مارچ 8, 2019 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

سائیکل سلامت، سفر بخیر

ایک کتاب جو مکمل لکھی ہونے کے باوجود اپنے لکھاری کی ازلی سستی کے باعث آج تک شائع نہیں ہو سکی، اس کتاب کے ایک صفحہ پر درج ہے کہ یہ دریائے جہلم کا پُل ہے اور اس کو عبور کرتے ہی میں اپنے چج دوآب سے باہر نکل جاؤں گا۔ اس سے آگے بھی مجھے تنہا کئی دریا پاٹنے ہیں۔ کئی وادیوں سے گزرنا ہے۔ بڑی منزلیں مارنی ہیں۔ لیکن اس سب سے پہلے، اپنا دوآب چھوڑنے سے پہلے، جہلم کا پُل عبور کرنے سے پہلے، چناب کناروں والا منظرباز کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ میں کوئی انوکھا نہیں، جو تنہا بمبوکاٹ پر سیاحتی سفر کرنے نکل کھڑا ہوا بلکہ تنہا سیاحتی سفر یا مہم جوئی(ایڈونچر) کرنے والوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ اس معاملے میں وہ سائیکل والا کھوجی بھائی تو کمال ہے کہ جو ملک تو ملک، بین البرِاعظم ہزاروں کلومیٹر سفر کرتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ کون ہے؟ الجواب:- وہ کوئی بیگانہ نہیں بلکہ ہمارا پاکستانی بھائی ہی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا نمائندہ اور وطنِ عزیز کے خوبصورت چہرے اور امن پسند سوچ کو ساری دنیا پر واضح کر رہا ہے۔

میری طرح اس کا شعبہ بھی کمپیوٹرسائنس ہے۔ ہائے ہائے۔۔۔ لگتا ہے کہ کمپیوٹرسائنس والوں کے ذہن میں سیاحت کا ”فتور“ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ تلاش کی جستجو اور کھوج کی لگن کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ میرا شعبہ، سیروسیاحت اور فوٹوگرافی جیسے کئی شوق اس سائیکل والے کھوجی سے ملتے جلتے ہیں، لیکن اس بات کو موازنہ ہرگز نہیں سمجھنے کا۔۔۔ اول تو کسی کا کسی سے موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ہر انسان اپنے آپ میں ایک پوری کائنات ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے منفرد زمان و مکاں کے مدار میں گھوم رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بالفرض کوئی موازنہ کرنے کی جرأت کرے بھی تو بس اتنا جان لیجئے کہ ہم جیسے ”مُلا کی دوڑ مسجد تک“ اور وہ برِاعظم در برِاعظم سفر کرنے والا کامران علی سائیکلسٹ۔ جی ہاں! میری مراد ”کامران آن بائیک“ (Kamran on Bike) والا کامران ہی ہے۔

کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی، بولے تو ڈاکٹر کامران علی پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔ پیدائشی طور پر ”مہم جو“ اور اپنے تصورات میں فنکار، اس بندے کا تعلق پاکستان کے شہر لیہ سے ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں ”کسی طرح روزی روٹی چلتی رہی اور پھر بندہ سیاح ہو اور اسے کسی نہ کسی شکل میں اپنے تصورات، سوچ اور خاص طور پر کشف کے اظہار کی توفیق ملے تو پھر اس سب کے بعد بھلا اور کیا چاہیئے؟“۔ کامران علی کو قدرت نے اظہار کی خاص الخاص توفیق بخشی ہے۔ بلاگ لکھنے اور الفاظ کے جیسے کھلاڑی وہ ہیں، سو تو ہیں لیکن جناب ویڈیو اور خاص طور پر فوٹوگرافی کے ذریعے اپنے کشف کا زبردست اظہار کرتے ہیں۔ کمال کے آرٹسٹ ہیں۔ کئی جگہوں پر ان کی تصویروں کی نمائش ہو چکی ہے۔ اب تو وہ زیادہ تر کیمرے کے ذریعے ہی تصاویر بناتے ہیں جبکہ کچھ عرصہ پہلے تک باقاعدہ مصوری بھی کرتے تھے۔

کامران علی کو سائیکل پر سیروسیاحت کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ بچپن اور نوجوانی میں سائیکل پر کئی ایک سفر کرتے رہے اور پھر 2002ء میں ملتان سے لاہور تقریباً 400کلومیٹر کا فاصلہ دو دن میں طے کر ڈالا۔ اس کے بعد اقبالؒ کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اقبال کا شاہین اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی کو چلا۔ دورانِ فلائیٹ بلندیوں سے نیچے نیلے سیارے کی خوبصورتی دیکھتا رہا۔ بہتے دریا، سرسبز میدان، پہاڑ اور آباد شہروں کو جہاز کی کھڑکی سے دیکھ کر کامران سوچتا رہا کہ ان جگہوں پر جا کر، ناجانے کیسا محسوس ہوتا ہو گا؟ ان شہروں کے لوگ کیسے ہوں گے؟ ان کی پسند و نا پسند کیا کیا ہوں گی؟ وہ کیا زبان بولتے ہوں گے؟ رہن سہن، تہذیب و ثقافت کیسی ہو گی؟ جہاز کی کھڑکی سے نظر آنے والے شہروں کی گلیاں، ان خطوں کا موسم، کھانے، موسیقی اور باقی سب کچھ ناجانے کیسا ہو گا؟ ان سارے سوالوں سے کامران کے دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی کہ وہ جہاز کی اس کھڑکی سے دیکھنے کی بجائے اس جہان کی خاک پر اترے، خود یہاں کی سیروسیاحت کرے اور قریب سے سب کچھ دیکھے اور محسوس کرے۔ تبھی کامران نے خود سے وعدہ کیا کہ ایک دن میں سائیکل پر ان علاقوں کی سیروسیاحت کروں گا اور اپنے تمام سوالات کے جواب تلاش کروں گا۔

آخر کار 9سال بعد کامران علی سائیکل لے کر چل دیئے اور آج تک گویا سالہاسال سے سفر کر رہے ہیں۔ سخت موسموں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی ایک ممالک، مختلف شہروں، بلندوبالا پہاڑوں، صحراؤں، جنگل بیابانوں، سرسبز میدانوں اور پہاڑی دروں کو عبور کرتے جا رہے ہیں۔ مختلف قوموں، ثقافتوں اور لوگوں سے ملتے ہیں اور یوں اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔ ”کیا غضب کا کھوجی ہے یار“۔۔۔ کامران علی اپنے بین الاقوامی سفر کے پہلے مرحلے میں جرمنی سے سائیکل پر چلے اور یورپ کے کئی ممالک سے ہوتے ہوئے جب ترکی پہنچے تو انہیں اپنی والدہ کی طبیعت ناساز ہونے کی خبر ملی۔ یوں سفر ادھورہ چھوڑنا پڑا لیکن دوسرے مرحلے میں ترکی سے ہی دوبارہ سفر شروع کیا اور پھر ایران اور ترکمانستان وغیرہ کے راستے چین اور پھر وہاں سے درۂ خنجراب کو عبور کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے۔ اس دوران تقریباً دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور 2015ء میں پاکستان پہنچے۔ یہ سب کچھ خود ایک بڑا کارنامہ تھا لیکن کامران کے پاؤں تھکے نہ جذبے ماند پڑے اور جناب امریکہ بھر میں سائیکل چلانے چل دیئے۔ جنوری 2016ء تا مارچ 2017ء میں پورے جنوبی امریکہ کو سائیکل پر عبور کیا، کئی ممالک کا سفر کیا اور اس دوران تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر سائیکل چلایا۔ ”ایتھے رکھ“۔۔۔ اس کے بعد شمالی امریکہ کو عبور کرنے چل دیئے اور اب اسی سفر میں مصروف ہیں۔ بس آج کل سردی اور شدید برفباری نے انہیں روک رکھا ہے اور اس دوران مضامین لکھنے، اپنی بنائی تصاویر اور ویڈیوز پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ موسم بہتر ہوتے ہی الاسکا کی جانب چل دیں گے۔ کامران 2005ء سے اب تک سائیکل پر 43 ممالک گھوم چکے ہیں اور اس دوران کل تقریباً 45ہزار کلومیٹر سائیکل چلایا۔

منظرباز کہتا ہے کہ ہجوم کی بجائے تنہا سیاحت کا اپنا ہی مزہ ہے۔ تنہائی میں فطرت کی بولیاں سمجھ آنے لگتی ہیں۔ قدرت کئی ایک راز کھولتی ہے۔ بندہ خوف کا حصار توڑ کر اس سے اگلے میدانوں میں قدم رکھتا ہے۔ دوسروں کے سہارے چلنے اور لوگوں سے امیدیں باندھنے سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ تنہا سفر کے جہاں فوائد ہیں، وہیں اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے بلکہ بعض اوقات بھاری قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے۔ اس لئے سوچ سمجھ کر۔ ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔ ویسے بھی ہر کسی کا حوصلہ کامران علی جتنا نہیں ہوتا۔ دورانِ سفر کامران یاداشت کے لئے جو ڈائری لکھتے رہے، مجھے اس کے کئی صفحات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس ڈائری میں انہوں نے کیا لکھا؟ یہ تو وہ خود مضامین وغیرہ کی صورت میں اپنے فیس بک پیج یا ویب سائیٹ وغیرہ پر اپڈیٹ کرتے رہیں گے لیکن اس ڈائری کو پڑھ کر مجھے معلوم ہوا ”یارو! تلاش کا یہ سفر آسان تو نہ تھا“۔ مثال کے طور پر موسم کی شدت سے لڑنا اور خطرناک جنگلی جانوروں کے درمیان بالکل تنہا جنگل بیابانوں میں راتیں گزارنا تو بالکل بھی آسان نہیں ہوتا۔ اوپر سے کئی کئی ہفتے تن تنہا صحراؤں کی ریت چھانتے پھرنا۔ خیر کھوج آسان تھوڑی ہوتی ہے۔ ویسے بھی جو اپنے آرام دہ بستر چھوڑتے اور سفر کی سختیاں جھیلتے ہیں، قدرت کے تحفے بھی انہیں ہی ملتے ہیں۔ کائنات کے لاجواب نظارے ان کی روح کو تازگی بخشتے ہیں۔ کہیں سمندر کے اُس پار سورج ڈوبتا ملتا ہے تو کہیں پہاڑوں میں اُگتا۔ پانیوں پر تیرتے دلکش عکس اور میلوں پھیلی سکون کی لہریں ان کے دل میں اترتی ہیں۔ رازِ عشق کُھلنا شروع ہوتا ہے۔ تبھی تو وہ سب ذہن میں سماتا ہے کہ جو پچھلے دنوں محبت و امن کے لئے کامران نے بلاگ پر لکھا۔ اس کے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ”نفرت آپ کو اندر سے کھا جاتی ہے۔ محبت کرو، انسانوں سے محبت۔ یہ زندگی تو صرف چار دنوں کی ہے، اگر وہ بھی بھرپور طریقے سے نہ جی پاؤ گے تو پھر کیا فائدہ؟ خواب دیکھو، محبت کرو، سفر کرو، دوست بناؤ اور دنیا کے رنگ دیکھو“۔ مزید کہتے ہیں کہ”اگر پھر بھی بات سمجھ نہیں آتی تو سائیکل اٹھاؤ، گھر سے باہر نکلو، تب دیکھنا دنیا تمہاری سوچ سے کتنی بڑی ہے“۔

یہ تحریر پڑھنے والے کئی لوگ یقیناً کامران علی کے بارے میں پہلے سے جانتے ہوں گے۔ جو نہیں جانتے تھے، آج ان سے بھی کامران کا تعارف ہو گیا۔ ویسے کامران علی ایک ایسا کردار ہے کہ جس کا احاطہ چھوٹی سی تحریر میں نہیں ہو سکتا۔ اس پر تو کئی کتابیں بلکہ زبردست ناول لکھا جا سکتا ہے۔ بڑی اچھی فلم بن سکتی ہے۔ بہرحال آپ بھی کئی طرح سے تعاون کر کے کامران کے سفر میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ان کے فیس بک پیج اور ویب سائیٹ وغیرہ کا لنک دے رہا ہوں۔ ادھر جائیے، زبردست تصویریں دیکھیں، ویڈیوز سے لطف اندوز ہوں اور یہ دیکھیئے کہ آپ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔

آپس کی بات ہے کہ کامران کے سفر میں ”کامرانی“ کا کوئی خاص ذکر نہیں ملا۔ ”چھڈ یار“۔۔۔ اتنے بڑے بڑے سفروں میں درجن بھر ”کامرانیاں“ تو بنتی ہیں۔ خیر دعا کرتا ہوں کہ کامران کو جلد از جلد ”کامرانی“ نصیب ہو۔ 😉 پتہ نہیں یہ میں نے دعا دی ہے یا بدعا 😀 بہرحال
سائیکل والا کھوجی سلامت، سائیکل سلامت، سفربخیر۔۔۔

کامران آن بائیک فیس بک پیجویب سائیٹانسٹاگرامیوٹیوب


جرمنی سے پاکستان والے سفر کی ویڈیو

ساؤتھ امریکہ میں سفر کی جھلکیاں


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *