گزشتہ سے پیوستہ
ہماری قسمت دیکھیں کہ ننانوے پر سانپ نے ڈسا۔ بلکہ بدبختی تو یہ تھی کہ اپنے ہاتھوں ڈسوایا اور راہ کھوٹی کر بیٹھے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ”بھاگ، بھاگ اور بھاگ“ جیسے حالات کے باوجود بھی کچھ نہیں مل رہا تھا۔ الفاظ منہ موڑے بیٹھے تھے… مناظر روٹھے ہوئے تھے… سکون جا چکا تھا… کیفیات کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔۔۔ اور یہ سب وہاں پر بھی ہو رہا تھا اور میں حیران تھا کہ اس نگری میں تو ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ہو رہا تھا اور شدت سے ہو رہا تھا۔ راہ کھوٹی کرنے والے سانپ کا زہر ہی اتنا تیز تھا کہ اس کا اثر کئی ماہ و سال کے بعد ابھی تک تھا۔۔۔ حال تو یہ تھا کہ دو دن ہونے کو آئے اور ایک بھی مطلوبہ تصویر تک نہ بنی۔ بہرحال اس سے پہلے کہ یہ حالات مجھے مزید ذہنی دباؤ کا شکار کرتے، میں نے ہی ہتھیار ڈال دیئے، دست بردار ہو گیا، اپنا آپ سونپ دیا۔۔۔ کیمرے پیک کئے اور خس و خاشاک کی طرح ہواؤں کے رخ اڑنے لگا۔۔۔ لے جا جہاں تیرا دل چاہے۔۔۔
کسی نگری سے بابا غلام حسین ندیم پکارے کہ
آ کوٹ مٹھن دیا والیا
لے جپھ دے ساڈی سار
اے کوٹ مٹھن کے سردار! آ ذرا ہمارا حال تو دیکھ۔۔۔
سپردگی کی طاقت کام دکھانے لگی اور میری زبان پر کچھ بے ترتیب سے مصرعے آنا شروع ہوئے۔۔۔ ”اے حسن حقیقی نور ازل… کیا حال سناواں دل دا… میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں… ہر صورت وچ آوے یار… تخت ہزاروں رانجھن آیا… وچ روہی دے… آ چنوں رل یار… کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن… دم مست قلندر مست قلندر“۔۔۔
مگر یہاں تک بھی زہر کا اثر موجود تھا۔ کیونکہ جب دل کیفیات سے بھرپور ہو کر ڈھرکنے ہی لگتا تو بدذوقی خلل ڈال دیتی۔ جس وقت کے دین پور سے چلے تھے تو ایک الجھن، ایک کوفت، ایک مشکل درپیش تھی۔ وہ یہ کہ گاڑی میں تیز اور شدید اذیت ناک، نام نہاد موسیقی چلی جا رہی تھی۔ بہت کہا کہ خدا کے لئے جوگی پر رحم کھاؤ۔ سفرِ کوٹ مٹھن ہے، خواجہ غلام فریدؒ کی نگری جا رہے ہیں، اک پرانی خواہش پوری ہونے کو ہے، کچھ تو ماحول بننے دو۔ لیکن شوخیوں کو عشق کی صدائیں کہاں سنائی دیتی ہیں۔۔۔
”بڑے فرید“ نے کہا تھا کہ ”اُٹھ فریدا سُتیا، توں دنیا ویکھن جا… جے کوئی مل جائے بخشیا، تُوں وی بخشیا جا… ٹُریا ٹُریا جا فریدا، ٹُریا ٹُریا جا“۔۔۔ اور ہم اک دوسرے فرید کی نگری میں چلے جا رہے تھے اور چلے ہی جا رہے تھے۔۔۔ اور پھر پہنچے خواجہ غلام فریدؒ کے دربار میں۔ یہاں بھی عظیم شاہ صاحب نے راہنما(گائیڈ) کا انتظام کر رکھا تھا۔ جس نے بھرپور راہنمائی کی۔ فاتحہ خوانی کے بعد ”احاطۂ فرید“ میں بیٹھ کر ہمارے اک ہمسفر عمیر افضل صاحب نے خواجہ صاحبؒ کی کافیاں پڑھیں۔ مگر اک شخص اس محفل سے غیر حاضر تھا۔ اور وہ کہاں تھا؟ بتاتا ہوں مگر پہلے یہ سنیں کہ جب وہ واپس آیا تو عمیر برادر نے دوبارہ اپنی خوبصورت آواز میں کافیاں پڑھ کر سماں باندھ دیا۔۔۔ اس کے بعد لنگر کھایا اور واپسی۔۔۔
واپسی کی اب ایسی بھی کیا جلدی حضور۔۔۔ محفل سے غائب ہونے والا کہاں تھا، یہ تو سن لیں۔ وہ کیا ہے کہ جب ہم کوٹ مٹھن پہنچے تو… گاڑی رُکی… ہم اترے… چل دیئے… پہنچ گئے… اور پہنچا دیئے گئے۔۔۔ حاضر ہوئے… سلام عرض کیا… فاتحہ پڑھی… خالی الذہن ہوئے… تو… بلائے گئے۔۔۔
ہاں بھئی آ کدھر آیا ہے؟
آیا بھار برہوں سِر باری
لگی ہو ہو شہر خواری
میرے سر پر ہجر کا بھاری بوجھ آن پڑا ہے۔ اور شہر شہر رسوائی اور خواری ہو رہی ہے۔
دل یار کِتے کُرلاوے
تڑپاوے تے غم کھاوے
میرا دل یار کی جدائی میں روتا ہے، تڑپتا ہے اور غم کھاتا ہے۔
دل پریم نگر ڈوں تانگھے
جتھاں پینڈے سخت اڑانگے
دل پریم نگر کی طرف جانے کی چاہ رکھتا ہے، لیکن وہاں کے راستے بڑے دشوار ہیں۔
کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مل دا
دلِ زار کا حال کیا سناؤں کہ کوئی محرم راز ہی نہیں ملتا۔
٭٭٭٭٭
”تجھے تو لکھنے اور فوٹوگرافی وغیرہ کی صورت کئی محرم راز دیئے گئے تھے۔ ان کے ساتھ مخلص رہتا… کھوج کرتا… کشف پاتا… اظہار کرتا… اور منزل پا لیتا۔“
منظرباز:- میں نے راہ کھوٹی کر لی… میں شرمندہ ہوں… اپنی حرکتوں سے… اپنے کرتوتوں سے… اپنی وعدہ خلافی سے۔۔۔
”نادانیوں اور گناہوں پر شرمندہ ہونا اچھی بات ہے۔ اور اس سے بھی اچھا یہ ہے کہ آئندہ ان سے بچ۔ اور سفر دوبارہ شروع کر۔۔۔“
منظرباز:- اب میرے لئے کیا حکم ہے؟
”اب اور کتنے حکم تمہیں چاہئیں؟ کتنے اذن درکار ہیں؟ جب ایک دفعہ اک عرصے کے لئے راہ متعین کر دی گئی ہے تو کھل ڈل کر چل۔“
منظرباز:- میں لاچار خس و خاشاک ہو گیا ہوں… ہمت ہار رہا ہوں… ہتھیار ڈال رہا ہوں… خدارا! زہر کا تریاق ہو۔۔۔
”دعوے ہم سے دوستی کے اور اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالنے لگے۔ ویسے بھی خدا کے علاوہ کسی کے آگے ہتھیار نہ ڈال۔ ارادے مضبوط رکھ۔ حوصلے سے چل۔“
منظرباز:- دست بدستہ خاموش۔
”پریشان نہ ہو۔ اس زہر کا تریاق روہی (چولستان) میں ہے۔۔۔ جا! روہی کی اور جا… کیمرہ اٹھا اور واپس اپنے مدار میں گھوم اور گھومتا جا۔۔۔ تیری حوصلہ افزائی کے لئے… سفر دوبارہ شروع کرنے کے واسطے… روہی میں “تحفے” موجود ہیں۔۔۔ جا! انہیں سمیٹ لے۔۔۔“
اگلا حصہ : صادق گڑھ محل بہاولپور
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں