جہاں سویا ہوا تھا، اس کمرے کی کھڑکی پر سورج کی کرنیں دستک دیتے ہوئے کہنے لگیں ”اٹھو! دیکھو! کتنی حسین صبح تمہارا انتظار کر رہی ہے۔“ جب آنکھ کھلی تو کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ گویا میں سب سے آخر پر بیدار ہوا تھا۔ بستر سے نکل کر کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے سینے سے لگا لیا۔ فطرت کا لمس محسوس ہونا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا۔ جہازبانڈہ کی ٹھنڈی مہک نے پور پور کو تروتازہ کر دیا۔ مزید نظاروں کی تلاش میں کمرہ چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگا۔ کیا آپ نے کبھی ”ندیدے لوگ“ دیکھے ہیں؟ مجھے دیکھیئے! مجھ میں مظاہرِفطرت کے حوالے سے ندیداپن ہے۔ ہر جام کے بعد یہی کہتا ہوں ”ساقیا اور پلا اور پلا اور پلا“۔ وہ کیا ہے کہ مجھے فطرت کے گداز بدن کو چھو کر سرور آتا ہے۔ مخملی گھاس پر لیٹ کر پُرکیف ہو جاتا ہوں۔ مجھے پتھروں میں حسین چہرے نظر آتے ہیں۔ پتا پتا نشیلی آنکھیں بن کر مجھے گھورتا ہے۔ گنبد نما تراشے مخروطوں میں محبت کی صدائیں سنائی دیتی ہے۔ بلند پہاڑوں کے سینوں میں دھڑکتے دل محسوس کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ نظاروں کی حوس اور مناظر کی حرص میں مبتلا ہوں۔ اور ہوں بھی کیوں نہیں: آخر میں اک ”منظرباز“ ہوں اور مجھے ہر جگہ ”تم“ نظر آتے ہو۔
خیر جب نظارہ کرنے کمرے سے باہر دوڑا تو برآمدے میں پہنچ کر لان پر نظر پڑی۔ اُدھر ایک اور ہی نظارہ منتظر تھا۔ تمام صنف نازک تیار ہوئے لان میں بیٹھی تھیں۔ انہیں دیکھ کر خیال آیا کہ نہ جانے یہ کیا بلائیں ہیں، جو اتنی جلدی تیار ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے تو خواتین کے تیار ہونے والا فارمولہ ہی غلط ثابت کر دیا ہے۔ آخر میں بھی تیار ہوا۔ ناشتہ لان میں ہی لگایا گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی پہلا نوالہ منہ میں رکھا طبیعت ناساز سی معلوم ہوئی۔ یاخدا، یہ کیا ماجرا ہے؟ ویسے ایسا ہی کئی سال پہلے ایک دفعہ دیوسائی میں بھی میرے ساتھ ہوا تھا۔ تب بھی صبح ٹھیک ٹھاک اٹھا، تیار ہوا اور جب اگلے سفر کے لئے چلنے لگا تو طبیعت اچانک بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ کچھ نہ پوچھیں۔ میری زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں ایک وقت اُس دن دیوسائی میں تھا۔ شدید سر درد اور بخار، گویا بلندی کی وجہ سے ”ارتفاعی روگ“(Altitude sickness) ہو گیا۔ اسے مقامی لوگ ”ہائیٹ لگنا“ بھی بولتے ہیں۔ اور پھر ایسی حالت میں بائیک بھی چلانی تھی۔ بائیک چلاتے چلاتے کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ پردہ سکرین صاف ہو جاتا اور میں رک جاتا۔ جھیل شیوسر تا سدپارہ جس حالت میں پہنچا یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا۔ ایک وقت تو وہ بھی آیا تھا کہ جب میں نے یہی سوچا ”لو بھئی منظرباز! کھیل ختم ہوا، کہانی تمام ہوئی۔“
جہازبانڈہ کی صبح میں بھی بالکل ویسی ہی طبیعت خراب ہوئی تو دعا کی کہ یاخدا! دیوسائی جیسا نہ ہو۔ سبھی ناشتے میں مصروف تھے اور میں ایک طرف دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اسی اثنا میں خرم بسرا بھائی کی نظر مجھ پر پڑی۔ ”آپ ناشتہ کیوں نہیں کر رہے؟“ بس بھائی طبیعت کچھ خراب سی ہے۔ خرم بھائی تو کسی ماں کی طرح میری دیکھ بھال کرنے لگے۔ ”ٹھہرو! ابھی دوائی لاتا ہوں۔ آپ ناشتہ نہ کرو۔ انڈے ابالنے کا کہہ دیتا ہوں۔ بس وہی کھا لو۔ یہ لو! فلاں فلاں گولی کھاؤ۔ تھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل جائے گی۔“ ایک طرف میں دعائیں کر رہا تھا کہ طبیعت سنبھل جائے اور دوسری طرف منظرباز تھا کہ جسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی اور سکون میں تھا۔ میری بیقراری پر اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ“ جانے اور اس کا کام۔ طبیعت ٹھیک ہو گئی تو بہت اچھے، نہ ہوئی تو بھی اس کی مرضی… ”وچ بلھا کون نمانا“۔۔۔
جہازبانڈہ میں سورج کی کرنیں جوان ہو چکی تھیں۔ کسی دیس سے کوئی شاعر بولا کہ
رقص کرتی ہوئی کرنوں کی جوانی کا عرق
میرے اعصاب کی دیرینہ غذا ہے ساقی
جوان کرنوں کے رقص کا عرق جب میرے اعصاب تک پہنچا تو طبیعت سنبھل گئی۔ ناشتے کے بعد جب سب جھیل کٹورہ کے ٹریک پر نکلنے کے لئے تیار تھے تو محسن کی آواز آئی کہ چلنے سے پہلے گروپ فوٹو ہو جائے۔ ساتھ ہی ”بلال صاحب! آئیں تصویر بنائیں“ کی پکار سنائی دی اور میں تصویر بنانے چل دیا۔ بس جی! وہ وعدے جو کبھی کئے ہی نہ ہوں وہ بھی کبھی کبھار نبھانے پڑ جاتے ہیں۔ خیر گروپ فوٹو بنانے کے بعد ٹریک کے لئے نکلے۔ اور کیا دیکھتا ہوں کہ خواتین کو چھوڑ کر باقی ساری لڑکیاں ٹریک کرنے چل پڑی ہیں۔ حالانکہ گزشتہ رات الاؤ کے گرد بیٹھے اکثر یہ کہہ رہی تھیں کہ جہازبانڈہ کے ٹریک نے مت مار دی ہے۔ اب جھیل کٹورہ والا نہیں کرنا۔ تبھی میں نے کہا تھا ”صبح ٹریک پر ضرور جانا، باقی جہاں تک جا سکیں وہیں تک ٹھیک اور واپس آ جانا۔ ایک دفعہ خود کو آزماؤ تو سہی“۔ پتہ نہیں میری تبلیغ کا اثر تھا یا کچھ اور، خیر جو بھی تھا، مگر لڑکیوں کا یوں ہمت کرنا ایک اچھا شگون تھا۔ شدید دھوپ تھی لیکن میں نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ بنیادی طور پر یہ جیکٹ دو موسموں کے لئے بنی تھی۔ اس میں ہوا کے لئے کئی ایک راستے رکھے گئے تھے تاکہ اگر گرمی ہو تو درے کھول دو اور اگر سردی لگے تو بند کر دو۔ گویا باربار جیکٹ پہننے اور اتارنے کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔
ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔۔۔ اور جھیل کٹورہ کی جانب چل دیا۔ جہازبانڈہ کے خوبصورت میدان میں بکھرا ہوا قافلہ بجانب مشرق چلا اور جیسے ہی پگڈنڈی آئی تو سبھی ایک قطار میں ہو گئے۔ پھر چھلکتے کٹورہ کے بہتے جام عبور کر کے دوسری طرف والے میدان میں پہنچے۔ ہم نے اس نالے کے تقریباً ساتھ ساتھ ہی جانا تھا۔ کیونکہ یہ جھیل کٹورہ سے آ رہا تھا اور اسی کی بنیاد ہماری منزل تھی۔ دوسرے میدان میں چرتے جانور اور بل کھاتی ندی منظرنامے کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔ میدان کے آخری کنارے تک تقریباً ایک کلومیٹر فاصلہ ہو گیا اور ماحول ٹھیک ہی رہا۔ بولے تو کوئی خاص چڑھائی نہ آئی۔ میدان کے ختم ہوتے ہی راستہ بلندی پکڑنے لگا۔ پہلے مٹی اور پھر پتھروں پر چلتے ہوئے تھوڑی سی بلندی پر پہنچے۔ ہمارے آگے پیچھے ایک دو انجان گروپس بھی تھے۔ جن کی نظریں راستے کی بجائے کہیں اور تھیں اور کافی وحشی نظریں تھیں۔ ایک بھائی صاحب کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے ان کی بجائے خود کو مخاطب کرتے اور بڑبڑاتے ہوئے کہا ”یار بلال! لڑکیوں کی بجائے راستے کو دیکھ۔ اگر لڑکیوں کو دیکھے گا تو اندھیری کھائی میں گر کر مرے گا اور اگلے جہاں حوریں بھی نہیں ملیں گی۔ اور اگر راستے کو دیکھے گا تو بچ جائے گا اور جان بچی تو کئی حوریں اسی جہاں میں ملیں گی۔“۔۔۔ ارے او حورو! تم کدھر رہ گئیں۔ یقین کرو میں نے مظاہرِ فطرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تو تمہارا ملنا بنتا ہے۔ بہرحال مذاق کے علاوہ عرض ہے کہ مجھے تو لوگوں کی سمجھ نہیں آتی۔ بھئی اگر لڑکیاں ہی تاڑنی ہے تو پھر ان جنگل بیابانوں میں کیوں خجل ہوتے ہو۔ یہ کام تو شہروں میں زیادہ آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اگر پہاڑوں کی اور نکلے ہو تو پھر مظاہرِ فطرت اورمناظر تاڑو، دل کرے تو شٹر مارو اور منظر کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لو۔ باقی لوگوں اور خاص طور پر خواتین کو اپنی موج میں آزادی اور بے فکری سے سیروسیاحت کرنے دو۔
بلندی کے بعد تیسرے مگر پیالہ نما میدان میں اترائی ہونے لگے۔ اس میدان کے دائیں طرف کچھ کھیت اور ایک دو گھر بھی تھے۔ دیکھا کہ اترنے اور پھر چڑھنے کی بجائے بائیں طرف پہاڑ کے ساتھ ساتھ ہموار مگر تھوڑی لمبی پگڈنڈی ہے۔ بس میں اسی پر ہو لیا۔ کیونکہ بار بار اترنے چڑھنے کی بجائے ہموار راستہ بہتر رہتا ہے، بے شک وہ لمبا ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے راستوں پر عموماً جانور چلتے ہیں اور ایسی پگڈنڈیاں انہیں کے چلنے سے بنتی ہیں۔ اس معاملے میں انسان سے جانور سیانا ہے۔ کیونکہ انسان کی طرح جانور شارٹ کٹ کے چکر میں ہلکان نہیں ہوتا، پہاڑوں میں قدرے ہموار راستہ اپناتا ہے اور بلاوجہ اپنی توانائی ضائع نہیں کرتا۔ ویسے انسان بھی تو ایک سماجی جانور(Social Animal) ہی ہے اور جن بنیادوں پر اسے ”اشرف المخلوقات“ بنایا گیا تھا، ان کی اسے آج تک سمجھ نہیں آ رہی۔ جانوروں سے بھی بدتر معاشرے میں جب لوگ کہتے ہیں کہ انسان بن جاؤ۔ تو میں کہتا ہوں کہ انسان تو بہت بڑی بات ہے، فی الحال تم جانور ہی بن جاؤ تو کافی ہو گا۔
جب پہاڑ کے ساتھ ساتھ اور باقی ٹیم سے ہٹ کر تھوڑی بلندی پر جا رہا تھا تو بجانب جنوب مغرب ایک چھوٹی سی جھیل نظر آئی۔ ٹیم کو آواز دی کہ آپ لوگوں کے دائیں ہاتھ بڑے پتھروں کے پیچھے بھی ایک جھیل ہے۔ اگر کوئی دیکھنا چاہے تو آسانی سے پتھروں پر چڑھ کر دیکھ سکتا ہے۔ ہمارا کام تھا اطلاع کرنا اور وہ ہم نے کر دی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ٹیم ایک جھیل دیکھنے سے رہ گئی۔ ویسے بھی اکثر اوقات بڑی منزلوں(خوشیوں) کے مسافر راہ میں پڑنے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یوں بڑی ملیں نہ ملیں مگر چھوٹی خوشیوں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ اپنا تو یہ کہنا ہے کہ خوشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ لہٰذا چند لمحات اُدھر رک کر اس چھوٹی سی جھیل کی خوبصورتی سے لطف لیا، تصویر بنائی اور چل دیا۔ پھر اس تیسرے میدان کے آخری کنارے چڑھائی پر بیٹھ کر باقی ٹیم کو آتا دیکھنے لگا۔ اور جب آگے کی طرف دیکھا تو ادھر کوئی راستہ نہیں تھا۔ دراصل پگڈنڈی وہاں بنتی ہے جہاں پتھروں کے ساتھ ساتھ مٹی بھی ہو۔ لیکن آگے تو بس پتھر ہی پتھر تھے اور چھوٹے بڑے ہر قسم کے پتھر تھے۔ اجی وہی تھے جنہیں ”بولڈر“ کہتے ہیں۔ جھیل کٹورہ نے مصطفیٰ زیدی کی زبان میں کہا کہ
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
ہمیں بتایا گیا تھا کہ آج سارا دن انہی اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے مگر نوکیلے پتھروں پر چلنا ہے۔ اس لئے ذرا دھیان سے، ورنہ چھوٹی سی غلطی اور آہو۔۔۔ ویسے بھی حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ نظارے محنت و مشقت کے بعد ملتے ہیں۔ مظاہرِ فطرت دیکھنے اور منفرد منظرنامے کا حصہ بننے کے لئے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ سفر کی مشکلات سہنی، پہاڑ چڑھنا، خاک ہونا اور ”نچ کے یار“ منانا پڑتا ہے۔ اور ”تم“ آسانی سے تھوڑی ملتے ہو۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اس تکلیف میں بھی مزہ آتا ہے۔ شاید اسی لئے حکیم ناصر نے کہا تھا کہ
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
٭٭٭
ٹیم ٹولیوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کوئی پیچھے اور کوئی ضرورت سے زیادہ آگے نکل گیا۔ لیں جی! پھر ہم بھی ہمت کرتے ہیں اور انہیں پتھروں پر چلتے ہیں اور میں درمیانی مگر بڑی ٹولی کے ساتھ ہو لیا۔ ٹریک کے ساتھ ساتھ ہم بھی آہستہ آہستہ بلندی پکڑ رہے تھے۔ پھر ایک اور جھیل نظر آنا شروع ہوئی۔ یہ جھیل کٹورہ نہیں تھی۔ چھلکتی مے کا کٹورہ اتنی آسانی سے کہاں ملنے والا تھا۔ خیر گائیڈ نے بتایا کہ اس جھیل کا کوئی خاص نام نہیں بس لوگ اسی چھوٹی جھیل ہی کہتے ہیں۔ تھوڑی بلندی پر پہنچ کر جب اس بے نام یا چھوٹی جھیل کا نظارہ کیا تو اس کی شکل تتلی کے جیسی لگی۔ ہم نے کہا کہ اگر اس کا کوئی نام نہیں تو ہم اپنے تئیں اسے ”تتلی جھیل“ کا نام دیتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ نام(تتلی جھیل) زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور ہمیں تبدیلی نام کا اشتہار دینا پڑا کہ تتلی جھیل کا نام تبدیل کر کے یونس جھیل رکھ دیا گیا ہے۔ آئندہ اسی نام سے لکھا اور پکارا جاوے۔ دراصل ہماری ٹیم کے ایک رکن یونس عباسی پر اس جھیل نے جس طرح اپنا آپ نچھاور کیا تھا تو اصولی طور پر نام تبدیل کرنا بنتا تھا۔ (یونس کا تعارف پہلی قسط میں موجود ہے)۔ ہوا کچھ یوں کہ اس جھیل تک پہنچتے پہنچتے یونس کی طبیعت کافی خراب ہو گئی۔ مگر وہ ہمت کرتا اور چلتا رہا۔ بے شک اس نے ہمت تو نہ چھوڑی مگر جسم ساتھ چھوڑ گیا۔ وہ چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ یونس کے یارِغار مظہر حبیب نے اسے سنبھالا۔ آگے کی کہانی یونس کی تحریر سے ماخوذ کر کے سناتا ہوں۔ بات کچھ یوں ہے کہ جب یونس کو ہوش آیا تو اس نے مظہر کو کہا کہ اب میں آگے نہیں جا سکوں گا۔ اس لئے تم مجھے یہیں چھوڑو اور آگے جھیل کٹورہ چلے جاؤ۔ یہ کہتے ہوئے یونس نے شدید کرب محسوس کیا ہو گا۔ کیونکہ جب خاص منزلوں کے لئے نکلیں اور راستے میں ہی جسم ساتھ چھوڑ جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ویسے طبیعت سنبھلنے پر یونس آسانی سے اکیلا ہی جہازبانڈہ واپس پہنچ سکتا تھا۔مگر وہ یار ہی کیا جو ایسے میں ساتھ چھوڑ جائے۔ یونس کے اصرار کے باوجود مظہر نے بہانے بنا کر آگے نہ جانے اور اس کے پاس رکنے کی ٹھانی اور یوں مظہر نے اپنی سیاحت کی قربانی دی اور یونس کے ساتھ ہی رہا۔ یہ مظہر حبیب ملتانی بہت شاندار دوست ہے۔ اللہ ایسا دوست ہر کسی کو دے۔آمین۔۔۔
ٹانگ کا مسئلہ ہونے کے باوجود یونس نے کئی ایک مشکل ٹریک کئے ہیں لیکن زندگی میں پہلی بار کسی ٹریک سے دست برداری کے احساس کو محسوس کیا۔ حالات اس کے مسئلے کے احساس کو اتنا شدید کررہے تھے کہ اسے اپنی آنکھوں میں کچھ تیرتا محسوس ہوا۔ کافی عرصے بعد یونس کے دل سے ایک شکایت کی صدا اٹھی۔ آخر مجھے ایسا کیوں بنایا؟ کیوں بنایا؟ ”کیوں، آخر کیوں؟“ کی بازگشت میں یونس کی نظریں قریبی جھیل کی جانب ہوئیں۔ بنانے والے نے جھیل کو زبان دی اور جھیل نے یونس کو کہا ”تیری طرح میں بھی یہی کہتی تھی کہ مجھے کیوں بنایا گیا؟ میں محرومی کا شکار تھی کیونکہ جو بھی یہاں آتا ہے مجھے ملے بنا آگے جھیل کٹورہ چلا جاتا ہے۔ کسی نے میرے پانیوں کی نیلاہٹ کو قریب سے دیکھنے اور میرے پہلو میں بیٹھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے میں یہی کہتی تھی کہ آخر مجھے کیوں بنایا؟ یونس تمہیں پتہ ہے کہ مجھے کیا جواب ملا؟ بنانے والے نے مجھے کہا کہ ایک دن ایک شخص آئے گا اور تجھ پر فدا ہو گا۔ بس میں نے تجھے اسی شخص کے لئے بنایا ہے۔ وہ شخص وہ ہے کہ ان مشکل راہوں پر چلنے والے اسے دیکھ کر حوصلہ پکڑتے ہیں۔ اسے سلام کرتے ہیں مگر وہ تجھے سلام کرے گا۔ اے جھیل پریشان نہ ہو۔ ایک دن وہ آئے گا اور ضرور آئے گا۔“ جھیل بولتے ہی جا رہی تھی اور آخر اس نے کہا ”ارے او یونس! میں تیرے لئے ہی تخلیق کی گئی ہوں۔ میں تیرے انتظار میں تھی۔ آ میرے پاس آ اور مجھ میں سما۔“ جھیل یونس میں اور یونس جھیل میں سمایا اور اس بے نام جھیل کو یونس جھیل کا نام ملا۔۔۔
٭٭٭
ہم تھوڑی بلندی سے یونس جھیل کا نظارہ کرنے لگے۔ کچھ سانس لیا اور کچھ فوٹوگرافی ہوئی۔ جب آگے چلنے لگے تو کچھ لڑکیوں نے مجھے ”رازدارانہ“ انداز میں کہا ”انہیں تو کسی طرح آگے بھیج دیں“۔ ان کا اشارہ جس طرف تھا، اُدھر ٹیم کا سجیلا جوان ”سجیل زیدی“ کھڑا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس شہزادے سے بھلا لڑکیوں کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ تصدیق کے لئے دوبارہ پوچھا کہ کسے آگے بھیجنے کا کہہ رہی ہیں؟ جب انہوں نے واضح بتایا تو میری جان میں جان آئی۔ دراصل ہمارے ساتھ ساتھ، مقامیوں کے روپ میں ایک باباجی بھی تھے۔ جو کہ غالباً راجہ تاج محمد صاحب نے بطور گائیڈ یا پورٹر بھیجے تھے۔ اپنی سفید داڑھی کی وجہ سے کہنے کو تو وہ باباجی تھے مگر عمر اتنی زیادہ بھی نہیں تھی۔ اوپر سے اپنی کئی حرکتوں کی وجہ سے وہ کچھ مشکوک بھی لگے۔ یوں انہیں ”خفیہ باباجی“ کا نام دیا۔ ویسے بالفرض اگر وہ واقعی ”خفیہ“ تھے تو میرے خیال میں انہیں ابھی مزید تربیت کی ضرورت تھی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ حقیقت میں ایسے تھے، کیونکہ ہمارے ادارے اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ایسے اناڑیوں کو۔۔۔آہو۔۔۔ خیر خفیہ ہوں یا خفیہ والے، ہماری بلا سے۔ ہم تو سیدھے سادے آوارہ گرد ہیں جی۔۔۔ بہرحال میں نے خفیہ باباجی کو کہا کہ چاچا آپ آگے چلیں، ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ جب باباجی اور ہمارے درمیان تھوڑا وقفہ ہو گیا تو ہم بھی چل دیئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تھوڑی ہی دیر بعد وہ دوبارہ ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔
جہازبانڈہ سے لے کر یونس جھیل تک تقریباً تین ساڑھے تین کلومیٹر فاصلہ طے کر چکے تھے اور پیچھے اڑھائی تین کلومیٹر رہتا تھا۔ گوکہ فاصلہ اب کم تھا مگر اصل مرحلہ یہی تھا۔ کیونکہ آگے بولڈرز ہی بولڈرز تھے اور انہی اونچے نیچے پتھروں پر کبھی چڑھائی اور کبھی اترائی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ بلندی پکڑنی تھی۔ پھر وہ مقام آیا کہ جہاں پانی تو سوکھ چکا تھا مگر اس کی گزر گاہ نے انسان کا گزرنا مشکل کر دیا۔ بس ایک پاؤں رکھنے کی جگہ تھی اور ذرا لڑکھڑانے کی صورت میں جسم نیچے اور روح اوپر جا سکتی تھی۔ قافلہ رک گیا۔ آگے ہو کر دیکھا تو عمرمنج اور ایک دو لوگ اس جگہ کو عبور کر چکے تھے۔ گوکہ وہ اتنی خطرناک نہیں تھی مگر کئی لڑکیاں حوصلہ نہیں کر پا رہی تھیں۔ خیر عمر کو کہا کہ اُس طرف پاؤں رکھنے کی مزید جگہ بناؤ۔ جگہ بنی تو پھر ایک طرف عمر اور دوسری طرف میں کھڑا ہو گیا۔ یوں ٹیم کو عبور کرانے لگے۔ کچھ لوگ عبور کر گئے اور پھر ایک نے جب پاؤں رکھا تو پتھر کھسک گئے۔ ہر طرف سے چیخوں کی آواز آئی۔ ایک دفعہ تو میرے بھی رنگ اڑ گئے۔ منظر کچھ یوں تھا کہ ایک بازو کو عمر نے اور دوسرے کو میں نے سہارا دیا ہوا تھا اور ایک ٹیم ممبر ہوا میں تقریباً معلق۔ میں نے معلق کو ایک ہاتھ سے ہی پکڑا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ہائیکنگ پول(سٹک) تھی۔ معلق نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی اور جب پہلی کوشش ناکام ہوئی تو میں نے ہائیکنگ پول کو دانتوں میں دبایا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا۔ خیر معاملہ بخیروعافیت انجام کو پہنچا۔ جب سارے عبور کر چکے تو عمر نے کہا کہ احسن بھائی لوگ ابھی پیچھے ہیں۔ آپ ٹھہرو یا میں رکتا ہوں، جب وہ آ جائیں تو انہیں بھی پار کراتا ہوں۔ میں نے کہا کہ عمر منج صاحب! احسن بھائی منجھے ہوئے جہاں گرد ہیں، ان کے لئے ایسی جگہوں کو پار کرنا کوئی مشکل نہیں بلکہ ان کے لئے یہ سرے سے خطرناک ہے ہی نہیں۔ اس لئے آؤ آگے چلتے ہیں۔ ویسے جب بعد میں احسن بھائی کو پوچھا کہ آپ نے وہ خطرناک جگہ آسانی سے ہی عبور کر لی تھی ناں؟ ان کا جواب تھا ”کونسی خطرناک جگہ؟“۔۔۔ میں ناں کہتا تھا کہ احسن بھائی کے لئے وہ خطرناک ہے ہی نہیں۔ اللہ احسن بھائی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین۔۔۔
اترائیاں چڑھایاں کرتے چلے جا رہے تھے اور پھر چھلکتے کٹورے کا دہانہ نظر آنا شروع ہوا۔ جہاں سے مے چھلکے جا رہی تھی اور بہتی ہوئی ہم تک پہنچ رہی تھی۔ بہتی مے کے کنارے بیٹھ کر کچھ آرام کیا، کچھ فوٹوگرافی ہوئی اور چل دیئے۔ ہمیں بتایا بھی یہی گیا تھا اور زمینی حقائق بھی یہی کہہ رہے تھے کہ نالے کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ تو کام بن جائے گا، مگر کندھے پر ”دونالی“ لٹکائے گائیڈ نے کہا کہ بائیں ہاتھ پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دو۔ یہی جھیل کا بہتر راستہ ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ پہاڑوں میں گائیڈ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے اور آپ کی بچت اسی میں ہے کہ اسے صرف رہبر ہی نہیں بلکہ ”رہبرکامل“ سمجھتے ہوئے، بغیر کسی چوں چراں کے بات مانو۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی علاقوں کے رہبر کچھ زیادہ ہی ”کامل“ ہوتے ہیں اور اپنی ”مک مکا“ والی جگہ پر جا رکتے ہیں۔ خیر ہم نے چوں چراں کئے بغیر گائیڈ کی بات مانی اور نہایت خطرناک پتھروں پر تیزی سے بلندی پکڑنے لگے۔ پندرہ بیس قدم چلنے کے بعد رک کر سانس بحال کرنا پڑتا کیونکہ چڑھائی بہت سخت تھی۔ جہاں کہیں بھی ٹیم رکتی اور انہیں چلنے کا کہنا ہوتا تو سب کو مخاطب کر کے کہتا ”سینکو! آگے بڑھو۔ حوصلہ کرو اور چلتے رہو“۔ اب کی بار جب ایسا کہا تو شاہ رخ صاحبہ نے پھولے سانس کے ساتھ اور کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق میں جواب دیا کہ اب ہم سینک نہیں بلکہ ”پینک“ ہو چکے ہیں۔
میں: ”واہ کیا کہنے، لیکن ڈرو نہیں۔ ہمت کرو اور دھیان سے قدم اٹھاؤ۔ سوچ لو کہ یہ ذرا بھی خطرناک اور مشکل نہیں تو پھر کوئی فکر نہیں۔“
اس کے جواب میں شاہ رخ نے کیا خوب فقرہ بولا ”جی جی! سوچ لو کہ مرنا ہے تو پھر واقعی کوئی فکر نہیں۔“ اتنا کہہ کر وہ تو چل دی مگر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس نے کتنی لاپروائی سی کتنی بڑی اور گہری بات کہہ دی۔ کوئی کہتا ہے کہ فکر کرو، کیونکہ ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور ”وہ“ کہتا ہے کہ جب ایک نہ ایک دن مر ہی جانا ہے تو پھر دنیا کی ”فکریں“ کیوں پالتے ہو؟ میری نظر میں شاہ رخ کی بات مؤخرالذکر زمرے میں آتی تھی۔ کیونکہ بات کرتے ہوئے اس کا انداز اور تاثرات ایسے ہی تھے۔ میں بات کی گہرائی کو سوچنے لگا اور کئی در کھلتے گئے۔ ویسے ٹریک پر اگر سوچ پال لو تو سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ خیر مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا ”یہ بات آپ نے خود سے کہی ہے یا کہیں پڑھی تھی؟“
شاہ رخ: ”اس سفر پر آنے سے پہلے رومیؒ اور شمسؒ پر ایک کتاب پڑھی تھی، شاید وہاں سے سیکھی یہ بات۔“
میں: ”ویسے کتاب کونسی تھی؟ کہیں Forty Rules of Love تو نہیں تھی؟“
شاہ رخ: ”ہاں! یہی تھی۔“
میں: ”بہت خوب۔ یہ میرے پسندیدہ ناولز میں سے ایک ہے۔ ایلف شفق بی بی نے تو اس ناول میں کمال ہی کر دیا ہے۔ ویسے آپ کو یہ کیسا لگا؟“
شاہ رخ: ”بہت اچھا، کیونکہ صوفی ازم میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔“
ہم مزید کئی قدم چل چکے تھے اور ٹیم سانس بحال کرنے پھر رُکی۔ چڑھائی اس قدر سخت تھی کہ جلد ہی ٹیم کی چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ ”ہائے ہائے مر گئے۔ مجھ سے تو نہیں چڑھا جائے گا۔ ارے کسی کے پاس پانی ہے۔“ ایسی باتوں پر علینہ صاحبہ جو کہ غالباً میڈیکل کی طالبہ ہیں، نے کہا کہ اگر جھیل تک جانا ہے تو آہ و زاریاں چھوڑو اور آگے بڑھو، ورنہ واپس چلے جاؤ۔ ہائے ہائے! بڑی ہی ظالم لڑکی تھی۔ ایسا ظلم کوئی تھوڑی کرتا ہے۔ صرف خواتین کو کہتی تو ہم صبرشکر کر لیتے مگر اس کی بات کی زد میں کئی ”خواتینے“ بھی آ چکے تھے۔ خیر وہ کہہ کر ایسی اڑن چھو ہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ کے اوپر پہنچ گئیں۔ باقیوں نے بھی غصہ پینے کی بجائے کھایا اور اوپر کی طرف دُڑکی لگا دی۔ ویسے مذاق اپنی جگہ لیکن اس ٹیم کی خواتین میں سے علینہ صاحبہ سب سے باہمت اور تیز ٹریکر ثابت ہوئیں۔
گائیڈ ہمیں ایک خطرناک پگڈنڈی سے لیے جا رہا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر پریشانی ہونے لگی کہ اِدھر سے چڑھ تو رہے ہیں مگر اترنا خطرناک ہو گا۔ وہ کیا ہے کہ چڑھائی مشکل ہوتی اور تکلیف دیتی ہے، مگر کم خطرناک ہوتی ہے۔ جبکہ وہی جگہ اترائی میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ بندہ چڑھائی پر گرے تو عموماً ہاتھ زمین پر لگ جاتے ہیں اور بچت ہو جاتی ہے۔ مگر اترائی پر گرے تو منہ کے بل گرتا یا پھر جیسے بھی گرے تو لڑھکنے کے چانس کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ خیر خدا خدا کر کے چڑھائی مکمل ہوئی۔ سیدھی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اچانک سے بہت بڑا، جی ہاں! بہت بڑا کٹورہ نمودار ہوا۔ کسی کا تو علم نہیں مگر جب میری پہلی نظر جھیل کٹورہ پر پڑی تو میں ایک دم ساکت ہو گیا۔ اس قدر شاندار نظارہ کہ اسے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس منظر کی ایک جھلک نے سارے ٹریک کی تھکاوٹ اتار دی۔ گو کہ ہمارا خیال تھا کہ گائیڈ نے ہمیں ایویں بلندی والے راستے پر ڈالا حالانکہ نالے کے ساتھ والا راستہ آسان تھا۔ لیکن جب جھیل کے آگے پیچھے گھوم پھر کر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ جس راستے سے گائیڈ لے گیا تھا، وہیں سے جھیل کا لاجواب نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم تھوڑی بلندی پر تھے اور جھیل تھوڑی نیچے۔ اس کٹورے کو پہاڑوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ سامنے جھیل اور اس کے دوسرے کنارے پہاڑ پر گلیشیئر… اور گلیشیئر سے بہتے پانی… اور پانیوں میں کئی آبشاریں۔ ہمارے اردگرد سرسبز قالین بچھا تھا۔ جس میں قدرت نے رنگ برنگے پھولوں کی کشیدہ کاری کی ہوئی تھی۔ فطرت نے سارا منظرنامہ بہت ہی دلکش تشکیل دیا ہوا تھا۔
٭٭٭
جہازبانڈہ سے جھیل کٹورہ تک تقریباً ساڑھے پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ساڑھے تین گھنٹے میں طے کیا اور سطح سمندر سے 3550میٹر بلند جھیل کٹورہ پر پہنچتے ہی مناظر کی چند تصاویر بنائیں اور پھر منظرباز جھیل کنارے مخملی گھاس پر بیٹھ کر منظربازی کرنے لگا۔ بولے تو مناظر سے کھیلتے، ان سے شغل فرماتے اور انہیں محسوس کرتے ہوئے مظاہرِ فطرت کے ذریعے اپنا ریسیور ٹیون کرنے لگا۔ تاکہ فطرت کی لہریں(سگنلز) پکڑ کر آن لائن ہو سکے۔ منظرباز کو یقین ہے کہ ہر مقام کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے۔ جب مقام کی تاثیر سے بندے کا مزاج ہم آہنگ ہوتا ہے، جب کسی مقام کی فطرت اور بندے کی فطرت آپس میں ملتی ہیں تو کمال ہی ہو جاتا ہے۔ زمان و مکاں(Time & Space) پکڑ میں آنے لگتے ہیں۔ ایک طرف یہ سب ہے تو دوسری طرف لازمی نہیں کہ ہر جگہ سے ہر بندے کا مزاج ہم آہنگ ہو۔ آسان الفاظ میں یونہی سمجھیئے کہ ”نظارہ تو صرف توانائی دیتا ہے، باقی اپنا مزاج ہوتا ہے۔“
بہرحال ”یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا“۔ کیونکہ منظرباز ابھی منظربازی کرنے بیٹھا ہی تھا کہ آواز آئی ”آؤ گروپ فوٹو بنائیں۔“ چلیں جی! پہلے گروپ فوٹو بنا لیتے ہیں اور اس کے بعد ”یار“ سے ملاقات کرتے ہیں۔ کونسا یار؟ کس کا یار؟ وہ کیا ہے کہ اس کے بعد ایسی ”فوٹو-فوٹی“ جنگ شروع ہوئی کہ الامان۔۔۔ خیر جب گروپ فوٹو کے لئے کیمرہ سیٹ کر رہا تھا، تب کیمرے کے منظرنما(View Finder) سے اپنے ہمسفروں کے گروپ کی بجائے کوئی اور ہی گروپ نظر آیا۔ جھیل کے اُس پار پہاڑوں پر ایک ٹولی دکھائی دی۔ منظرنما کی بجائے ننگی آنکھ سے دیکھا تو کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ کیمرے سے دیکھا تو ٹولی موجود تھی۔ آخر منظرباز نے ٹولی کو قریب(بڑا) کر کے دیکھنے کے لئے لینز کا ”زوم چکر“ گھمایا۔ کیمرے کی لبلبی(Shutter Button) کو آدھا دبا کر یعنی ہاف پریس(Half Press) کر کے، خودکار طریقے سے منظر واضح(Focus) کیا تو سمجھ آئی۔ وہ تو ”وہ“ تھے۔ ہاں وہی تھے۔ اسی اثنا میں ”اُن“ کی صدائے بازگشت منظرباز کے کانوں سے ٹکرائی ”ارے او ’رند‘! یہ تو کیا کر رہا ہے؟ ہم اِدھر ہیں اور دیکھ کہ میخانے کا در کھلا ہے۔ اِدھر آ کہ ہمارا ہم پیالہ بن۔ چھلکتی مے کے کٹورے کو لبوں سے لگا۔ آ کہ ہم سے کلام کر اور نچ کے یار منا۔“ منظرباز کو پیغام دینے کے بعد وہ ٹولی اپنی موج میں گانے لگی ”ساقیا اور پلا اور پلا اور پلا“۔ اور چاروں اور پہاڑوں پر ”تم“ جھومنے لگے۔ مگر کمبخت منظرباز کے دماغ میں ”بونوں کے ناچ“ نے ایسا اُدھم مچایا ہوا تھا کہ وہ ”تمہیں“ نظرانداز کر گیا اور دوبارہ اپنے ہمسفروں کے گروپ کو فوکس کیا، کیمرے کو ٹائمر پر لگایا اور اپنے ”اُدھم کی تسکین“ کے لئے بھاگتا ہوا فریم میں جا کھڑا ہوا۔ اس کے بعد بھی بونے ناچتے رہے، اُدھم کی تسکین ہوتی رہی، فوٹو-فوٹی جنگ جاری رہی۔ جب بھی کوئی تصویر بنانے کے لئے کیمرے کے منظرنما پر آنکھ رکھتا تو ٹولی دکھائی دیتی اور ہر دفعہ نئی سے نئی بازگشت سنائی دیتی، جیسے کہ
عالم پہ ہے گھنگھور گھٹاؤں کا دھواں دیکھ
فطرت کے مناظر کا یہ پُرکیف سماں دیکھ
کیمرے کے شٹر پر شٹر چلتے رہے۔ ٹولی صدا دیتی رہی کہ
میخانے پہ اب جھوم کے آئی ہیں گھٹائیں
مخمور فضا اور یہ سرمست ہوائیں
تصویر پر تصویر گرتی رہی۔ بازگشت سنائی دیتی رہی کہ
فطرت کے مناظر کا ذرا دیکھ نظارہ
اک لمحہ کی تاخیر نہیں اب تو گوارہ
بونوں کے ناچ میں اور ٹولی کی صدا میں سخت جنگ جاری تھی۔ مگر منظرباز کی بے حسی دیکھئے کہ سب کچھ لٹتا رہا اور یہ تماشا کرتا رہا۔ اور تو اور محمد احسن مسافرِشب پر نظر پڑی تو ان پر بھی کیمرہ تان دیا۔ ویسے اس مسافرِشب کو ہلکا ہرگز نہ لیجئے گا۔ یہ بہت بڑا رند بلکہ ساقی ہے اور ہم جیسے رندوں کے لئے کسی پیرِمُغاں سے کم نہیں۔ خیر منظرباز نے مسافرِشب کی تصویریں بنانے کے لئے ان سے تھوڑی سی ماڈلنگ بھی کرائی۔ جواب میں مسافرِشب نے بھی حساب پورا کر دیا اور منظرباز سے ماڈلنگ کرا ڈالی۔ یوں ”من تورا حاجی بگوئم تو میرا حاجی بگو“ کے مصداق ایک دوسرے کی تصویریں بنائیں۔ مسافرِشب نے جب منظرباز کے ہاتھ سے کیمرہ پکڑا تو بونوں کے ناچ میں کمی آئی اور توجہ مظاہرِفطرت کی طرف ہوئی۔ یہ مسافرِشب ایسے ہی نہیں آیا تھا بلکہ بھٹکے ہوئے منظرباز کو میخانے کا پتہ بتانے آیا تھا۔۔۔ ٹولی نے صدا دی ”اے ساقیِ میخانہ تیری دور بلائیں“۔
٭٭٭
جھیل کنارے کچھ فوٹوگرافی ہوئی۔ کچھ شغل میلہ ہوا اور پھر ہم بلندی سے نیچے اتر کر جھیل کے پانیوں کے قریب جانے لگے۔ پانی سے پہلے ہی جناب محسن رضا کو کھڑے پایا۔ ”پائن تسی کدھر؟ آپ تو ہمارے ساتھ نہیں آئے تھے، پھر یہاں کیسے؟“ معلوم ہوا کہ جناب ہمارے کافی بعد جہازبانڈہ سے چلے اور گھنٹے سوا میں جھیل پر پہنچ گئے۔ اطلاعات ملیں کہ محسن کے ساتھ مقامی گائیڈ رستے میں تھک گیا تھا مگر محسن تو ٹھہرا ”وحشی“۔۔۔ محسن نے کہا ”چا کی چاہ ہے؟“ جی بالکل ہے۔ ”بھائی صاحب! ٹیم کو چائے پلاؤ۔“ دراصل جھیل کنارے ایک چائے والا بیٹھا تھا۔ جب تک چائے بنتی تب تک میں جھیل کے بالکل قریب جا کر بیٹھ گیا۔ خاموش لہروں کے دوش پر اپنا پیغام بھیجنے اور ”تمہارا“ موصول کرنے لگا۔ اور پھر ”تم“ آئے چناب کی صورت۔۔۔
جہاں جھیل کٹورہ کے جام شدت سے چھلکتے ہیں یعنی جہاں سے جھیل کا پانی نکل کر پتھروں سے ٹکراتا اور سینکڑوں فٹ نیچے گر کر خوبصورت سما باندھتا ہے، اس کی دوسری طرف جانے کا خیال آیا۔ کیونکہ راناعثمان کی ہدایات کے مطابق جھیل سے نکلنے والے پانی کی دوسری طرف سے بھی خوبصورت نظارے ملتے ہیں۔ ویسے رانا صاحب کی ہدایات میں یہ بھی شامل تھا کہ کوئی خطرہ مول نہ لینا۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں خطروں کا کھلاڑی ہوں… اوں ہوں… نہیں ہوں۔ لہٰذا رانا جی کی دوسری ہدایت پر عمل کیا اور اپنے آپ کو باز رکھا۔ چائے بن چکی تو کچھ کے پیٹ کے اور بعض کے تصویر کے حوالے سے وارے نیارے ہو گئے۔ اجی! وہی مشہورِزمانہ فریم کہ جس میں خوبصورت پسِ منظر لئے چائے کا کپ ہوتا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ مجھے یہ فریم بہت پسند ہے۔ کیونکہ چائے اور خوبصورت نظارے میری کمزوری ہیں۔ سامنے دلکش نظارہ ہو، ہاتھ میں چائے ہو اور باجو میں۔۔۔ خیر چھڈو جی۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ آپ چھوڑنے والے نہیں اور ناجانے کیا کیا سوچ جائیں گے۔ اس لئے بتا دیتا ہوں کہ باجو میں تکیہ ہو۔ تاکہ بندہ آرام سے بیٹھے اور اپنے آپ کو مسندیں لگائے بیٹھا محسوس کرے۔ دنیا میں ہی جنت کا کچھ احساس ہو جائے۔۔۔ نہ نہ… ستر حوروں کا فی الحال کوئی ذکر نہیں۔۔۔ ویسے حوروں سے یاد آیا کہ وہیں جھیل کنارے کچھ لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا بھی عملی مظاہرہ کیا۔ بڑی عجیب بات ہے کہ آپ کُڑی مارکہ کے متعلق نہیں جانتے۔ چلیں بتا دیتا ہوں کہ سیروسیاحت کے دوران جہاں بھی پانی نظر آئے تو اس میں پاؤں ڈالنا… رُخ دلکش منظر کی طرف اور پُشت کیمرے کی طرف کر کے تصویر بنوانا… اور تو اور ہر خوبصورت منظر کی طرف پاؤں کر کے، پاؤں بمعہ منظر کی تصویر بنانا… یہ سب آج کل سیاح خواتین کا تقریباً تقریباً ”ٹریڈ مارک“ بولے تو ”کڑی مارکہ“ بن چکا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ پانی میں پاؤں ڈالیں گی اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ دھوئیں گی، مگر مجال ہے جو کبھی منہ دھوئیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سیاحتی گروپ کی ایک لڑکی نے غلطی سے منہ پر پانی کا چھینٹا مار دیا۔ پھر اس کا گروپ ہی اسے پہچاننے سے انکاری ہو گیا۔۔۔ یار! کبھی تو ہنس لیا کرو۔ یہ مزاح ہی ہے۔ حور صاحبہ! آپ بھی اسے مزاح ہی سمجھیں اور دل پہ مت لیں۔۔۔ ویسے آج کل ”خربوزیوں“ کو دیکھ کر ہم جیسے خربوزے بھی رنگ پکڑ رہے ہیں۔ اور تو اور لڑکیوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی پانی میں پیر ڈبوئے۔ البتہ خوبصورت منظر کی طرف پاؤں کر کے تصویر ہرگز نہیں بنائی تھی۔
بہرحال جھیل کٹورہ کنارے کافی شغل لگایا، چائے پی اور الوداعی فوٹوگرافی کی۔ اور جم کر کی۔ اور پھر محسن نے ہدایت کاری کی اور ٹیم کو ایک قطار میں کھڑے کر کے، گویا ریل گاڑی بنا کر تصویر بنائی اور اس ریل گڈی کا انجن بھلا کون تھا؟ پاکستان زندہ باد… آپ کا نوکر… راجہ تاج محمد… نہیں… بلکہ ان کا ایک مہمان، بولے تو منظرباز تھا اور آخری بوگی محسن رضا تھا۔ تصویر میں جو جن قدموں پر کھڑا تھا، اُدھر سے ہی واپسی کی راہ لی۔ ہم جس راستے سے جھیل پر پہنچے تھے، اس کی بجائے نالے والے راستے سے واپسی ہوئی۔ صنفِ نازک اور صنفِ قوی یعنی مؤنث و مذکر اور اگر اسی سفر کی زبان میں کہوں تو سینکیوں اور سینکوں پر مشتمل ٹیم، قطار بنائے جھیل کٹورہ کے ”ہیلری سٹیپ“ سے اترنے لگی۔ مگر ٹریفک جام سی ہو گئی۔ کیونکہ وہ ایک دیوار نما چٹان تھی۔ جو ہماری ٹیم کے لئے کسی حد تک مشکل اور خطرناک بھی تھی۔ لہٰذا ہم بہت آہستہ آہستہ”ہیلری سٹیپ“ اترے۔ اور یہ ہیلری سٹیپ(Hillary Step) ہے کیا؟ دراصل سطح سمندر سے 8848میٹر بلند یعنی دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی سے تھوڑا سا نیچے ایک مشکل چٹانی پہلو کا نام ”ہیلری سٹیپ“ ہے۔ یہ نام پہلی دفعہ ایوریسٹ سر کرنے والے نیوزی لینڈ کے ”سر ایڈمنڈ ہیلری“ کے نام پر رکھا گیا۔ چلیں جی! ٹھیک ہے کہ ایوریسٹ پر ہیلری سٹیپ ہے، لیکن یہ جھیل کٹورہ پر کیا کرنے آ گیا؟ دیکھیں جی! بڑے کوہ پیماؤں کے لئے ایوریسٹ کا ہیلری سٹیپ اور ہم جیسے اناڑیوں کے لئے جھیل کٹورہ کی وہ دیوار نما چٹان، ایک ہی حساب ہے۔ اسی لئے جھیل کٹورہ کی اس چٹان کو ہیلری سٹیپ کا نام دیا۔ اگر آپ کو اس نام پر اعتراض ہے تو پھر جو مرضی نام رکھ لیں۔ ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہاں سے ہمارے سینک اور سینکیاں نہایت احتیاط سے اترے۔ اور ابھی اترے ہی تھے کہ ایک حادثہ ہو گیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے مس عنبر کا پیر ٹیڑھا ہوا۔ چیخ بلند ہوئی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے گریں۔ یہ سارا عمل اک مختصر لمحے میں ہو گزرا۔ کچھ کہنے کا وقت ہی نہ ملا۔ بس دماغ میں اک لہر سی اٹھی کہ بائیں نہیں دائیں۔ کیونکہ بائیں طرف ڈھلوان تھی اور اُدھر گرنے کا مطلب خطرناک ہو سکتا تھا۔ خیر وہ دائیں ہی گریں اور اس طرف بھی خطرناک ہوتے ہوتے بچا۔ ایک نوکیلے پتھر سے دو چار انچ پہلے ہی ان کا سر رک گیا۔ ورنہ جس رفتار سے وہ گری تھیں اگر سر پتھر کو لگتا تو۔۔۔ اللہ معافی دے۔۔۔ باقی سب تو ٹھیک رہا مگر پاؤں کی حالت نازک ہو گئی۔ اکثریت نے کہا کہ جوتا (بوٹ) اتارو۔ مگر میں نے سختی سے منع کیا کہ بوٹ ہرگز نہ اتارنا۔ وہ اس لئے کہ اگر پاؤں کی ہڈی ٹوٹی یا موچ وغیرہ ہوئی تو بوٹ اتارتے ہی ٹھنڈی ہوا لگے گی اور شدید درد ہو گا۔ ویسے بھی پاؤں کو فوراً سوجن ہو جائے گی اور پھر بوٹ پہنایا نہیں جا سکے گا۔ اس لئے جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چھوڑا جائے اور ریسکیو کی تیاری کی جائے۔ بہرحال ڈاکٹر وردہ صاحبہ نے پاؤں کی صورتحال جانچی، فوری جو دوائی تجویر ہوئی وہ مسافرِشب کی زنبیل سے نکل آئی۔ مس عنبر نے دوائی کھائی، درد کا کچھ افاقہ تو ہوا مگر ابھی اونچے نیچے پتھروں پر چلنا تھا۔ میں حیران ہوں کہ اس حالت میں بھی وہ اپنے پیروں پر چل کر نہ صرف جہازبانڈہ پہنچیں بلکہ وہاں سے بھی نیچے اتریں۔ اور تو اور وادی کمراٹ میں بھی چلتی پھرتی رہیں۔ انہوں نے ذرا بھی محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پاؤں کی حالت ایسی تھی کہ سفر سے واپس پہنچ کر جب ایکس رے وغیرہ ہوا تو پاؤں پر ”پلاسٹر“ لگا۔
حادثے کے بعد تھوڑی دیر سبھی اکٹھے چلتے رہے اور پھر کوئی آگے نکل گیا، کوئی پیچھے رہ گیا۔ میں اور شفان ساتھ ساتھ چلتے اور گپ شپ کرتے رہے۔ پھر شفان پتہ نہیں کیسے پیچھے رہ گیا اور میں تنہا ہی چلتا رہا۔ آخر جھیل یونس آ گئی۔ اب اس پر سورج کی ترچھی شعاعیں پڑ رہی تھیں اور لاجواب نظارہ تھا۔ ایک پتھر پر بیٹھ کر نظارہ کرنے لگا۔ اور پھر وہاں جھیل کا دلکش نظارہ تھا، میں تھا اور ”تم“ تھے۔۔۔ وہاں سے چلا تو آگے ساجد بیٹھا تھا۔ ”اگر آپ کی پرائیویسی میں خلل نہ پڑے تو کیا میں بھی یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟“ کیسی بات کرتے ہیں بلال بھائی! بیٹھیں بیٹھیں۔ یوں ساجد کے پاس بیٹھ گیا اور ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں شفان اور زبیر خان صاحب بھی پہنچ آئے اور انم صاحبہ پہنچ گئیں۔ سبھی ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے۔ ایسے بے فکرے کہ جیسے کسی کو کوئی غم ہی نہ ہو اور اس منظرنامے سے باہر جیسے دنیا ہی نہ ہو۔ اسی اثنا میں ہمارے پاس سے دو مقامی بندے گزرے۔ تھوڑا آگے نکل کر انہوں نے آواز دی کہ اِدھر نہ بیٹھو، پہاڑ کے اوپر بکریاں چر رہی ہیں، پتھر آئے گا۔ گویا اس دن ہم نے جانا کہ اگر پہاڑ کے اوپر جانور چل پھر رہے ہوں تو ان کے پاؤں لگنے سے چھوٹے موٹے پتھر نیچے گر جاتے ہیں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ بلندی سے آنے والا چھوٹا پتھر بھی اتنی رفتار پکڑ لیتا ہے کہ اگر وہ انسان کو آ لگے تو نقصان ہو سکتا ہے۔
وہاں سے چلے تو راستے میں سب مل کر اور خاص طور پر زبیر صاحب نے ایسا بکرا روسٹ کیا کہ کچھ نہ پوچھیں۔ مجھے گوشت سے اتنی رغبت نہیں اور ”مٹن“ تو بالکل بھی پسند نہیں، لیکن جب زبیر صاحب نے بکرے کی یخنی بنائی اور سجی پر کالی مرچ اور دیگر مصالحے پھینکے تو میں نے کہا ”سائیں! بس کریں ورنہ ہم اِدھر ہی ڈھیر ہو جائیں گے۔“ زبیر صاحب بولے ”لو جی! بکرا تو بن گیا۔ آؤ اب ذرا رائتہ، سلاد اور دیگر لوازمات بناتے ہیں۔“ سارے لوازمات ایسے تیار ہوئے کہ تحریر لکھتے ہوئے بھی میرے منہ میں پانی آ رہا ہے۔ سوچیں کہ اُس وقت ٹریک پر کیا حال ہوا ہو گا۔ خیر یہ خیالی مٹن کڑاہی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہمیں کتنی بھوک لگی ہوئی تھی۔ ویسے یہ سارا کیا دھرا محسن کا تھا۔ اسی نے ہماری عادتیں خراب کی تھیں۔ انواع واقسام کے کھانے ایسے کھلاتا تھا جیسے ہم ٹریکنگ پر نہیں بلکہ دعوتیں اڑانے آئے ہوں۔ خیر ہم چلتے رہے اور کھانے بنتے رہے۔ پھر جھیل کٹورہ کی طرف سے پہلے اور جہازبانڈہ کی طرف سے تیسرے میدان میں پہنچے۔ وہاں جو بھیڑیں چر رہی تھیں، ان میں ایک قسم ایسی تھی کہ جو میں نے پہلی دفعہ دیکھی۔ بعض بھیڑوں کی دم کافی لمبی تھی۔
جب ہم دوسرے میدان میں اتر رہے تھے تب پہاڑوں پر شام اتر رہی تھی اور جیسے ہی ہم جہازبانڈہ پہنچے تو اندھیرا چھا گیا۔ کاٹیج کے لان میں کھڑے مس سمیراممتاز کے بیٹے فاتح نے جب بڑے پیار اور معصومیت سے ہمیں ”ویلکم بیک“ کہا تو سارے دن کی تھکن اتر گئی۔ اس معصوم شہزادے پر بہت پیار آیا۔ خیر محسن پہلے ہی پہنچا ہوا تھا اور کھانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اسے کہا کہ کئی لوگ ابھی پیچھے ہیں۔ پہاڑوں میں تو دن دیہاڑے بندہ راستہ بھول جاتا ہے، اب تو پھر بھی اندھیرا چھا چکا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے لئے کوئی بندہ بھیجو۔ یہ بات سنتے ہی راجہ صاحب نے نعرہ لگایا… پاکستان زندہ باد… آپ کا نوکر… راجہ تاج محمد… تالیاں… میں خود باقی لوگوں کو لینے جاتا ہوں۔ راجہ صاحب چلے گئے اور پھر میں اور فاتح راستے پر نظریں جمائے انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی ٹارچوں کی روشنیاں پہاڑوں میں ”اٹکلیاں“ کرنے لگیں اور باقی کی ٹیم راجہ صاحب کی سربراہی میں واپس پہنچی۔ پیارے شہزادے فاتح نے فرداً فرداً سب کو ”ویلکم بیک“ کہا۔
٭٭٭
اور پھر رات نے جہازبانڈہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کھانا کھایا… الاؤ جلا… برسات ہوئی… یاروں کی محفل سجی… اور آخر سب سونے چلے گئے۔۔۔ اور پھر وقت تھمنے لگا… دور کے دیسوں میں سندھو ندی بہتی رہی… پریم ساگر دریائے چناب ٹھاٹھیں مارتا رہا… مے چھلکتی رہی… عاشق ناچتے رہے۔۔۔ کئی دعائیں، چند التجائیں قبول ہوئیں… اور ”تم“ آئے چناب کی صورت۔۔۔
روح بنجر ہے اور پیاسا من
کبھی آؤ چناب کی صورت
(دیا خلیل)
جاری ہے۔۔۔
Witch camera and lens do you use ?
ابتدائی نوعیت کا کیمرہ اور لینز ہے۔
Canon 700D with kit lens 18-55mm IS STM
اس کے علاوہ لینز میں کبھی کبھار
EF-S 55-250mm IS STM
EF 50mm
بھی استعمال کرتا ہوں۔
اسلام علیکم۔۔۔
اللہ تعالی سے امن و سلامتی کی امید کے ساتھ۔
قابل تحسین کاوش۔
راقم الحروف اپنی کچھ تحریریں ارسال کرنا چاہتی۔
Online یا Postal بتا دیجئے۔
ِ خیر خواہ۔۔
فوزیہ بشیر علوی۔۔۔۔قلم کار۔
آپ کی تحریر میں۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مسکراہٹ نے بھی ساتھ نہ چھوڑا