اکتوبر 30, 2018 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

تصویر کے ساتھ بے ہودگی اور حقیقی منظر

جب تصویر کا تن من چیخا۔ آج کے دور میں یہ صرف فوٹوگرافرز کو ہی نہیں بلکہ سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پیار کی یہ واردات تو بہت پہلے سے شروع ہو چکی تھی، مگر ”انٹرول“ کے فوراً بعد ایک سیاحتی سفر کے دوران ایک صاحب ملے۔ کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ سیاحت کے دوران جنگل بیابانوں میں، انجان راستوں پر کوئی نہ کوئی فیس بک فرینڈ یا ’انٹرنیٹی‘ جان پہچان والا مل جاتا ہے۔ خیر شمال کے اس سفر میں جو صاحب ملے تھے، اتفاق سے ان کا راستہ بھی وہی تھا جو میرا تھا۔ اکثر مقامات پر ہم تقریباً آگے پیچھے ہی پہنچتے رہے اور پورے سفر کے دوران کئی دفعہ ملاقات ہوئی۔ بہرحال سفر سے واپس آیا اور جب بھی اس سیروسیاحت کے دوران بننے والی کوئی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتا تو وہ صاحب کمنٹ یا پھر انباکس میں اسی منظر کی اور ملتے جلتے زاویے سے اپنی بنائی تصویر بھیج دیتے اور ساتھ لکھتے ”جی نظارہ تو ایسا تھا“۔ وہ جناب کمنٹ میں پھر بھی رعایت دیتے تھے جبکہ انباکس میں واضح کہتے ”آپ کی تصویر جیسا نظارہ ہم نے تو نہیں دیکھا تھا۔ نظارہ تو ہماری تصویر جیسا تھا جبکہ آپ نے خوبصورتی کے چکر میں تصویر کو کیا سے کیا بنا دیا“۔ اکثر ان کو ٹالنے کے لئے جواباً کہہ دیتا ”آپ بجا فرماتے ہیں۔ بس میرا کیمرہ اکثر اوقات کچھ نازیبا حرکات کر جاتا ہے اور منظر کے مصنوعی کپڑے اتار کر اسے فطرتی لباس میں دیکھ لیتا ہے“۔ پتہ نہیں کیوں؟ اس بات کے جواب میں وہ ”استغفراللہ“ کا ورد کرتے۔ ایک دفعہ فرمانے لگے ”بھائی! لوگوں کو وہ دکھاؤ، جو اصل ہے“۔ میں نے کہا ”بھائی! کچھ خدا کا خوف کریں“۔ اب استغفراللہ کہنے کی باری میری تھی۔ 😉 خیر جب ان کی کوئی پیش نہ گئی تو ایک دن بولے ”نظارے کو اصل سے زیادہ خوبصورت بنا کر نہ دکھاؤ۔ کیونکہ جب لوگ وہاں جائیں گے تو آپ کو گالیاں دیں گے کہ ہم تصویر دیکھ کر آئے اور یہاں تو منظرنامہ ہی مختلف ہے“۔ آخرکار صاحب کی اس بات پر تفصیلی جواب دینا ہی پڑ گیا اور میرا جواب کچھ یوں تھا: حضور! اول تو ہم ابھی اس مقام پر نہیں پہنچے کہ کوئی ہماری تحریریں پڑھ کر یا تصویریں دیکھ کر سیاحت کو نکلے۔ بالفرض کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو جو نظارے اور تصویر کو سمجھتا ہے، وہ تو کبھی بھی گالی نہیں دے گا۔ باقی رہی بات اصل نظارے کی تو وہ آپ کی تصویر والا تھا نہ میری والا۔ فی الحال اصل منظر قابو کرنا کیمرہ کے بس کی بات نہیں۔ یہ انسانی آنکھ کا ہی کمال ہے کہ جو اس قدر باریکی اور گہرائی میں دیکھتی ہے۔ دراصل ہم دونوں میں فرق یہ ہے کہ آپ اس منظر کو حقیقی سمجھتے ہیں، جو آپ کے ”کیمرے کی آنکھ“ نے دیکھا۔ جبکہ میری نظر میں حقیقی منظر وہ ہے جو وہاں موجود تھا اور میری آنکھ نے دیکھا تھا۔ پھر میں نے اسی کے قریب ترین تصویر بنانے کی کوشش کی تھی۔ کبھی اسی موسم اور اسی علاقے میں دوبارہ جانے کا موقع ملے تو اپنی اور میرے والی تصاویر ساتھ لے جائیے گا۔ ہر ہر نظارے کے سامنے کھڑے ہو کر موازنہ کیجئے گا کہ کس کی تصویریں حقیقی منظر کے زیادہ قریب ہیں۔ پھر خود ہی پتہ چل جائے گا کہ میں لوگوں کو کیا دکھا رہا ہوں اور آپ کیا کچھ نہیں دیکھ پائے تھے۔ اور ہاں! موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھیئے گا کہ موسم اور مقام بے شک وہی ہو مگر ماہ و سال تو کیا، نظارے تو پل پل میں بدلتے ہیں۔ وہی سورج جو چند منٹ پہلے نارنجی رنگ کا ہوتا ہے وہی چند لمحوں میں سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ سورج تو بہت بڑی بات ہے، جبکہ درجہ حرارت اور ہوا میں نمی وغیرہ بھی کسی منظر پر شدید اثر انداز ہوتے ہیں۔ چند لمحوں میں بادلوں کی حرکت سارا منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیتی ہے۔

اُن صاحب کو دیا گیا جواب ختم ہوا۔ چلو آؤ! اب ہم اپنے پیار کی پینگیں بڑھاتے ہیں اور پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں۔ ارے! کیمرے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو ایویں ان صاحب سے شغل لگایا تھا ورنہ کیمرہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ یہ تو حضرت انسان کے کرتوت ہوتے ہیں جو دھمکیاں لگاتے ہیں کہ میں تمہیں کیمرے یا میڈیا کی طاقت سے ننگا کر کے رکھ دوں گا۔ فی الحال اس بیچارے کیمرے کی کیا مجال جو انسانی آنکھ کے جیسا منظر پکڑ سکے۔ البتہ آنکھ کا کچھ کہہ نہیں سکتا کہ کہاں تک جھانک لے اور کہاں تک اتر جائے۔ کئی دفعہ اترتے اترے دل سے بھی اتر جاتی ہے اور جھانکنے پر آئے تو دل میں بھی جھانک لیتی ہے۔ خیر چھوڑو! ہاں تو پیاری پیاری باتیں یہ ہیں: ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیروسیاحت یا فوٹوواک وغیرہ کے دوران لوگ خود ٹھیک طرح نظارہ جذب نہیں کرتے۔ اس کی جزیات اور رنگوں کی شوخی وغیرہ پر تسلی سے غور نہیں کرتے۔ بس اِدھر کچھ بہتر لگا، اُدھر کیمرہ تاڑا، شٹر مارا اور چلتے بنے۔ گویا ”تاڑومارو تصویر“ بنائی اور پتلی گلی سے نکل لئے۔ اور پھر یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے کیمرے نے جو قید کیا، وہی اصل نظارہ تھا۔ جبکہ اگر غور کیا جائے تو اصل نظارہ زیادہ دلکش و خوبصورت ہوتا ہے۔ اس میں شفافیت، اجالا، دھوپ چھاؤں اور رنگوں کا فرق(Contrast) وغیرہ زیادہ ہوتا ہے۔

تیرے میرے پیار کی ایک عجب بات یہ ہے کہ فوٹوگرافرز سے شکایت کی جاتی بلکہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ تصویر کو اصل منظر سے زیادہ خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ویسے اس کی تو پہلے ہی وضاحت کر دی ہے کہ فوٹوگرافر کی تصویر کا کسی کی بنائی ”تاڑومارو تصویر“ سے موازنہ نہ کرو بلکہ موقع پر موجود اصل نظارے کا بغور جائزہ لو… رنگوں کی شوخی اور منظر کی گہرائی جانچو… دیکھو کہ آسمان نے کیسے کیسے اور کس کس انداز میں رنگ بکھیرے ہیں… ہواؤں کے دوش پر کیا کیا اُڑے جا رہا ہے… دھرتی کون کون سے رنگ اُگل رہی ہے… آڑھی ترچھی شعاعیں کیا کیا گُل کھلا رہی ہیں… پانیوں پر کس کے عکس تیرتے ہیں اور کون کون کنکھیوں سے جھانکے ہے وغیرہ… اور وغیرہ وغیرہ… اور پھر اس سارے وغیرہ وغیرہ منظرنامہ سے فوٹوگرافر کی تصویر کا موازنہ کرنا۔۔۔ ویسے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کئی لوگ تصویر کے ساتھ ”رج رج کے ریجاں لاندے“ یعنی جی بھر کر خواہش پوری کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کا غصہ و جوش بیچاری تصویر پر نکالتے ہیں۔ عجب ہی رنگین مزاج ہوتے ہیں۔ مثلاً آسمان یا پانی نیلا کرنے کے چکر میں نیل کی پوری شیشی ہی انڈیل دیتے ہیں۔ یوں تصویر چیختے ہوئے کہتی ہے ”میں نیل کرائیاں نیلکاں… میرا تن من نیل و نیل“۔ ایسے ہی گھاس سبز کرنے کے چکر میں پڑتے ہیں تو تصویر کہتی ہے ”میں ہرا کچور زہر پیتا، میرا تن من پٹاکے مارے“ 😀 خود سوچو کہ ایسی حرکتیں کرتے ہوئے رنگوں کی پین۔۔۔۔۔او معذرت چاہتا ہوں، میری مراد یہ تھی کہ رنگوں کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دینا، کیا تصویر کے ساتھ بے ہودگی نہیں؟ ویسے ”بے ہودگی“ لکھتے ہوئے بھی زبان پھسل رہی تھی، بڑی مشکل سے قابو کی۔ باقی آپ خود سمجھدار ہو۔

چلو اس داستانِ محبت کی اک اور بات سنو۔ عام طور پر تصویر حقیقی نظارے سے کوسوں دور بلکہ کمتر ہوتی ہے۔ منظر کی گہرائی، ڈائنامک رینج، رنگوں کی شوخی، روشنی کی اقسام اور میگاپکسلز جیسی تکنیکی باتوں میں پڑے بغیر بس اتنا کہوں گا کہ فی الحال کیمرہ انسانی آنکھ کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ اوپر سے تصویر تو صرف رنگ اور مخصوص و محدود فریم ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں منظرنامہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ اک مکمل فضا اور ماحول ہوتا ہے۔ جو بصارت کے ساتھ ساتھ دیگر حواس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

تیرے میرے پیار کی اس کہانی میں پھر ہوتا یہ ہے کہ کئی حواس پر چھا جانے والا منظرنامہ، فوٹوگرافر بیچارے کو کئی مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ اب اسے کون بتائے کہ بھئی! عام طور پر تصویر صرف حسِ بصارت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن فوٹوگرافر تو خوشبو اور دیگر چیزیں بھی کسی نہ کسی شکل میں عکس بند یعنی تصویر میں شامل کرنے کے چکر میں ہوتا ہے۔ کئی تماشے کرتا اور حقیقی منظر کے قریب ترین تصویر بنانے اور پھر ”پوسٹ پراسسنگ“ کے ذریعے مزید بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب پیاری باتیں ہو ہی رہی ہیں تو ایک اور سن لو۔ وہ یہ کہ کیمرے سے تصویر بنانے کے بعد اسے کسی سافٹ ویئر میں مزید بہتر کرنے کے حوالے سے عموماً دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ایک پوسٹ پراسسنگ(Post-Processing) اور دوسری فوٹوشاپڈ یا ایڈیٹنگ(Photoshopped or Editing)۔ تصویر بناتے ہوئے فوٹوگرافر کی آنکھ نے جو منظر دیکھا تھا یعنی حقیقی منظر، تصویر کو اس حقیقی منظر کے قریب لانے کے عمل کو ”پوسٹ پراسسنگ“ کہتے ہیں۔ جبکہ جو عمل حقیقی منظر میں ردوبدل کر دے اسے فوٹوشاپڈ یا ایڈیٹنگ کہتے ہیں۔ فوٹوگرافی کی دنیا میں پوسٹ پراسسنگ تو جائز سمجھی جاتی ہے مگر ایڈیٹنگ کرنے سے وہ تصویر فوٹوگرافی نہیں رہتی، بلکہ ڈیجیٹل آرٹ وغیرہ بن جاتی ہے۔ خیال رہے کہ تصویر بناتے ہوئے جو چیز موقع پر منظر اور فریم میں نہیں تھی، اسے بعد میں سافٹ ویئر کے ذریعے شامل کرنا ایڈیٹنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا جانو! برائے مہربانی پوسٹ پراسسنگ تک ہی رہنا۔ اور جس طرح ایڈیٹنگ کرتے ہوئے کچھ لوگ نظارے کے ساتھ ”دم دما دم“ کرتے ہیں، اس طرح تم کسی دن انسان کو دُم نہ لگا دینا۔ ورنہ ہمیں تو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔

میرے خیال میں آج کے لئے اتنی پیاری باتیں ہی کافی ہیں۔ مزید اوٹ پٹانگ فلٹرز، سٹار ٹریل اور دودھیا پانی وغیرہ یعنی تیرے میرے پیار کے چرچے پھر کسی دن کریں گے۔ آج کیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ بڑھتے بڑھتے بڑھ جائے اور دونوں کی جگ ہنسائی ہو۔۔۔ نئیں نئیں۔۔۔ او نئیں نئیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *