اردو بلاگرز کانفرنس کے دوسرے روز (27 جنوری 2013ء) کاروائی نو بجے شروع ہونی تھی۔ آج اکثریت نے وقت کی بڑی ”پابندی“ کی اور ”تاخیر“ سے پہنچی۔ انٹرنیٹ کا حال پہلے ہی سنا چکا ہوں۔ دوسرے دن بھی ویسا تھا۔ خرم ابن شبیر کے پاس ایوو ڈیوائس تھی۔ اس سے کام چلانے کی کوشش کی مگر ناکام۔ مجبوری میں آن لائن مقررین کی صرف آواز پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔
کلامِ پاک کی تلاوت کے بعد پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی ناہید مصطفیٰ کی بات چیت سے دوسرے روز کا آغاز ہوا۔ انہوں نے پاکستانی اور بین الاقوامی بلاگنگ پر بات چیت کے علاوہ پاکستانی بلاگر کے لئے کچھ مشورے دیئے۔ ناہید مصطفیٰ نے کہا کہ اردو بلاگرز کا مقابلہ ٹی وی چینلز سے ہے اس لئے اردو بلاگرز کو تحقیق کے بعد ذمہ داری سے سچ لکھنا ہو گا۔ اردو بلاگرز کی پہنچ عوام کی اکثریت تک ہے اور ان کا دائرہ وسیع ہے جبکہ اردو کے مقابلے میں انگریزی بلاگرز کا نکتہ نظر بہت کم پاکستانیوں کا نکتہ نظر ہے۔ سوال و جواب میں کافی اہم نکات اٹھائے گئے جیسے صحافیوں کے حقوق کے لئے تنظیمیں موجود ہیں مگر بلاگرز کے لئے ایسا کچھ نہیں۔ شعیب صفدر بھائی نے سوال کیا کہ کئی دفعہ ہم لوگ کسی خاص گروہ کا حصہ ہوتے ہیں، اب اس گروہ میں ہی کچھ خامیاں ہیں تو ہم وہ لکھ نہیں سکتے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اس کے جواب میں ناہید مصطفیٰ صاحبہ نے کہا کہ صحافی ادارے کا پابند ہے اور چھپ کر نہیں لکھ سکتا مگر بلاگر آزاد ہے، وہ گمنام ہو کر لکھے اور ایسے مسائل سامنے لائے۔ مزید ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر اپنے ملک کی کسی خرابی کا ذکر کیا جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ محب وطن نہیں یا ملک کا دشمن ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ ناہید مصطفیٰ کا جواب تھا کہ اگر تو آپ خرابی کا ذکر اس لئے کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے اور بہتری ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر صرف تنقید برائے تنقید ہے تو یہ ٹھیک نہیں۔ کوشش کریں کہ تصویر کے دونوں رخ سامنے لائیں۔
کام کاج کی مصروفیت کی وجہ سے مجھے ساری باتیں تفصیل سے یاد نہیں جتنا یاد آ رہا ہے وہ لکھ رہا ہوں۔ ویسے جنہوں نے سوال کیے تھے انہیں چاہیئے کہ اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی تفصیل اپنے اپنے بلاگ پر تحریر کریں جیسا کہ فخر نوید صاحب نے کیا ہے۔ ناہید مصطفیٰ صاحبہ کا سیشن تقریباً دو گھنٹے چلا۔ اس کے بعد پانچ دس منٹ کا وقفہ ہو گیا۔ پھر کینیڈا سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا کی ماہر اور صحافی کیٹی مرسر کو آن لائن لیا گیا۔ کیٹی مرسر کے آن لائن آنے سے پہلے ہی میں ایک کام کی وجہ سے کانفرنس ہال سے جا چکا تھا۔ جب واپس آیا تو یہ سیشن سوال و جواب کے مرحلے میں تھا اور اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کیٹی مرسر نے کہا کہ باہر کی دنیا میں کچھ بلاگرز ایسے ہوتے ہیں جن کا بلاگ اگر کسی ادارے کو پسند آ جائے تو وہ ادارہ اپنے بلاگ پر بلاگر کو جگہ دے دیتا ہے جبکہ اس بلاگر کو تحریر کے پیسے نہیں دیئے جاتے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے بلاگرز ہوتے ہیں جن کو ادارے یہ آفر دیتے ہیں کہ آپ اپنا بلاگ ہماری ویب سائیٹ پر لے کر آئیں۔ ہماری ویب سائیٹ پر جہاں آپ کا بلاگ ہو گا اس پر جو اشتہارات چلیں گے اس میں سے آپ کو حصہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد کچھ ایسے بلاگر ہوتے ہیں جنہیں ادارے باقاعدہ عنوان دے کر کہتے ہیں کہ اس پر لکھ دو۔ اس طرح لکھنے کے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ کیٹی مرسر نے کہا کہ کوئی دوسرا چل کر آپ کے پاس نہیں آئے گا بلکہ پہلے بلاگرز کو ہی اداروں کے پاس جانا ہو گا اور انہیں بتانا ہو گا کہ یہ میرا بلاگ ہے، اس پر اتنی ٹریفک ہے اور میرے اتنے قارئین ہیں۔ تب کہیں جا کر بلاگر بڑے اداروں سے منسلک ہو سکے گا۔ کیٹی مرسر سے سوال و جواب کے بعد چائے کا وقفہ ہو گیا۔
چائے کے وقفے کے دوران مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ اسی دوران مصطفیٰ ملک صاحب نے کسی ہیڈ ماسٹر کا لطیفہ بھی سنایا تھا۔ مصطفیٰ صاحب سے گذارش ہے کہ وہ لطیفہ یہاں لکھ دیں کیونکہ مجھے یاد نہیں رہا۔ مزید اردو بلاگنگ پر گپ شپ ہوتی رہی۔ اسی دوران محمد حسن معراج صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا بڑا عجب رویہ ہے۔ بس کسی نے ایک بات کہہ دی تو اکثریت سوچے سمجھے بغیر اس کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے، یہاں پر انہوں نے پانی سے چلنے والی گاڑی کا ذکر کیا۔ اس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے بعد سب سے پہلے اس جھوٹ کے خلاف اردو بلاگرز ہی بولے تھے۔ اردو بلاگرز کے بعد پھر دوسروں کی تحاریر سامنے آئیں۔ میری بات کے جواب میں محمد حسن معراج نے ”رضیہ پھنسی غنڈوں میں“ والے محاورے کے ذریعے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کہ واقعی اردو بلاگرز کا تجزیہ بہت زبردست ہوتا ہے، اردو بلاگرز دو ٹوک اور کھری کھری بات کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارا اردو بلاگر اس رضیہ کی طرح ہے جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے یعنی ایک اردو بلاگر کام کی بات لکھتا ہے تو جواب میں ستر ”کانسپیریسی تھیوریز“ والے آ جاتے ہیں جو حقائق کو توڑ مروڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب آپ کا سوال یہ ہو گا کہ ہم اس کھرے اور دو ٹوک تجزیہ کرنے والے بلاگر کو ڈھونڈے گے کیسے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو بلاگر آج یہاں آیا ہے وہ ”رضیہ“ ہے اور جو نہیں آئے وہ ”غنڈے“ ہیں۔
گو کہ محمد حسن معراج صاحب نے یہ بات مزاق کے موڈ میں کہی تھی مگر پھر بھی میں نے انہیں جانے سے پہلے پکڑ لیا اور کہا کہ بھائی صاحب ہمارے کئی دوست جو کھری اور دو ٹوک باتیں کرتے ہیں مگر وہ ادھر نہیں آ سکے اور آپ نے انہیں غنڈے کہہ دیا۔ اس کے جواب میں محمد حسن معراج نے کہا پہلی بات تو یہ کہ جس طرح چائے کے وقفے میں آپ لوگ کھل ڈھل کر گپ شپ کر رہے تھے اور لطیفے وغیرہ سنا رہے تھے ایسے ہی میں آپ سے گھل مل کر بات کر رہا تھا۔ دوسرا لگتا ہے میں اپنی بات کی ٹھیک طرح وضاحت نہیں کر سکا۔ آج ادھر آنے والوں سے میری مراد یہ تھی کہ سچ بات کرنے اور حقائق کی تلاش کرنے والے لوگ ادھر یا کہیں بھی، کسی بھی پلیٹ فارم پر پہنچ کر، سچ بات کرتے اور حقائق کی تلاش کرتے ہیں جبکہ ”غنڈے“ نہ تو حقائق کا سامنے کرتے ہیں اور نہ ہی حقائق کی تلاش کرتے ہیں، وہ کسی چیز کو دیکھے بغیر، کسی جگہ جائے بغیر، کسی معلومات کو جانے بغیر بس اس پر ”کانسپیریسی تھیوریز“ پیش کر دیتے ہیں۔ اردو بلاگرز بیچارے ایسے سنی سنائی اور جھوٹ پر مبنی باتیں کرنے والوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات اردو بلاگرز کچھ نیا کرنے کی بجائے انہیں کانسپیریسی تھیوریز والوں کو جواب دینے میں اپنی توانائی ضائع کر دیتے ہیں۔ ادھر آنا اور نہ آنا تو مثال کے طور پر کہا ہے۔ ادھر آنے سے مراد یہ ہے کہ کسی جگہ حقائق یا بہتری کے لئے پہنچنا، ادھر نہ آنے سے مراد یہ ہے کہ بغیر کسی مجبوری کے کسی جگہ حقائق یا بہتری کے لئے نہ پہنچنا اور الٹا جس چیز کا علم ہی نہیں اس پر اپنا تجزیہ کرنا۔ سچ لکھنے والے اردو بلاگر جو کسی مجبوری کی بنا پر آج یہاں نہیں آ سکے وہ ”غنڈے“ نہیں جبکہ بغیر کسی مجبوری کے سچ کی تلاش کرنے آج جو ادھر نہیں آئے اور پھر کچھ جانے بغیر اپنے تجزیے پیش کریں گے، ایسے لوگ ”غنڈے“ ہیں اور اردو بلاگر ایسے غنڈوں میں پھنس چکے ہیں۔ محمد حسن معراج نے کہا کہ جیسے ابھی کانفرنس میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کانفرنس کے حق میں نہیں مگر پھر بھی یہ ”رضیہ“ ہیں کیونکہ کم از کم یہ ادھر آئے ہیں حقائق کو اپنی نظر سے دیکھیں گے اور پھر اپنا تجزیہ پیش کریں گے۔ آپ دیکھ لینا اسی کانفرنس کے بعد کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہیں کانفرنس کی کاروائی کا ذرا بھی پتہ نہیں ہو گا مگر تجزیہ ایسے کریں گے جیسے وہ یہاں موجود تھے۔ آگے بڑھ کر حقائق کی کھوج لگانے والا اردو بلاگر ”رضیہ“ ہے اور جو سازشیں کرنے والے ”غنڈوں“ میں پھنس چکی ہے۔ گو کہ میں نے یہ محاورہ مذاق کے موڈ میں مثال کے طور پر بولا تھا مگر پھر بھی میری اس بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اجازت چاہی اور وہ چلے گئے۔
یہ رضیہ اور غنڈوں والی باتیں چائے کے وقفے میں گپ شپ کے طور پر مزاح کے موڈ میں ہو رہی تھیں۔ اسی وقفے کے دوران مشہور شاعر فرحت عباس شاہ روایتی میڈیا کے خلاف اور بلاگرز کے حق میں کھل کر بولے۔ انہوں نے کہا کہ روائیتی میڈیا کی اکثریت کسی کام کی نہیں، میڈیا میں جو کام کے لوگ ہیں ان پر بھی ادارے اور ایڈیٹرز کی پالیسی ہے۔ آپ بلاگر لوگ آزاد ہو۔ اس ملک کے لئے جو آپ کر سکتے ہیں وہ ہمارا روائیتی میڈیا نہیں کر سکتا۔ آپ نوجوان ہو، اس ملک کی تقدیر آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سنی سنائی اور کانسپیریسی تھیوریز بنانے سے دور رہ کر ذمہ داری کے ساتھ سچ کی کھوج لگا کر اسے سب کے سامنے رکھو اور ملک کی تقدیر بدل ڈالو۔ فیس بک، بلاگ اور دیگر سوشل میڈیا پر گالیاں لکھنے کی بجائے کچھ تعمیری کرو اور روائیتی میڈیا کا متبادل بن جاؤ۔ پھر وہ دن آئے گا جب روائیتی میڈیا آپ لوگوں کے قدموں میں ہو گا۔
نوٹ:- جو باتیں مجھے یاد رہیں یہ ان کا مفہوم لکھا ہے۔
اگلا اور آخری حصہ:- کانفرنس کا دوسرا دن اختتام تک
حسن معراج صاحب کا اپنا بلاگ کون سا ہے
http://muhammadhassanmiraj.wordpress.com/
http://urdu.dawn.com/author/mohammadhasanmairaj/
بلال بھائی ماشااللہ آپ نے بہت ہی تفصیل سے تمام حالات تحریر کیے تھے۔ ایک چیز جو مجھے کانفرنس کے دونوں دن کھلتی رہی ہے وہ محترم حسن معراج صاحب کو دوسرے بلاگرز کی نسبت ملنے والا خصوصی پروٹوکول تھا۔ اگر آپ اس کی وجوہات پر روشنی ڈال سکیں تو مہربانی ہوگی۔
تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
مثلاً حسن معراج صاحب کو ہم سے زیادہ کیا پروٹوکول ملا؟ میں کام کاج میں مصروف تھا اس لئے اس طرف توجہ نہیں تھی۔ اگر آپ کے خیال میں انہیں کسی جگہ کوئی خاص پروٹوکول ملا ہے تو اس کا ذکر کیجئے، اگر مجھے معلوم ہوا تو اس کی وجوہات پر ضرور روشنی ڈالوں گا۔
محمد حسن معراج پہلے بلاگ ہی بنانا چاہتے تھے لیکن جب ایک فیس بکی گفتگو کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ اردو بلاگر کو صرف پوسٹ ہی نہیں لکھنا ہوتی بلکہ ان تبصرہ نگاروں کے وار بھی سہنا ہوتے ہیں جو آپ کی محنت سے لکھی ہوئی پوسٹ پر یک سطری سازشی تبصرہ کر کے چلتے بنتے ہیں اور کسی معقول بحث میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ انہوں نے چند اردو بلاگز کا بغور مشاہدہ کیا اور پھر وہ دوڑ لگائی کہ سیدھا ڈان پر جا کر دم لیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آزاد بلاگنگ زیادہ مشکل ہے ۔
آزاد بلاگنگ شاید زیادہ آسان ہے کیونکہ آپ اپنی مرضی کی گالی گلوچ کر کےاپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں .آپ اپنا نام بدل کے کسی کے بھی چھیتڑے اُڑا سکتے ہیں کیونکہ آپ سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا لیکن جب کسی ذمہ دار ادارے کے لئے بلاگ لکھنا پڑتا ہے تو اس ادارے کی پالیسی اور ساتھ ہی اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس بھی کرنا پڑتا ہے .فیس بک تو ایک عوامی بیت الخلاء کی طرح ہے جس میں ہم کچھ بھی بکواس لکھ سکتے ہیں
حسن
جب میں نے آخری دفعہ تمہارا انگریزی بلاگ دیکھا تھا وہ مردہ تھا ۔ اس میں دوبارہ زندگی اور اردو تحاریر دیکھ کر خوشی ہوئی ۔
ویسے میرے خیال میں بلاگنگ ہوتی ہی آزاد ہے اور جو آزاد نہ ہو وہ بلاگنگ ہی نہیں۔ ہمارے معاشرے کے مطابق بلاگنگ پر صرف ایک ہی پابندی ہے یعنی اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر سچ لکھا جائے۔ یہ میرا خیال ہے، جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
سو فیصد متفق
بلال بھائی یہ کیا بات ہوئی ، میں تو کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آپایا تھا اور مجھے غنڈوں میں شامل کردیا گیا (یہ مذاق میں لکھا ہے)
بہت خوشی ہورہی ہے جان کر کہ اب اردو بلاگنگ کا مستقبل کافی روشن ہے اور ساتھ ساتھ اب ہم سب پہ زیادہ ذمہ داری آگئی ہے
وہ تو کبھی آپ ملو گے تو آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کتنے بڑے ”غنڈے“ ہو۔ 😀 یہ کیا کم ”غنڈہ گردی“ ہے کہ آپ اتنے پاس ہو کر بھی نہیں آئے۔
باقی ان شاء اللہ اردو بلاگنگ کا مستقبل روشن ہو گا۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
رضیہ والی بات اتنی مشہور ہوئی ہے کہ اب جب بھی کوئی رضیہ کا نام لے میرے ذہن میں حسن معراج آ جاتا ہے 😉
کیوں نہ اسے متفقہ طور پر اردو بلاگنگ کی رضیہ تسلیم کر لیا جائے جو روایتی میڈیا (ڈان) میں جا کر پھنس گئی ہے 😛 😛 🙂
چلو شکر ہے کسی نے حسن معراج صاحب کو اردو بلاگر تسلیم تو کیا۔ ورنہ ہمارے ہاں تو بس سیارہ اور فیس بک بلاگر گروپ والوں کو ہی اردو بلاگر مانا جاتا ہے۔ اگر رضیہ والی بات دیکھی جائے تو ہم سب ”رضیہ“ ہی تو ہیں۔ حسن معراج صاحب ڈان میں پھنسے ہیں تو ہم کانسپیریسی تھیوریز والوں میں پھنسے ہیں۔ ویسے یہ رضیہ کے خطاب دینا چھوڑو اور اس بات پر غور کرو کہ اردو بلاگرز کو غنڈوں سے آزاد کیسے کروانا ہے۔ 🙂
جزاک اللہ جناب آپ کی پرزور روداد کے صدقے ہم بھی اس کاروائی کے بارے علم سے سیراب ہورہے ہیں ورنہ آنکھ اوجل پہاڑ اوجل۔ تو پھر دیکھیںابھی کتنے گم نام بلاگز آتے ہیں، ایک ادھا تو میں ہی بناؤں گا ڈفر اصلی والا کے نام سے، نیز ہماری کوئ برانچ نہیں ہے بھی لکھوں گا۔ پھر ادھر گالیاں اور پھکڑ تولے جائیں گے۔ بتلاؤ، یہ نتیجہ چاہتےتھے آپ لوگ اس کانفرس سے۔ ہیں جی
روداد پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ باقی آپ ڈفر کا نام استعمال کرو تو سہی پھر ڈفر ہی کاپی رائیٹ کا آپ پر کیس کرے گا 😀
بلال یار ، میرے خیال سے تم حسن معراج کی وضاحت نہ کرو کیونکہ اس بندےسے تمہارا کچھ لینا دینا نہیں۔ حسن معراج بقول خود انکے سوشل میڈیا کے آدمی ہیں اس لئے بہتر ہے کہ وہ خود آکر وضاحت کریں۔
ارے یار میں کسی کی وضاحت نہیں کر رہا بس کانفرنس کی روداد لکھ رہا ہوں اس لئے جو تفصیل مجھے معلوم ہے وہ لکھ دی۔
یار حسن معراج کے بلاگ کو پہلی دفعہ دیکھا، بلاگ کے ڈیزائن اور مواد سے وہ کسی صورت بھی اردو بلاگر نہیں لگتے۔ مجھے نہیں معلوم تمہیں اس بندے میں دلچسپی کیوں ہورہی ہے۔ وہ جانے اور اسکا کام جانے، مٹی پاو۔
پیارے بھائی مجھے کسی بندے سے دلچسپی نہیں البتہ اردو بلاگنگ سے بہت دلچسپی ہے۔ باقی چاہے فی الحال وہ اردو بلاگر نہ سہی لیکن اگر وہ ہمارے اردو بلاگران والے قبیلے میں شامل ہونا چاہیں تو ہمیں یقیناً انہیں خوش آمدید کہنا ہو گا۔ 🙂
جی بلال بھائی۔۔۔واقعی ہمیں نئے بلاگرز کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ جس طرح بلاگر آزاد ہوتا ہے اسی طرح اگر واقعی کوئی فورم ہے تو اسے بھی آزاد ہونا چاہیے۔ آپ نے واقعی کافی محنت کی ہے اس کانفرنس کے لیے۔۔۔ اسکے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں آپ۔
بہت خوب ۔اندازِ تحریر پسند آیا ۔کامیاب کانفرنس کے انعقاد کی مبارک قبول کیجیے۔ انشاء اللہ اردو بلاگنگ کا ارادہ ہے ۔ بلال صاحب امید ہے آپ مدد کرینگے ۔
تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ جناب ضرور بلاگنگ کیجئے اور مجھ سے جہاں تک ہو سکا تعاون کروں گا۔
اس سے پہلے کے چھتر پڑتے میں نکل لیا 🙄
بہت اعلی روداد لکھی ہے۔۔۔۔۔ ایک سال بعد پڑھا 😀 ۔ پھر بھی مزہ آیا پڑھ کر اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا ہے۔