اپریل 24, 2013 - ایم بلال ایم
18 تبصر ے

خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے

خلاصہ

اسلام (قرآن و حدیث) میں ہمیں امیر (خلیفہ) کے اوصاف، اس کے کردار، مسلمانوں کو امیر کی اطاعت اور نافرمانی کرنے وغیرہ کے بارے میں تو ملتا ہے لیکن امیر مقرر کرنے کا ”طریقہ کار“ نہیں ملتا۔ میرے حساب سے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں خصوصیات کے حامل کو اپنا امیر مقرر کرو جبکہ امیر مقرر کرنے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے یعنی مسلمان حالات کے مطابق، باہمی مشاورت سے اپنا امیر مقرر کر لیں۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں اپنا کوئی جانشین یا اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا۔ البتہ مختلف واقعات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی نظر میں آپﷺ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کا امیر حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے کسی کو مقرر نہیں کیا تھا۔ میرے خیال میں اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے خلیفہ بنانے کا اختیار آنے والے وقت اور مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا، تاکہ مسلمان حالات کے مطابق باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کر لیں۔

حضورﷺ کی وفات کے بعد امیر مقرر کرنے پر مشاورت شروع ہوئی اور پھر حالات کچھ ایسے بن گئے تو اچانک حضرت عمرفاروقؓ نے خلیفہ کے لئے حضرت ابوبکرصدیقؓ کا نام تجویز کیا اور ان کی بیعت کر لی۔ اس کے بعد مدینے کے لوگوں(جو درحقیقت اُس وقت پورے ملک میں عملاً نمائندہ حیثیت رکھتے تھے)کی اکثریت نے اپنی خوشی سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ کو اگرچہ مدتوں کے تجربے سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارِگراں حضرت عمرؓ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا آپؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے کے لئے اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا اور پھر دیگر لوگوں کا اس پر متفق ہو جانے سے حضرت عمرؓ خلیفہ بنے۔

حضرت عمرؓ نے اپنے دورِخلافت میں ایک خطبہ میں واضح کر دیا تھا کہ جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے۔ جب حضرت عمرؓ کو زخمی کیا گیا تو لوگوں نے آپؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا کہا تو آپؓ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو مجھ سے بہتر و افضل حضرت ابوبکرؓ مقرر کر چکے ہیں اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتروافضل رسول اللہﷺ نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہﷺ انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ، عبدالرحمنؓ بن عوف کا نام لیا اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمرؓ تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے۔ ان چھ صحابہ نے اتفاق رائے سے اپنے میں سے تین لوگ منتخب کر لیے۔ پھر ان تینوں نے اتفاق رائے سے خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو دے دیا۔ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بہت سوچ بچار، عام لوگوں کا رحجان کس طرف ہے اور کئی صحابہ اکرامؓ سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کیا۔

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت باغی اور شورش پسند عنصر مدینہ پر چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ یہ لوگ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ میں سے ایک کو خلیفہ بنانے چاہتے تھے، لیکن ان تینوں حضرات نے انکار کر دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بھی گئے لیکن ان دونوں حضرات نے بھی صاف انکار کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ سے خلافت سنبھالنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ نے اس کا یوں جواب دیا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“۔

حضرت علیؓ کی وفات کے قریب لوگوں نے پوچھا کہ اے امیر المومنین! اگر آپ فوت ہو جائیں تو ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ آپؓ نے جواب دیا ”میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں، نہ منع کرتا ہوں۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو“۔ حضرت علیؓ کی وفات کے قریب ہی لوگوں نے کہا کہ آپؓ اپنا ولی عہد مقرر کر جائیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا۔

قارئین! فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقے میں کونسی بات، کونسی چیز مشترک تھی؟ خلفاء راشدین اور تب کے دیگر مسلمان، خلیفہ منتخب کرنے میں کس چیز کو خاص طور پر مدِنظر رکھتے تھے؟ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقوں میں سے آج کے دور میں خلیفہ مقرر کرنے کے لئے کونسا طریقہ اپنایا جا سکتا ہے یا کونسا طریقہ مناسب رہے گا؟ خود تحقیق کریں اور جانیں کہ خلیفہ مقرر ہونے کے طریقے میں وہ کونسا بنیادی اصول تھا، جس کو اس وقت کے مسلمان سب سے زیادہ ترجیح دیتے تھے اور وہ کونسی بات تھی جو خلافت کو بادشاہت سے ممتاز کرتی تھی؟ سب سے اہم بات کہ اسلام نے خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کن کو دیا ہے؟ خاص طور پر ان نکات پر غور کریں کہ اسلام (قرآن و حدیث) میں خلیفہ مقرر کرنے کا طریقہ نہ ہونا، حضورﷺ کا اپنا جانشین مقرر نہ کرنا، حضورﷺ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا مشاورت کرنا، حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے حضرت ابو بکرؓ کا اکابر صحابہؓ سے مشورہ کرنا اور پھر دیگر مسلمانوں کا اس سے متفق ہونا، حضرت عمرؓ کا خطبے میں یہ فرمانا کہ ”جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے“، مزید حضرت عمرؓ کا کسی کو خلیفہ نامزد نہ کرنا، حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد جب عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو خلیفہ نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تو ان کی اس معاملے میں بہت سوچ بیچار اور خاص طور یہ جاننا کہ عام لوگوں کی اکثریت کا رحجان کس شخصیت کی طرف ہے، حضرت علیؓ کا یہ فرمانا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ کا یوں فرمانا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“، مزید آپؓ کا ولی عہد مقرر کرنے والی بات پر یہ فرمانا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا“۔

ایک نظر ”جمہوریت کیا ہے؟“ پر بھی ہو جائے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 18 تبصرے برائے تحریر ”خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے

  1. بہت عمدہ اور محنت سے لکھی ہوئی تحریر ہے ۔ اسلام ہمارا مذہب ہے اور ہم سب کو اس سے محبت ہے لیکن اسلام کا سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرنے والے گروہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے پر تیار نہیں ۔ اس کا واحد علاج یہی ہے کہ ان سے اس وقت تک مکالمہ جاری رکھا جائے جب تک کہ ان پر اصل بات واضح نہیں ہو جاتی ۔

  2. بلال بھای ماشا للہ
    بہت اچھی تحریر اللہ پاک اپ کو ہمیشہ اپنے مسلمان بھاہیون کی خدمت کرنے کی توفیق عطاءفرماے ؛؛
    اگر والدہ صاحبہ حیات ہیں تو ان سے نظر بھی اتروا لیا کریں”اپ کی ساری تحریریں پڑھی بہت اچھی لگی ہیں
    معزرت کے ساتھ مضمون سے تھوڑا ہٹ کر لکھ رہا ہوں وہ جو اپ نے سولر سسٹم کا مضمون لکھا ہے وہ آ پ نے اس کا اگلا حصہ نیہں لکھا یا میں ہی نہ ڈونڈسکا اگر میری غلطی ہے تو معزرت کرتا ہوں؛؛

  3. آپنے اپنی تحریر میں ہی ان سوالات کا جواب دیدیا ہے ” مشاورت” اس سے ظاہر ہے آج کا جمہوری نظام ہی دراصل اسلامی نظام ہے
    جس میں مشاورت ہی بنیادی عنصر ہے اپنا سربراہ منتخب کرنیکا، جو ہر عہد کا طرہقکار ہوگا۔ آپنے جو خلفۃ راشدین کے حوالے دیے ہیں حقیقت پر مبنی اور گیراں قدر ہیں-

  4. بلال بھائی! میری طرف سے اَتنی اچھی اور پُر تحقیق تحریر پر مبارکباد۔ اَس تحریر سے کافی کچھ سیکھنے کو مِلا بالخصوص” سقیفہ بنی ساعدہ “کے بارے میں، یہ میں بطور حوالہ استعمال کر لیا کروں گا۔

    آپ نے اَس تحریر میں” ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر “کے بارے میں ذکر کیا ہے، کچھ اِس کے بارے میں تفصیل افشاء کر دیجیے۔

    1. جہاں تک میری معلومات ہے اس کے مطابق ”ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر“ نہایت ہی زبردست سافٹ ویئر ہے اور بہت محنت سے تیار کردہ معلوم ہوتا ہے۔ تراجم اور تفسیر کے حوالے سے یہ کتنا مستند ہے یہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ تحقیق کرنے اور حوالے ڈھونڈنے میں بہت آسانی ہو جاتی ہے اور پھر احادیث کی طباعت شدہ کتب سے حدیث ڈھونڈنے میں آسانی رہتی ہے۔
      اس سافٹ ویئر کی تفصیل اور ڈاؤن لوڈ لنک آپ کو یہاں سے مل جائیں گے۔
      http://www.compsi.com/aqfs/
      ویسے اس اور اس جیسے دیگر سافٹ ویئر سے جو ہمارے میڈیا اور ایک صاحب نے زیادتی کی تھی اس کا ذکر میں پہلے ایک تحریر ”میڈیا لایا ایجادیوں کی برات“ میں کر چکا ہوں۔

  5. لوگوں کو ایسے مطالبے کرنے سے پہلے کچھ تاریخ کا مطالعہ بھی کرنا چاہئیے۔ آج تک دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے نبی کے مرتے ہی آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں۔ شرعی قوانین جہاں بھی مسلط کئیے جاتے ہیں وہاں خون خرابا اور غیر انسانی حرکا ت شروع ہوتی ہیں ۔ مذہب کی سیاست سے جان چھڑائیں اسکو لوگوں کا ذاتی مسئلہ رہنے دیں اور سائنسی اور جدید علوم حاصل کریں، اسی میں آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے۔

  6. السلام علیکم!
    میں آپ کی محنت کی قدر کرتا ہوں ، نیت بھی آپ کی یقینا نیک ہو گی مگر خدارا اردو کتابوں پر کبھی انحصار نہ کریں جس کا جو دل کرتا ہے لکھ دیتا ہے اور اس موضوع پر تو اکثر سعودی حکمرانوں کو خوش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔۔۔۔چندہ کر لیے!
    یہ جو آپ نے خلافت علی کے باب میں لکھا ہے (خود عبداللہ بن سبا مصر سے بھیس بدل کر مدینہ آیا اور اپنے چیلوں کو تاکید کی کہ خلیفہ کے تقرر کے بغیر اپنے علاقوں کو ہرگز واپس نہ جائیں) یہ قطعا جھوٹ ہے سفید جھوٹ۔ حیرت ہے کہ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی نے خلافت و جمہوریت میں اس بھیس بدلنے والے کا ذکر تو کر دیا جسکا کتب حدیث میں‌کوئی ذکر نہیں ملتا مگر اس شخص کا ذکر کیوں نہیں کیا جس کی وجہ سے حضرت عمر کو خطبہ دینا پڑا اور بعد میں اس شخص نے جبرا قبضہ بھی کرلیا اسلامی حکومت پر؟؟
    اس موضوع پر آج کے دور میں اگر آپ احادیث صحیحہ کی روشنی میں‌اس تمام معاملے کو جانا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پر مولانا اسحاق صاحب کے نام سے انکے خلافت و ملوکیت اور خلافت اور کربلا ( 10 حصے ) کے لیکچرضرور ملاحظہ کریں۔ اس نازک معاملے کو صرف تاریخی کتابوں سے حل نہ کریں کیونکہ جیسے اپنی مرضی کی تاریخ ہندوستان میں مغل لکھواتے تھے ویسے ہی عرب میں ساری تاریخ بنو امیہ اور بنی عباس کی اپنی لکھی ہوئی ہے چاہے طبری میں ہو یا البدایہ والنہایہ میں۔
    مع السلام

    خلافت اور کربلا:‌ http://www.youtube.com/watch?v=ryPP38JjmZY
    خلافت و ملوکیت:‌ http://www.youtube.com/watch?v=23M0BtBGupk

    1. میری طرف سے ان انگریزی کتب کا اضافہ فرما لیں
      http://www.amazon.com/Chasing-Mirage-Tragic-lllusion-Islamic/dp/0470841168
      اس کتاب میں دی بیس والا چیپٹر
      ویسے مجھے تارک فتح کی صورت سے نفرت ہے 🙂
      دوسری کتاب ہے
      http://www.amazon.com/After-Prophet-Story-Shia-Sunni-Split/dp/0385523947
      پہلے خلیفہ سے لے کر شہادت امام حسین تک کے واقعات کی تفصیل اور کڑی سے کڑی جوڑنے والی اس سے بہتر کتاب میں نے نہیں پڑھی ۔ اگر نہ ملے تو مجھے میسج کریں اپلوڈ کر دوں گا

    2. آپ نے بالکل درست کہا کہ اردو میں لکھی ہوئی کتابوں پر زیادہ یقین نہیں کریں۔ اردو میں کوئی نیا خیال تو ہے نہیں۔ پرانی کتابوں کو چبا کر اگل دیا جاتا ہے۔ تاریخ بھی آدھی جھوٹی یکطرفہ لکھی ہوئی ہے۔ اور سائنس سے مذہب کو ثابت کرنے کی کوششیں دیکھ کر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔ عقل بڑی کہ بھینس؟

  7. اللہ والیو ہم تو اپنے مخصوصے سڑیلے کٹیلے انداز میں‌کہہ چکے کہ جمہوریت کو ہی کچھ ترامیم و اضافوں‌ سے ٹھیک کرنا پڑے گا۔ لیکن مذہبی نرگسیوں‌ کو سب ہرا ہرا نظر آوے ہے۔ نعرے کی کشش انہیں اس سے آگے دیکھنے کی اجازت ہی نہیں‌ دیتی۔ لاتعداد بحثیں، لا متناہی بحثیں، نظریاتی بحثیں، فوائد و نقصانات پر بحثیں اور عملآ؟ عملآ ایک ٹکا بھی نہیں، جب بھی عمل کی بات ہے اس بدنصیب ملک میں مذہبی طبقے نے سب سے زیادہ مایوس کیا۔ بجائے کہ مثال قائم کرتے، اُلٹا عوام کو ذلیل کرنے میں حصہ ڈالا، آمروں‌ کے ہاتھ مضبوط کیے اور “سیاسی مولویوں‌” کا لقب پایا۔
    رہے نام اللہ کا اس نے ہر گروہ کے لیے ایک ایک سچ پیدا کر دیا۔ اور اس سچ کو ایسا خوشنما کر دیا کہ وہ اس سے باہر دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔

  8. شوری ان معاملات کے لیے بیٹھتی ھے جن میں شرعی احکام ھماری نظروں سے اوجھل ھوتے ھیں یا ان کی تشریح کی مسئلہ لاحق ھوتا ھے ، یا ان معاملات میں جن کا فیصلہ اللہ تعالی نے اپنی خاص حکمت کے تحت عقل انسانی پر چھوڑ دیا ھے ، اور شوری کے اندر “کثرت رائے” کے جراثیم کو داخل کرنا تو سمجھ سے ہی باہر ھے !
    مثلا شوری خلیفہ کا چناو کرنے کے لیے بیٹھی ھے وہ تو اس بات پر غور خوض کررھی ھے کہ قرآن و سنت، تقوی ،دین داری ،معاملہ فہمی ،فقہ الواقعہ وغیرہ میں کون شخص خلیفہ بننے کا سب سے زیادہ مستحق ھے ! یہ کثرت رائے جاننے کی تو کوشش ہی نہیں ھے ! کثرت کی رائے ایک اھمیت ضرور رکھتی ھے مگر ایک اصول کی حثیت تو ھرگز ھرگز اس کے وھم و گمان میں سے بھی نہیں گزری ! مثال لیں ایک شخص کے بارے میں رسول اللہ کے فرامین سے یہ گمان پیدا ھوتا ھے کہ خلیفہ بننے کے لیے یہ شخص اقرب الی الحق ھے تو شوری کی کیا مجال ھے کہ کسی دوسرے کو کثرت کی بنا پر خلیفہ کے لیے نامزد کردے ! اس کا مقصد تو پیش آمدہ مسئلے میں اپنی فہم و عقل کے مطابق حکم شرعی کی تلاش ھے نہ کہ کثرت رائے کو فیصلے کا مآخذ قرار دینا!

    اس کے بعد شوری کے اندر ھر ایک مسلمان کو شامل سمجھنا یہ اس سے بڑی گمراھی ھے ! عقل و نقل اس چیزپر گواہ ھے کہ معاملات سیاسیہ بہت ہی اعلی درجے کے لوگوں کا کام ھے یہاں تک کہ موجودہ جمہوریت بھی عوام کو اپنے نمائندوں کے چناو کا اختیار تو دیتی ھے مگر عوام کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ ہر حکومتی مسئلے میں دخل اندازی کرسکیں ! فیصلہ کن قوتیں ،اشخاص اور ادارے عوام کی پسند یا ناپسند سے ماورا ھوکر وہ فیصلہ کرتے ھیں جو کہ ملک و عوام کے لیے فائدہ مند ھو نہ کہ پسندیدہ!!ھرمسلمان کو شوری کا اھل سمجھنا درست بات نہیں ھے اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ھیں
    {اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَoمَا لَکُمْقف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَoاَمْ لَکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَo}
    ’’کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے،تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم یہ کیسے فیصلے کرتے ہو؟کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ باتیں پڑھتے ہو‘‘۔(سورۃ القلم:37 تا35)
    {اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتلا سَوَآءً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ o}
    ’’کیاا ن لوگوں کا جوبرے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں اُن لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے کہ ان کا مرنا جینا یکساں ہوجائے!براہے وہ فیصلہ جو یہ کررہے ہیں ‘‘۔(الجاثیۃ:21)
    کسی کو یہ غلط فہمی نہ رھے کہ یہ درجہ بندی صرف روز آخرت سے متعلقہ ھے اللہ تعالی تو اصحاب تک میں درجہ بندی فرمارھے ھیں

    وما لكم الا تنفقوا في سبيل الله ولله ميراث السماوات والارض لا يستوي منكم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئك اعظم درجة من الذين انفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسني والله بما تعملون خبير
    وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
    اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)، تم میں سے جن لوگوں نے فتحِ (مکّہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں اپنا مال) خرچ کیا اور قتال کیا وہ (اور تم) برابر نہیں ہوسکتے، وہ اُن لوگوں سے درجہ میں بہت بلند ہیں جنہوں نے بعد میں مال خرچ کیا ہے اور قتال کیا ہے، مگر اللہ نے حسنِ آخرت (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے فرما دیا ہے، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اُن سے خوب آگاہ ہے
    اسی لیے رسول اللہ اور صحابہ اکرام اصحاب بدر اور ہجرت مدینہ والے لوگوں کے مشورے کو فوقیت دیتے تھے بلکہ یہاں تک بیان ھے کہ اہل شوری ھیں ہی اصحاب بدر اور ہجرت مدینہ میں شریک لوگ!

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *