جہاں چشمے نغمے گنگناتے ہیں۔ جہاں ہوائیں لوری سناتی ہیں۔ جہاں چاندنی روح تک اترتی ہے۔ جہاں قدم قدم پر رب یاد آتا ہے۔ جس دیس کا اک اک نظارہ حسن کا شہکار ہے۔ جس دیس کے سر پر پربت کا تاج ہے۔ جس دیس میں پریاں بستی ہیں۔ جو دیس دنیا میں جنت ہے۔ افسوس صد افسوس! اس دیس میں خون بہایا گیا۔ اس دیس کو رولایا گیا۔ اس دیس میں صفِ ماتم بچھی ہے۔ وہ جنت خون کے آنسو رو رہی ہے۔ افسوس صد افسوس! آج پربت کا تاج شرم سے جھک گیا۔
میرا ملک پاکستان بہت پیارا ہے۔ یہ ملک سیاحوں کی جنت ”تھا“۔ ایک وقت میں یہاں کئی قسم کے موسم ملتے ہیں۔ صبح سخت گرمی میں سیاحت کے لئے نکلیں تو شام تک کئی موسم دیکھتے دیکھتے برف پوش چوٹیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں پھلوں کے خوبصورت باغات، بلندوبالا درختوں کے جنگل، کئی قسم کے جنگلی جانور، رنگ رنگ کے پرندے، برف پوش چوٹیاں، سنگلاخ پہاڑ، پہاڑوں کا سینہ چیرتے چشمے، ٹھاٹھیں مارتے دریا، بلندوبالا پہاڑوں پر بنے قلعے، دنیا کی خطرناک ترین چوٹی نانگا پربت، دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو، دنیا کا دوسرا بڑا بلند ترین میدان دیو سائی، دنیا کا سب سے بڑا ”نان پولر گلیشیئر“ بلتورو، عجوبے کی حیثیت رکھتی شاہراہ قراقرم، قدرتی حسن سے مالا مال وادیاں، ایک سے بڑھ کر ایک جھیل، خوبصورت تاریخی عمارتیں، میدان، صحرا، نخلستان، سمندر اور ناجانے کیا کیا ہے میرے خوبصورت پاکستان میں۔ ناجانے کتنی تہذیب و ثقافت کا امین ہے میرا پاکستان۔
افسوس صد افسوس! کہ ہم نے سب کچھ بھلا دیا۔ اسلام کے نام پر بننے والے خوبصورت ملک کو درندوں کے حوالے کر دیا۔ اپنے گلے تو ہم پہلے ہی کاٹ رہے ہیں لیکن شرم کا مقام تو یہ بھی ہے کہ ہمارے مہمان بھی محفوظ نہیں۔ ہم اپنے مہمانوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ کبھی غیر ملکی مہمان کرکٹ ٹیم نشانہ بنتی ہے تو کبھی سیاح قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ سانحے پر سانحے ہوتے ہیں اور ہم ہر دفعہ اسے غیروں کی سازش کہتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اگلے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔
جن کو معلوم نہیں ان کو بتاتا چلوں کہ 22 اور 23 جون 2013ء کی درمیانی رات گلگت بلتستان میں دیامر کے علاقے بونر دیامروی نانگا پربت بیس کیمپ پر دس غیرملکی سیاحوں سمیت ایک پاکستانی سیاح کو قتل کر دیا گیا۔ اُدھر چلاس کے علاقے میں پہلے بھی کبھی کبھار فسادات ہو جاتے تھے لیکن مشہور یہ تھا کہ چند لوگ آپسی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ دوسرے شہروں اور غیر ملکی سیاحوں کو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اس واقع نے سیاحوں کو کچھ اور ہی پیغام دیا ہے۔ ذرا سوچیں! پہلے ہی سیاح اس ”سیاحوں کی جنت“ کا رخ نہیں کر رہے اور کوئی بھولا بھٹکا ہی ادھر آتا تھا لیکن اس واقع نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ جس علاقے میں جہاں چاہے سیاح خیمے لگا کر رہتے اور خود کو محفوظ سمجھتے۔ آج اس علاقے میں وحشت ہے۔ جس شاہراہ قراقرم پر سیاحوں کا رشک ہوتا تھا آج ادھر سوائے دھول، مٹی اور اداسی کے کچھ نہیں۔ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ ایسے واقعات اس علاقے کی روزی روٹی کا قتل بھی کر رہے ہیں کیونکہ ادھر کے بہت زیادہ لوگوں کا کاروبار سیاحت سے وابستہ ہے۔
کہتے ہیں کہ پاکستان سیاحوں کی جنت ہے۔ اگر ملک میں امن و امان ہو اور سیاحت پر توجہ دی جائے تو بہت زیادہ زرِمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف سیاحت سے ہی بجٹ کا بہت بڑا حصہ حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن جب سیاحوں کی جنت میں قتل ہوں گے تو بھلا کون ادھر کا رخ کرے گا۔ غیر ملکی تو دور ملکی سیاح بھی اُدھر جانے سے ڈریں گے۔ اسے صرف قتل کا سانحہ نہ سمجھیں بلکہ یہ انسانیت کے قتل کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت علاقے کی بربادی کا سانحہ بھی ہے۔ بڑا عجب تماشا ہے جی۔ جن کا قصور ہے، جن کی لڑائی ہے، وہ کیوں نہیں مرتے؟ ڈرون اپنے دشمنوں کے تعاقب میں بے گناہ عوام بھی مارے تو دوسرے ڈرون رکوانے کے لئے عوام ماریں۔ بڑا عجب تماشا ہے جی۔
پتہ نہیں آپ کے لئے یہ واقعہ کیسا ہے؟ میری تو دکھ اور جذبات کی بڑی عجب کیفیت ہے۔ شاید یہ اس لئے ہے کہ مجھے وہ علاقے بہت پسند ہیں، یا شاید مجھے سیاحت کا شوق ہے۔ بہرحال جو بھی ہے، بے شک میں افسردہ ہوں لیکن میں مایوس نہیں۔ ان شاء اللہ وقت بدلے گا۔ جہالت کے اندھیرے ختم ہوں گے۔ غفلت کی نیند سوئے ہوئے لوگ اٹھیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان واپس سیاحوں کی جنت بنے گا۔ جہاں امن اور سکون ہی سکون ہو گا۔ ان شاء اللہ لوگ اس جنت کو دیکھنے ضرور آئیں گے اور ہم پربت کے دامن میں دوبارہ جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔۔۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا؟ بڑا عجب سوال ہے جی۔ پاکستان کی سیاحت کرو تو پتہ چلے کہ یہ ملک ہمیں کیا کیا دے رہا۔ یہ دھرتی اپنے سینوں سے کون کون سی نعمت اگل رہی ہے۔ دیکھو تو پتہ چلے کہ یہ زمین ہمیں بہت کچھ دے رہی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہم ٹھیک طرح سے وصول کر رہے ہیں یا نہیں؟ خیر اس زمین سے ہمارا کوئی ادلے بدلے کا سودا تھوڑی ہے۔ یہ تو رابطہ ہے روح سے روح تک۔ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ یہ تو ہم سب میں بستا ہے کیونکہ میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے۔ خدارا! اس ”جنت“ سے اپنے تعلق کو سمجھو، اس کی حفاظت کرو اور جنت میں انسانیت کا قتل نہ کرو۔
افسوس صد افسوس۔
امن و امان کے حوالے سے آئیڈیل صورتحال بھولے تو خیر ہمیں ایک عشرہ ہو چکا، مگر ایسی دل گداز خبریں یوں پے در پے پہلے کبھی نہ آئی تھیں۔ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک، زیارت سے فیری میڈوز (پریوں کی چراگاہ؟ لکھتے ہوئے بھی دل دکھتا ہے) تک بری خبروں کی کچھ ایسی قطار بندھی ہے کہ رونے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ محسوسات کی شدت حد سے بڑھ جائے تو بے حسی میں بدلنے لگتی ہے ، خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں کٹھنائیوں کے اس دشت سے نکلنے کی سمت اور ہمت عطا فرمائے۔
اصلاح کر لیں ۔ گلگت ، سکردو ، چلاس ، میں شیع سنی فسادات مسلسل ہوتے آئے ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کو پہلی بار “شہید” کیا گیا ہے۔
واقعی بہت افسوس ہوتا ہے یہ سب دیکھ دیکھ کر۔۔۔۔!
حالات اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوں گے جب تک ایک واضح اور عملی خارجہ اور داخلہ پالیسی نہ بنا لی جائے۔ اور جب تک تمام تر شدت پسند گروہوں کو واضح شناخت نہیں دی جاتی اور بلا امتیازِ رنگ و نسل و فرقہ و مسلک کاروائی نہیںکی جاتی۔
سر جی میری ننھی منی سمجھ کے مطابق سری لنکن ٹیم پر حملے والی چین کا حصہ ہے یہ سب
کہ ہمیں عالمی طور پہ تنہا تر کر دیا جائے