گزشتہ سے پیوستہ
سالہا سال سے بہت کچھ ایسا لکھتا آ رہا ہوں کہ جو ابھی تک کہیں شائع نہیں کیا۔ یوں ہی سمجھ لیں کہ آج تک جو شائع (شیئر) کیا اس سے کئی گنا زیادہ لکھا پڑا ہے۔ کچھ میری سستی کہہ لیں اور کچھ مناسب وقت کا انتظار ہے۔ بہرحال اسی انتظار کے دوران لکھنے لکھانے کے حوالے سے دو بڑے عجب اتفاقات ہو چکے ہیں۔ وہ یوں کہ میں پہلے ہی اپنے تخیل کے زور پر کچھ لکھ چکا تھا تو بعد میں خوبخو ویسا ہی عملی صورت میں ہو گیا۔ پہلا اتفاق وہ کہ جب ہم گھوڑوں پر سوار پہاڑی بلندیوں کی طرف چلے جا رہے تھے۔ مجھے سارا منظرنامہ بالکل ویسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسا میں پہلے سے لکھ چکا تھا اور اس کی عملی صورت دیکھ کر حیران ہوئے جا رہا تھا۔ اور جب گھوڑے کے مالک سے اپنے والے گھوڑے کا نام پوچھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اس گھوڑے کا نام بھی بَلّی ہی تھا۔۔۔ دوسرا اتفاق یہ کہ میرے خوابوں میں اک قدیم قلعہ بستا تھا۔ جہاں میرا تخیل بڑی اونچی اڑانیں بھرا کرتا۔ پھر اپنے تئیں اک افسانے میں وہ سب لکھ چھوڑا۔ خیر وقت گزرتا گیا، اس دوران سندھو نگری کے اک قلعہ کا معلوم ہوا، اس کی تصویریں بھی دیکھیں اور پچھلے دنوں جب وہاں گیا تو شدید حیران ہو گیا۔ کیونکہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بالکل ویسا ہی قلعہ نکلے گا کہ جیسا میں نے تخیل کے زور پر تعمیر کر رکھا تھا۔۔۔ اک سطح مرتفع کی وادی سی ہے۔ جس کے چاروں اور پہاڑ ہیں۔ اور ان پہاڑوں کے اوپر قلعہ کی بیرونی فصیل دیوارِ چین کی مانند ہے۔ سطح مرتفع کے درمیان میں اک اونچی سی پہاڑی (ٹیلہ) ہے۔ جس کے اوپر بادشاہ کا محل ہے، جہاں اک شہزادی بھی رہتی ہے۔ پاس اک ندی بہتی ہے۔ جس کے اُس پار اک سرسبز گاؤں ہے۔ گاؤں سے قلعہ تک آنے کے لئے ندی کے اوپر ایک پُل ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ہم سندھو نگری میں ”رنی ندی“ کے اس گھاٹ پر پہنچے کہ جہاں عظیم دیوارِ سندھ نے ہمارا راستہ روکا۔ پانی کی گزرگاہ میں کھڑے بڑے بڑے بُرج ماضی کے کسی پُل کی چغلی کھا رہے تھے۔ یہ جگہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ مانے جانے والے ”رنی کوٹ“ کا سان دروازہ تھا۔ جس کی اطراف میں دیوارِ سندھ پہاڑوں کے اوپر تک پھیلی ہوئی تھی۔ کوہستانِ کیرتھر میں واقع اس قلعہ کا نام اسی رنی ندی کے نام پر ہے۔ جو کہ مغربی سمت میں موہن دروازہ سے قلعہ میں داخل ہو کر مشرق میں سان دروازہ سے نکلتی ہے۔ مختلف اوقات میں رنی کوٹ قلعہ مختلف حکمرانوں کے پاس رہا۔ لیکن اس قلعہ کا تاریخی پسِ منظر آج بھی ایک معمہ ہے۔ گو کہ مشہور محقق و تاریخ دان اور سیاح سلمان رشید صاحب نے بھی اس قلعہ پر کافی تحقیق اور کام کیا، کئی گتھیاں سلجھائیں۔ بے شک بعض شواہد اس قلعہ کی تاریخ کو دو ہزار سال پیچھے تک لے جاتے ہیں، لیکن یہ کب اور کیوں بنایا گیا، اس متعلق تاریخ کے گمشدہ اوراق ابھی تک حضرتِ انسان کے ہاتھ نہیں لگ سکے۔۔۔ رنی کوٹ کی فصیل کے اندر میری کوٹ اور شیر گڑھ جیسے چھوٹے چھوٹے قلعے بھی موجود ہیں۔ میری کوٹ قلعہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ اسے اٹھارہویں صدی عیسوی میں تالپور کے میروں نے انگریزوں سے بچاؤ کی خاطر ازسرنو تعمیر کروایا تھا۔ لیکن 1843ء میں جنگ کے بعد انگریز اس قلعہ پر قابض ہو گئے تھے۔ (تصویر میں وہی میری کوٹ قلعہ ہے اور اس سے اوپر پہاڑی پر شیرگڑھ قلعہ ہے)۔۔۔
جب جب کسی آثارِ قدیمہ، مثال کے طور پر قلعوں کو دیکھنے گئے تو وہاں پر جنگ و جدل کی باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ کس جگہ تیرانداز ہوتے تھے، کس جگہ نیزوں والے۔۔۔ سچ پوچھیں تو مجھے قلعوں کی تاریخ اور خونی جنگوں سے زیادہ تب کے انسان کی دیگر کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ جب جب کسی ایسی عمارت کو چھوتا یا اس میں چلتا پھرتا ہوں تو مجھے بُرجوں سے برستے تیروں سے زیادہ برستی بارش میں بُرجوں کی اوٹ میں کھڑا وہ جوان دکھائی دیتا ہے کہ جس کے دل میں بس اتنی آرزو ہوتی ہے کہ یہ جنگ ختم ہو جائے اور میں اپنے محبوب کے پاس لوٹ جاؤں۔۔۔ کوئی سورما کیسا تلوار باز تھا اس سے زیادہ میں اس کی خاندانی زندگی، لین دین اور رہن سہن وغیرہ کا سوچتا ہوں۔ مجھے اس سے ذرا بھی لگاؤ نہیں ہوتا کہ وہ کس وڈیرے، کس میر، کس سردار یا کس چوہدری وغیرہ کی حکمرانی بچانے کے لئے اپنا اور دوسروں کا خون بہاتا رہا ہے۔ ماضی کی کسی جنگ میں تیر چلاتے اور نیزہ پھینکتے جوان کے تیر یا نیزے کے کمالات دیکھنے کی بجائے اس کے دل و دماغ کے ان کونوں میں دیکھنا پسند کرتا ہوں کہ جہاں اس کے جذبات تھے، خواب تھے اور انہی خوابوں کی تکمیل کی خاطر، اپنی بقاء کے لئے وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو مارنے پر مجبور تھا۔ محاذِ جنگ سے پیچھے وہاں جانا چاہتا ہوں کہ جہاں اس کا گھر آباد تھا… جہاں کسی آنگن میں بچے کھیلتے تھے… جہاں کوئی محبوب کی یاد میں تڑپتا تھا… کوئی ماں اپنے بچے کا راہ تکتی تھی… ہل چلاتا باپ دل ہی دل میں اپنے جوان سپوت کی بخیر واپسی کا منتظر تھا۔ مختصراً یہ کہ مجھے خون بہاتی نام نہاد بہادری کی بجائے انا کو مارتی بہادری میں… جیت کے شادیانوں کی بجائے بہار کے گیتوں میں… لڑائیوں کی بجائے محبتوں میں… گویا لطیف جذبات میں دلچسپی ہے۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں