹ پر اچھی بھلی اردو نظر آنا شروع ہو گئی ہے لیکن ابھی تک اردو بلاگوں/ویب سائیٹوں پر اتنا مواد نہیں ہو سکا کہ تمام ضروری چیزوں کے بارے میں معلومات مل سکے۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بندہ بلاگنگ نہیں بلکہ کاپی پیسٹ کرتا ہے تو اس پر میرا خیال ہے کہ اس وقت ہمیں یہ چیز نہیں دیکھنی چاہئے کہ فلاں بلاگنگ کر رہا ہے یا نہیں فی الحال یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا فلاں کا مواد انٹرنیٹ پر اردو کے حوالے سے بہتر اضافہ ہے یا نہیں۔ ویسے بھی بلاگنگ کی تعریف کرنے چلیں تو دو صورتیں سامنے آئیں گی۔ ایک صورت میں اپنی دیگر قسم کی ویب سائیٹوں کو بلاگ کہنے والے باہر نکل جائیں گے اور پیچھے دو چار لوگ رہ جائیں گے۔ ایسی صورت میں شاید آپ میرا بھی خروج لگا دیں، اور دوسری صورت میں زیادہ تر ویب سائیٹوں کا شمار بلاگوں میں ہونے لگے گا۔ خیر یہ ایک علیحدہ اور تفصیل و بحث طلب موضوع ہے۔ فی الحال ہمیں بھیڑ چال کی بجائے نئے سے نیا اور بہتر سے بہتر اردو مواد انٹرنیٹ پر ڈالنا چاہئے تاکہ جب لوگ اردو مواد تلاش کریں تو انہیں معقول مواد مل سکے۔ کافی عرصہ پہلے ”ایک بلاگر ایک کتاب“ کے نام سے مہم شروع ہوئی تھی اور چند ایک بلاگر ہی اس پر عمل کر سکے تھے۔ کاش پھر کوئی ایسی یا اس سے ملتی جلتی مہم شروع ہو اور ہم مل کر بہتر اردو مواد انٹرنیٹ پر لا سکیں۔

اردو بلاگوں پر ٹریفک کم ہونے کی تیسری وجہ گوکہ اتنی بڑی نہیں لیکن آج کل جس انداز میں ہم لوگ چل رہے ہیں، اس نے عجیب سی صورت حال بنا دی ہے۔ اردو بلاگران اور اردو پڑھنے کے خواہش مند چند افراد کا ایک گروہ وجود میں آچکا ہے۔ اردو کے حوالے سے تقریباً یہی لوگ آپ کو مختلف اردو فورمز پر ملیں گے، یہی لوگ اردو بلاگنگ میں نظر آئیں گے اور فیس بک پر بھی یہی لوگ ہوں گے جو اردو لکھ رہے ہوں گے یعنی اردو کے حوالے سے جہاں دیکھو یہی چند مٹھی بھر لوگ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس گروہ میں اضافہ بہت آہستہ سے ہو رہا ہے۔ چھوٹی سی بات یہ کہ مجھے لگتا ہے، جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے کہ اردو والے علیحدہ گروہ (Isolated Group) بنائے بیٹھے ہیں اور بہت ہی کم لوگ اس گروہ سے باہر دیکھتے ہیں اور جنہوں نے دیکھا ان کی اکثریت دنیا کی ”احساسِ کمتریوں“ سے متاثر ہو کر اردو سے دور ہو گئی۔ جبکہ ہونا تو ایسا چاہئے تھا کہ وہ باہر دیکھتے اور مزید لوگوں کو اپنی طرف قائل کرتے، مگر افسوس! وہ خود قائل ہو گئے۔

فیس بک پر اردو کے حوالے سے کئی مختلف گروپ بنا دیئے گئے ہیں لیکن جس گروپ میں دیکھو یہی مٹھی بھر لوگ ہیں اور تمام گروپ ایک ہی طرز پر چل رہے ہیں۔ وہی لوگ گروپ ”الف“ میں ہیں، وہی ”ب“ میں اور وہی ”ج“ میں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم اپنی تحریر شیئر تو مختلف گروہوں میں کرتے ہیں مگر ان گروہوں میں موجود وہی مٹھی بھر لوگ ہیں۔ دیکھا جائے تو ان گروہوں کے لوگ تو ویسے ہی اردو سیارہ اور اردو کے سب رنگ وغیرہ دیکھتے ہیں اور تحریر تک پہنچ آتے ہیں۔ بے شک انہیں مخصوص گروہوں میں ایک ہی تحریر بار بار ایک دوسرے کے سامنے پیش کریں مگر ساتھ ساتھ ہمیں نئی تحاریر ادھر ادھر ایسے گروہوں میں اور ایسے لوگوں سے بھی شیئر کرنی چاہئے جو اردو مواد پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن آج تک اردو بلاگستان تک رسائی نہیں حاصل کر پائے۔ اگر آپ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائیٹوں پر کسی سیاسی، مذہبی یا ٹیکنالوجی وغیرہ کے متعلق پاکستانی گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں تو وہاں پر موضوع سے متعلقہ اردو تحاریر بھی شیئر کیا کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ باقی سب انگریزی تحریر شیئر کر رہے اور آپ اردو، بس یہ دیکھیں کہ جہاں آپ تحریر شیئر کر رہے ہیں وہاں پر موجود لوگ اردو پڑھنا جانتے ہیں یا نہیں اور شیئر کی جانی والی تحریر موضوع سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں۔ مزید ہمیں ادھر ادھر ہر جگہ اردو لکھنی چاہئے، دیگر گروہوں کے ساتھ شامل ہو کر اردو میں بات چیت کرنی چاہئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس طرف لانا چاہئے۔ جیسا کہ پچھلی تحریر میں لکھا تھا کہ انٹرنیٹ پر اردو لکھنے اور پڑھنے کے خواہش مند افراد خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر غلط انداز میں تلاش کرنے کی وجہ سے ان کی اردو مواد تک رسائی نہیں ہو پاتی۔

اردو کے چند مخصوص گروہوں سے باہر نکلیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اردو بلاگستان، اردو لکھنے اور گوگل میں اردو میں تلاش کرنے کی آواز پہنچائیں۔ یوں خودبخود اردو بلاگوں کی ٹریفک بڑھ جائے گی۔

چلتے چلتے بونگی نما خوش فہمی:- آپس کی بات ہے کشتی کنارے کے قریب ہے اور آخری منجدھار کشتی ڈبونے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کامیابی سے کنارے لگتی ہے یا ڈوب جاتی ہے۔ ویسے مزہ تو اسی میں ہے کہ جس کے سنگ چلے تھے اگر وہ ڈوبے تو اس کے ساتھ ہی ڈوب جائیں۔ بھیچ منجدھار میں ساتھ چھوڑنا تو بے وفائی عظیم ہے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

ضروری نوٹ:-

اگلی تحریر اس سلسلہ کی تیسری اور آخری تحریر ہو گی۔ اس میں شعیب صفدر صاحب کے اردو بلاگر گروپ میں شروع کردہ سوالنامہ کے ایک ایک جواب کو دیکھتے ہیں، لیکن اس سے پہلے ٹیگ کا ایک سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ جس میں لکھنا صرف یہ ہے کہ آپ کی نظر میں اردو بلاگوں کے قارئین/وزیٹر کم ہونے کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا سدِباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بہتر تو یہ ہے کہ آپ تھوڑی تفصیلی وضاحت کریں لیکن یہ نہ ہو کہ تفصیل میں جاتے جاتے کوئی بھی کچھ بھی نہ لکھے، اس لئے لازمی نہیں کہ آپ کوئی لمبی چوڑی تحاریر میں تجزیہ پیش کریں بلکہ بے شک چند سطور ہی لکھ دیں تو ہمیں ایک دوسرے سے کافی کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔

ہاں تو میں اس سلسلہ میں ٹیگ کرتا ہوں پورے ”اردو بلاگستان“ کو۔۔۔ مزاح لکھنے والے مزاحیہ انداز میں اس مسئلہ کو بیان کریں، فلاسفر فلسفہ جھاڑیں، جن کو ہم جیسے نکمے دوستوں کی کمی ہے وہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے نکمے لوگوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں، جو اپنے دشمنوں سے تنگ ہے وہ حفاظتی تدابیر لکھیں اور جو یکسانیت و محدود سوچ سے بیزار ہیں وہ نئے ”آئیڈیاز“ دیں تاکہ بہتری کی طرف سفر کیا جا سکے۔

اس تحریر کا اگلا حصہ ”سوال: اردو بلاگ پر کم وزیٹر کی وجوہات – جواب: حد کر دی ہم نے“ ملاحظہ فرمائیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 19 تبصرے برائے تحریر ”اردو بلاگوں کے تھوڑے قارئین کی وجوہات

    1. وعلیکم السلام
      پہلی بات تو یہ کہ اس پر پہلے ہی کئی لوگ لکھ چکے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اس پر لکھیں تو آخر لکھیں کیا؟ اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی آئیڈیا ہے تو بتائیے گا میں اس پر لکھنے کی حتی المقدور کوشش کروں گا۔

  1. سوالنامہ دیکھنے کے لئے مجھے فیس بک پر لاگ ان ہونا پڑے گا۔ اور میں فیس بک سے طویل معیادی رخصت پہ ہوں۔ 🙄
    سوالنامہ دیکھنے کے لئے متبادل بندوبست کیا جائے۔ 😐

    1. جو حکم سرکار۔ کل اگلی قسط پیش کر دی جائے گی۔ اس میں سوالنامہ مکمل دستیاب ہو گا۔
      ویسے فیس بک اور اس کے ”بُکیوں“ سے اتنی دوری کی وجہ جان سکتا ہوں؟

      1. فیس بک ہر بندے کے مزاج کے موافق نہیں۔
        اگرچہ فیس بک کے فوائد اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی مسائل بھی جڑے ہیں جن کی تفصیل لمبی ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ میں فیس بک کو صحت مند سوشل نیٹ ورکنگ کا ذریعہ نہیں‌سمجھتا۔ سوشل نیٹ ورکنگ کے بہترین ٹولز بلاگز اور سوشل نیٹ ورکنگ فورم جیسے اردو محفل وغیرہ ہیں۔ فورمز اور بلاگ پر آپ موضوعات اور مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ جبکہ فیس بک جیسے پلیٹ فارم تبادلہ خیال کی بجائے لوگوں‌کی نجی زندگیوں میں‌ تاک جھانک تک ہی محدود رہتے ہیں۔

  2. ایک بات کا اضافہ کہ جہاں تک ہو سکے ویب کی تمام خدمات کو اردو انٹرفیس میں استعمال کرنا چاہیئے مثلاً ای میل’ گوگل پلس اور سرچ وغیرہ۔ اس طرح سے ان بڑی ویبسائٹوں پر اردو انٹرفیس استعمال کرنے والے افراد کا اضافہ ہو گا تو یہ اردو کو مزید اہمیت دیں گے اور اردو میں مزید خدمات مہیا کریں گے۔انشاللہ۔

  3. اگلی قسط میں ان لوگوں کے نام اور کام بھی شامل کریں جو ٹیٹوریل تحریر کرتے ہیں مثال یہ ہے کہ ورڈپریس کےبارے یا بلاگنگ کے بارے میں ، بلاگ اسپاٹ کے بارے میں اور دیگر کئی سافٹ ویئرز وغیرہ کے ٹیٹوریل لکھتے ہیں ۔ ان کے کام کو سراہا جائے ۔
    بس میں نے اتنا ہی کہنا تھا اگر منظور ہوتو جناب ۔

    1. پورے بلاگستان کو ٹیگ کرنے سے کسی کو کیا پتہ کہ اسے ٹیگ کیا گیا ہے ۔ آپ شروعات کریں ٹیگ کرکے اس کے بعد پھر یہ سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔ ورنہ جب تک ٹیگ نہ کریں جی تو کوئی اس پر توجہ ہی نہیں دیتا

      1. بھائی کم از کم آپ چند لوگوں کو تو پتہ چل ہی گیا ہے لہذا اگر آپ چند لوگ ہی لکھ دو تو میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ باقی آپ نے مزید آگے لوگوں کو ٹیگ کر کے سلسلہ کو آگے بڑھا سکتے ہو۔

    2. واقعی اس طرح کوئی حوصلہ افزاء نتائج ظاہر نہیں ہوں گے، میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ دیکھیں تو سہی کتنے لوگ ہیں جو اس طرف توجہ کر رہے ہیں یا پھر ہم ہی اس درد میں مبتلا ہیں۔ باقی محمد بلال خان نے تحریر لکھ دی ہے اور امید ہے کہ باقی بھی دو چار لوگ حصہ ضرور ڈالیں گے۔ مزید جو بھی لکھے وہ آگے بلاگران کو ٹیگ کر دے۔

  4. اسلام علیکم
    ١. ہمیں مختلف موضوعات پر مضامین کو اردو میں ترجمہ کر کے بلاگ کرنے چاہیں (سائنسی، طبی، ادبی، فنی، مذہبی، کھیل، ملکی غرض ہر قسم کی تحریر )
    ٢. مشہور ویب سائٹس کے آپس میں رابطے قائم کرنے چاہیں (فسبوک ، گوگل ، ٹوٹر ورڈ پرس، لایو جرنل وغرہ )

    عمرفارووق

  5. السلام علیکم بلال
    یہ سوالنامہ تو مجھے بھی نہیں دکھے گا کیونکہ میں فیس بک استعمال نہیں کرتی۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر یہاں بھی دیکھ لیتی تو شاید جواب نہ لکھتی یہ سوچ کر کہ میں چونکہ باقاعدگی سے نہیں لکھتی اور بلاگز پڑھتی بھی نہیں تو خود کو بلاگرز کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتی۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اردو بلاگرز میں کمیونیکشن گیپ زیادہ ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انٹرنیٹ صارفین کو یونی کوڈ اردو اور اردو بلاگز کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ اسی لئے قارئین کی تعداد اکا دکا ہوتی ہے۔ ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات بلاگز پر تبصرہ پوسٹ کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال آپ کا میرے بلاگ پر تبصرہ ہے۔ یوں بہت سے لوگ تبصرہ نہ کر سکنے کی وجہ سے بور ہو جاتے ہیں اور دوبارہ نہیں آتے یا کبھی کبھار آتے ہیں۔

  6. معذرت کہ یہاں ہی پوچھ رہی ہوں۔ اردو بلاگ ورڈ پریس یا بلاگر میں سے کہاں زیادہ بہتر رہتا ہے اور ان پر منتقلی کی معلومات کہاں سے مل سکیں گی؟

    1. اگر آپ کی مراد ورڈپریس ڈاٹ کام اور بلاگ سپاٹ ڈاٹ کام سے ہے تو موجودہ صورت حال میں اردو کے حوالے سے جتنی بہتر سہولیات بلاگ سپاٹ ڈاٹ کام دے رہا ہے اتنی ورڈپریس ڈاٹ کام نہیں دے رہا۔ اس لئے فی الحال میں ان دونوں میں سے بلاگ سپاٹ ڈاٹ کام کو ہی ترجیح دوں گا۔
      باقی یہ لنک اس معاملے میں آپ کی کافی راہنمائی کر دے گا۔ اگر پھر بھی نہ تو بتائیے گا میں دیگر تفصیلی لنک یا پھر خود ہی سارا کام کر دوں گا کیونکہ یہ کوئی بڑا کام نہیں۔

      1. بہت شکریہ بلال۔ فی الحال تو میرا بلاگر ڈاٹ کام کا ہی ارادہ ہے۔ میں نے کوشش کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے میرے بلاگ پر ڈیٹا 1 ایم بی سے زیادہ ہے یا کوئی اور وجہ ہے کہ ٹرانسفر مکمل نہیں ہوتا۔ اب مجھے بتائیں کہ کیا کروں یا پھر جب بھی آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو میں آپ کو ہی زحمت دوں اس کام کے لئے۔
        معذرت کہ میں ہمیشہ کوئی مسئلہ ہی لیکر آتی ہوں یہاں۔

        1. آپ ایسا کریں کہ اپنے موجودہ بلاگ کا بیک اپ بنا کر مجھے ای میل کر دیں۔ میں اس بیک اپ کو بلاگر ڈاٹ کام کے مطابق تبدیل کر کے واپس آپ کو بھیج دوں گا اور پھر آپ اسے بلاگر ڈاٹ کام پر امپورٹ کر لیجئے گا۔ موجودہ بلاگ کا بیک اپ بنانے کے لئے اس لنک سے مدد لی سکتی ہیں۔ مزید اپنا ای میل آپ تک پہنچانے کے لئے ایک ای میل بھی کر دی ہے۔
          باقی معذرت والی کوئی بات نہیں، مجھے اچھا لگتا ہے کہ جب میری وجہ سے کسی کا کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ لوگوں کی امیدوں کا آپ سے وابستہ ہونا اللہ کی آپ پر رحمت ہے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *