بسم اللہ الرحمن الرحیم
گذشتہ سے پیوستہ
ہمارے کئی لوگ ایک ٹریک پکڑ لیتے ہیں یعنی ایک منزل منتخب کر لیتے ہیں لیکن کئی لوگ اپنی طبیعت کی وجہ سے اپنے ٹریک سے تھوڑے ہٹ جاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہمارا پروفیشن کچھ اور ہوتا ہے، ہمارے اندر کے ماسٹر کی آواز کچھ اور ہوتی ہے لیکن ہم اپنی قابلیت دیکھے بغیر اپنا اصل پروفیشن چھوڑ کر انہی چیزوں کے انجینیئر بننے کی کوشش کرتے ہیں کل تک جن کے ہم صرف صارف تھے۔ اگر یہ انجینیئرنگ کسی ایک چیز تک محدود رہے پھر بھی ٹھیک ہے لیکن ہم ہر چیز کے ماسٹر بننے چل پڑتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے کہ ہم کام تو بہت کر لیتے ہیں لیکن ماسٹر کسی کے بھی نہیں بن پاتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے تو میرے حساب سے اس کا جواب بھی وہی ہے کہ دوران سفر ہمیں کئی پیاری چیزیں نظر آتی ہیں اور ہم اپنی منزل کو چھوڑ کر ان کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی وقت سفر کرتے ہوئے گاڑی سے باہر دیکھئے گا اور غور کیجئے گا کئی خوبصورت مناظر سامنے ہوں گے اور یہ وہی پچھلی تحریر والا ”جنرل نالج“ ہی ہے۔ اسے میں نے خود سے جنرل نالج کا نام دیا ہے اب پتہ نہیں محققین اسے کیا کہتے ہیں۔ خیر اگر ہم ان مناظر کو دیکھ کر، خوش ہو کر اور پھر نظر انداز کر کے اپنا سفر جاری رکھیں گے تو ہی ہم منزل پر پہنچیں گے لیکن اگر ہم ان مناظر پر دل ہار بیٹھے اور ان کے پیچھے چل پڑے تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ پھر ہماری کوئی منزل نہیں ہو گی کیونکہ ان مناظر کی طرف جاتے ہوئے ہمیں مزید ان سے اچھے مناظر نظر آئیں گے تو ہم ان کی طرف چل پڑیں گے اور یوں زندگی جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں ختم ہو جائے گی۔
روز روز پروفیشن اور زندگی کا مقصد تبدیل کرنے کی بجائے ایک بار ہی اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کریں اور پھر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کر دیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں جو آپ کا جنرل نالج تو ہے لیکن آپ کی زندگی کا مقصد نہیں۔ اپنے جنرل نالج اور اپنے زندگی کے مقصد میں فرق کریں۔
حصہ اول میں ایک بات لکھی تھی کہ ہماری اکثریت پسِ پردہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ سب کو ہیرو بننے کا شوق ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت کام سمجھ جاتا ہے وہ پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ہماری ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کی مثال آپ کو عام زندگی سے لے کر انٹرنیٹ تک ہر جگہ ملے گی۔ عام زندگی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اور انٹرنیٹ پر میں اس کی مثال مختلف ویب سائیٹس اور فورمز کے ممبران سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھ لیں، اتنے ہمارے فورمز استعمال کرنے والے ممبر نہیں جتنے اب فورمز بن رہے ہیں۔ ذہانت کا ذخیرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بہت جگہوں پر بکھرا پڑا ہے۔ ہیرو بننے کے چکروں میں سب شروع سے پہیہ ایجاد کر رہے ہیں۔ کسی نے تھوڑا زیادہ کر لیا ہے اور کسی نے کم۔ اگر یہی کام ایک پلیٹ فارم پر ہوتا تو اب تک پہیہ تو کیا کئی قسم کی گاڑیاں بن جانی تھیں۔ جب ایک پلیٹ فارم سے کام زیادہ ہوتا تو پھر نیا منصوبہ بنایا جاتا اور نئے فورمز، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ کبھی غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک چھوٹی سی وضاحت کرتا جاؤں کہ سب کی بات نہیں کر رہا بلکہ اکثریت ایسی ہے۔ اگر مقصد اور منزل مختلف ہو پھر تو ظاہر ہے علیحدگی ہی بہتر ہے لیکن اگر مقصد ہو اچھا مسلمان بننے کا، تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی مسجد کیوں بناتا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ ہاں تو کبھی آپ نے غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو میری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں ہیرو بننے کا شوق ہے۔ ہم چھوٹا سا نظریاتی اختلاف بھی برداشت نہیں کرتے۔ ہم دوسرے کو سمجھنے کی بجائے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ اب ان تین باتوں کی تھوڑی سی وضاحت اور ساتھ ہی میرا موضوع بھی ختم۔ ہیرو بننے کے چکروں میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری قابلیت کیا ہے؟ جو ہم کرنے جا رہے ہیں اس کی معاشرے کو ضرورت ہے یا نہیں؟ اس سے باقیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟ ہر چیز کو نظر انداز کر کے ہم ہیرو بننے چل پڑتے ہیں اور اوپر سے ایک کام میں ہیرو بننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کئی جگہوں پر اپنی شخصیت کو نمایا کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔ ہیرو بننے کے شوق میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہیں اور پھر خود ہی امام اور مقتدی ہوتے ہیں۔ اوپر سے سوچتے اور دل کو تسلی اس طرح دیتے ہیں کہ دیکھو ہم کتنا اچھا کام کر رہے ہیں یعنی مسجد بنائے بیٹھے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ حقیقت میں ایسے لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر قوم کے ٹیلنٹ کو بکھیر دیتے ہیں۔ یہاں کسی سے تھوڑا سا نظریاتی اختلاف ہوا وہاں علیحدہ اور اپنی نئی مسجد۔ ہم کسی کو برداشت تو کر نہیں سکتے۔ خود کو ہمیشہ لیڈر کے روپ میں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم سب سے بہتر ہیں۔ ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اگر ہم خود کو ٹھیک کہہ رہے ہیں تو دوسری طرف جو ہے وہ بھی خود کو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ لہٰذا غور تو کریں کون ٹھیک ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہم جلد بازی میں، انا، عقل کل اور حقیقی ہیرو سے اپنی تھوڑی بہت عادات کو ملتا جلتا دیکھ کراپنے اندر کے ماسٹر کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اور خود کو ہیرو کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کرنا چاہئے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں اور کہیں کہ جی ہم تو کچھ نہیں کر سکتے جبکہ ہو سکتا ہے آپ کے اندر ایک ہیرو چھپا ہو۔ ہر دو صورتوں میں خود کو پہچانیں اور اس کے مطابق کام کریں۔ جو بھی کام کریں اس سے پہلے خود سے کم از کم یہ سوال ضرور کریں کہ ”یہ کام میں کیوں کرنے لگا ہوں؟“ اگر صرف اس لئے کرنے لگے ہیں کہ آپ ہیرو بننا چاہتے ہیں تو میری نظر میں آپ نے اپنے کردار کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ اور اگر نظریات کے اختلاف پر اپنی علیحدہ مسجد بنانی ہے تو پھر ہر گھر میں ایک مسجد ہونی چاہئے بلکہ گھر میں جتنے فرد ہیں اتنی مساجد ہونی چاہئے۔ دنیا میں وہی لوگ ترقی کرتے ہیں جو اتفاق سے رہتے ہیں۔ اپنی اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ جیسے اب آپ نے میری بونگیاں برداشت کی ہیں۔(صرف مزاح کے لئے) ایک ٹیم کی صورت میں کام کرنے کی کوشش کریں۔ جس میں چھوٹے سے چھوٹا کردار بھی ہوتا ہے اور ہیرو بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ میں ہیرو والی قابلیت ہوئی تو ہیرو بننے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ٹیم کی صورت میں کام کرنے والے لوگ اس لئے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ہر کوئی اپنا کردار سمجھتا ہے اور اسے اچھے طریقے سے ادا کرتا ہے اور ہر وقت اپنے کردار سے مخلص رہتا ہے۔ چاہے اس کا کردار چھوٹا ہی سہی لیکن اپنے اصلی کردار کو سمجھتا ہے، اپنی منزل کی پہچان کرتا ہے اور پھر آہستہ یا تیز چلتے ہوئے اپنا کردار ادا کر کے اس دنیا کے سٹیج سے چلا جاتا ہے۔
ختم شد
یہ سارا میرا قصور ہے۔
نہ میں وہ پوسٹ لکھتا۔۔۔نہ یہ ہفتہ خشک کدہ منایا جاتا۔ :eyeroll:
اچھا لکھا ہے ۔ قرآن شريف ميں دو احکام بار بار آئے ہيں ۔ ايک غور کرنے کا اور دوسرا تحمل ۔ بدقسمتی ميں آج کے پاکستانی مسلمان کی اکثريت ان دونوں پر عمل نہيں کرتی
بات ٹھیک ہے۔ لیکن کسی بھی کام کا آغاز کرنے کے لئے ایک رہنما چاہیئے۔ اللہ کے رسول ص نے فرمایا کہ تم اگر تم دو بھی ہو تو ایک امیر منتخب کرلو۔ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔
بلال بھائی – میرے خیال میں خالق کائنات نے پوری کائناتی اسٹیج پر چیونٹی سے لیکر ہاتھی تک کو اپنا اپنا کردار اُنہیں سمجھادیا ہے – وہ اسکی ادائیگی احسن طریقے پر کر رہے ہیں – لیکن انسان کو ذہن جیسی عظیم شے سے نوازا کہ وہ اپنے میں سے ودیعت شُدہ کردار کی خود شناخت کرے اور معا شرے میں اپنا رول ادا کرے – جو انسان اپنا ودیعت شدہ رول شناخت کرلیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو کامیاب رہتا ہے – اور جو اپنے کردار کی شناخت کیلئے غور وفکر نہیں کرتا وہ اپنے کردار کی شناخت بھی نہیں کرپاتاہے اور ناکام رہتا ہے -پاکستان میں ایسے انسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے – جانوروں کو خودشناسی کی صلاحیت نہیں دی گئی ہے اسلئے وہ اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں – انسان کو ذہن دیا کہ جستجو کے زریعے اپنے کردار کو پاؤ – بہت شکریہ
آپ کی تحریر کا نتیجہ میں اس طرح نکال پایا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو ایک خاص مقصد دے کر بھیجتے ہیں۔ جاؤ یہ کرو، جاؤ وہ کرو۔ لیکن اب ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ہمیں کس مقصد سے بھیجا گیا ہے۔ شاید اس طرح کہ ہماری فطری دلچسپی جس امر میں ظاہر ہو ہمیں اسی کام کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ بلال بھائی فرصت ملے تو اس پر بھی کچھ لکھیے گا۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بلال بھائی، بہت خوب بہت اچھالکھاہے۔ میں افتخاربھائی سےمتفق ہوں دراصل قرآن مجیدتقریباکم وبیش 700سےزیادہ مرتبہ غوروفکرکی دعوت دیتاہےلیکن ہم لوگ دراصل لکیرکےفقیرہیں۔ جب کام میں لگ جاتےہیں اسی میں ساری عمربتادیتےہیں۔ جاویدچوہدری صاحب نےاپنےپروگرام میں کہاتھاکہ کوئی بھی کام جس کوہم کرتےہوئےتھکتےنہیں ہیں اس کوکرتےہمیں وقت کےگزرنےکااحساس بھی نہیں ہوتاہےوہی ہماری صحیح فیلڈہے۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح طورپرکام کوچننےکی طاقت دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال