سبھی نہیں مگر اکثریت مرنا بھی نہیں چاہتی اور یہ بھی سوچتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ مختلف نظریات و عقائد رکھنے والوں میں یہ خیالات مختلف سمتیں اختیار کرتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھنے والے اسے کسی دوسری طرح سوچتے ہیں اور نہ رکھنے والے کسی دوسری طرح۔ مرنے کے بعد شروع ہونی والی زندگی پر کوئی سوچے نہ سوچے، اسے مانے نہ مانے لیکن پیچھے چھوڑ جانے والوں کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔اس میں سب سے زیادہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ میرے بعد قریبی رشتہ داروں کا کیا ہو گا۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ ابھی آپ کو تبلیغ کرنے والا ہوں، تو ایسا خیال نکال دیجئے۔ بس ”میرے مرنے کے بعد دنیا میں کیا ہو گا“ کے ایک خاص نکتے کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد آیا لوگ ہمیں یاد کریں گے یا نہیں؟ اگر کریں گے تو کتنے لوگ کریں گے اور اچھے الفاظ میں یاد کریں گے یا برے میں؟ آیا میرے مرنے سے دنیا کو فرق پڑے گا یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ حساس لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ اس نکتہ پر وہ لوگ کچھ زیادہ ہی سوچتے ہیں، جو تھوڑا بہت سماجی کاروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا حلقہ احباب تھوڑا وسیع ہوتا ہے۔ جب ان کے جاننے والوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو مرنے والے کو جس انداز میں لوگ یاد کرتے ہیں، تو اس سے اکثر کو یہ خیال آتا ہے کہ آیا میرے مرنے کے بعد یہ لوگ مجھے بھی یاد کریں گے یا نہیں؟ یہ سوال وہ لوگ اور بھی زیادہ سوچتے ہیں جن کے اردگرد کے لوگ ان کے منہ پر کچھ زیادہ ہی ”واہ واہ“ کرتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر کئی لوگ اس سوال کا جواب پانے کے لئے مختلف حرکتیں تک کر جاتے ہیں اور کئی لوگ اکثر جگہ اپنے مرنے کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ جب میں مر جاؤ گا تو یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ ”ہر ٹوٹا ہوا جام ہمیں یاد کرے گا“۔ اکثریت کو اپنا آپ اچھا، بڑا یا انوکھا لگتا ہے، اس لئے کئی لوگ خود کو مطمئن بھی کر لیتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد بہت لوگ مجھے یاد کریں گے اور ایک دفعہ تو دنیا رک جائے گی۔ بس پھر اسی کی تصدیق کے لئے انوکھی انوکھی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔
اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو یقین کریں، واقعی آپ کے مرنے کے ساتھ ایک دنیا مرے گی، ایک دنیا رک جائے گی، ایک قیامت برپا ہو گی۔ لیکن وہ ”دنیا“ باہر کی دنیا نہیں ہو گی بلکہ وہ آپ کی اپنی دنیا ہو گی۔ ہر انسان اپنے اندر ایک ”دنیا“ ہے، اس لئے ہر انسان کے مرنے کے ساتھ ایک ”دنیا“ مرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ تھوڑے بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وقت بہت زبردست مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بہت ساری کمیاں دور کر دیتا ہے اور بہت جلد دنیا واپس اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی سوچے کہ اس کے مرنے کے ساتھ باہر کی دنیا بھی ایک دفعہ رک جائے گی یا دنیا کو لمبے عرصے کے لئے کوئی فرق پڑے گا تو یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس دنیا کو کسی کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کسی کے اچھے یا برے کام سے مرنے کے بعد بھی فرق پڑتا ہے۔ خیر یہاں ہر لمحے انسان پیدا ہو رہا ہے اور مر بھی رہا ہے۔ یہ دنیا یونہی روز اول سے چل رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ بلکہ میرے خیال میں جب اس دنیا میں کسی انسان کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو تبھی وہ مرتا ہے۔ ہر بندے کی دنیا میں رہنے کی ایک مدت ہے اور اسی مدت کے دوران ہی دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ اِدھر ضرورت اور مدت ختم ہوتی ہے تو اُدھر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ زندہ رہتا ہے تو وہ انسان کا کام ہے، ورنہ یہاں تو بڑے بڑے تیس مار خاں کو بھی موت نے آ گھیرا۔ بقول شاعر
دارا اور سکندر جیسے شاہِ عالی شان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے کچھ بھی نہیں ہے تو
میرے خیال میں یہ بھی اس دنیا کا ”حسن و خوبی“ ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک حساب سے یہ نعمت بھی ہے کہ مرنے والوں کو وہ بھول جاتے ہیں یا ان کی یاد کم ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جو ہمارے پیارے فوت ہو چکے ہیں، ہم آج تک ان کی یاد اور غم میں ہر وقت تڑپتے رہتے۔ جب ہر کوئی غم سے نڈھال ہوتا تو اس دنیا کا نظام رک جاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیئے کہ ہمارے مرنے سے دنیا رکے گی یا نہیں؟ کسی کو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ کتنے لوگ ہمیں یاد کریں؟ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اپنوں کا کیا ہو گا؟ ایسے سوال سوچنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جس نے ہمارے اپنوں کو اس دنیا میں بھیجا ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ جو پوری دنیا کا نظام چلا رہا ہے وہ ہم سے بہتر کارساز ہے، اس لئے وہ پیچھے رہ جانے والوں کے لئے جو کرے گا بہتر کرے گا۔ بلکہ ہمیں توجہ اس بات پر دینی چاہیئے کہ جب تک زندہ رہیں تو ایسے رہیں کہ لوگ ہماری زندگی کی دعا کریں اور جب مریں تو کوئی یاد کرے نہ کرے مگر دنیا کو ہمارے کیے گئے کام سے فائدہ ہو، کیونکہ انسان زندہ نہیں رہتا جبکہ اس کا کام باقی رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسا کریں کہ ہم مریں بھی تو اپنے حصے کا چراغ جلا کر مریں۔ ہمارے مرنے کے بعد جب لوگ ہمارے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی سے فائدہ اٹھائیں گے تو ہمیں مر کر بھی فائدہ ہو گا اور ہم مر کر بھی زندہ رہیں گے۔ یوں جینے کا بھی مزہ آئے گا اور مرنے کا بھی۔ بے شک انسان ایک نہ ایک دن مر جاتا ہے، مگر انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
ویسے میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو اور اپنے کردار کو سمجھتے ہوئے ہر وقت اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، انہیں موت کی فکر نہیں ہوتی، نہ ہی پیچھے رہ جانے والوں کی اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ یاد کریں گے یا نہیں۔ ایسے لوگ بس اس دنیا میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں اور انہیں جس لمحے بھی موت آئے، وہ اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ یہیں تک ان کی دنیا تھی، یہیں تک دنیا کو ان کی ضرورت تھی اور یہیں تک ان کا کردار تھا۔
فی الحال تو جینے کی پریشانی ہے
جیئں تو کیسے جیئں۔
کاش یہی ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ بھی سوچتے۔
عجیب اتفاق ہے کل بی بی سی وڑلڈ سروس سے وابستہ ایک مشہور صحافی کی اچانک موت نے مجھے اپنی موت کے بارے میں سوچنے پر مجبورکردیا۔ آج آپ نے بلاگ تحریر بھی اسی موضوع پر لکھی ہے۔ اپنی موت کی سوچتے ہی مجھے بھی اپنے بچوں کی فکر ہوگئی۔ اور ایسا بچہ جس کی زندگی کی ہر ضرورت کی ذمہ داری خدا نے آپ کے کاندھوں پر ڈال دی ہو تو پھر اپنی موت کے بارے میں سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔
سولہ سال پہلے میرے اباجان پر دل کا دورہ حملہ آور ہوا اور انہوں نے پندرہ دن زندگی سے کشمکش کرنے کے بعد یہاں ہانگ کانگ کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی۔ جس وارڈ میں میرے والدمرحوم نے آخری سانس لی تھی اس کی کھڑکی سے باہر شہر کی مرکزی شاہراہ نظر آرہی تھی جس پر گاڑیوں کا سیلاب رواں دواں تھا۔ ساتھ ہی سرکلر ٹرین کے سٹیشن تھا وہ بھی کھڑکی سے نظر آرہا تھا جس پر لوگوں کا ایک ہجوم اپنی زندگی میں مصروف نظر آرہا تھا۔
میری نظر جب کھڑکی سے باہر کی دنیا پر گئی تو اس وقت میرے ذہن میں غم و غصے سے بھونچال سا آگیا کہ دیکھوتو میں اجڑ گیا ہوں اور دنیا کو ککھ پروا نہیں ہے۔ دیکھو تو ابھی ابھی ایک انسان نے آخری سانس لی ہے اوردنیا حسب معمول اپنے اپنے روز مرہ کے کام کاج میں لگی ہوئی ہے۔ میرا دل کررہا تھا چیخ کر دنیا کو وہیں روک لوں، میرا دل چاہ رہا تھا وقت وہیں رک جائے، دنیا ایک لمحے کے لئے ہی سہی لیکن ٹھہر جائے، ایک انسان نے جان دی ہے، ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا ایک بار گردن گما کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرے۔ لیکن ایسا ہی ہوتا ہے۔ میرے لئے خاص ترین انسان کی موت نے میری دنیا بدل دی تھی لیکن دنیا کے لئے وہ ایک عام انسان تھے جس کے چلے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
وقت نے میرے غم پر بھی مرہم رکھ دیا اور میں اپنی دنیا میں مگن ہوگیا۔ واقعی ہر انسان ایک دنیا کے مانند ہے اس کی موت سے وہ دنیا ختم ہوجاتی ہے۔ جن کا اس دنیا سے واسطہ ہوتا ہے وہ اس دنیا کے اختتام پر کچھ عرصے کے لئے غمگین ہوجاتے ہیں اور پھر نئی دنیاؤں کے ساتھ واسطے بناکر ان میں مگن ہوجاتے ہیں۔
بے شک کسی ایک فرد کے جانے سے دنیا نہیں رکتی، اور نہ ہی آج تک رکی ہے. لیکن کچھ لوگوں کے جانے سے جو خلا بنتے ہیں انہیں پاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے. زندگی البتہ اسی رفتار سے ہی چلتی رہتی ہے. ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ قبر پر مٹی ڈال کر جب لوگ واپس مڑتے ہیں، غیبی قوت لواحقین کے زخموں کا اندمال کرنا شروع کردیتی ہے.
جو آیا ہے اُسنے جانا ہے، اور بُحلادیا جانا ہے۔۔۔
لیکن بعض انسان کُچھ ایسا کام کرجاتے ہیں، وہ کام اُنہیں زندہ رکھتا ہے، نیوٹن آج بھی زندہ ہے، آئن سٹائن آج بھی زندہ ہے ،سگمنڈ فرائیڈ آج بھی زندہ ہے، افلاطون آج بھی زندہ ہے ،ابھی کل ہی یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں سرسیدکو “اُن کے کام کے حوالے سے” خراجِ تحسین پیش کیا ۔۔میرا خیال ہے میں نے اپنی بات کہہ دی ہے۔۔ اب مجھے اجازت لے لینا چاہئیے، آپکا بُہت شُکریہ ۔۔
(احسان مند ایم ڈی)۔۔۔
بلال بھائی بہت خوب۔۔۔۔۔آخری فکرے میں تو ساری تحریر کی جان ڈال دی آپ نے واہ۔۔۔۔
خدانخواستہ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو انٹرنیٹ کی اردو دنیا یتیم ہوجائے گی۔
اصل امتحان وہی ہے جو آخری سانس کی کہانی ہے۔ چراغ جتنے مرضی جلا لیں لیکن خود اپنے لیے کبھی چراغ تلے اندھیرا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ روشنی جو جگ کو تومنور کرے لیکن ہمارے اندر کی تاریکی دور نہ کر سکے، ہمارے اپنے راستے کو روشن نہ کر سکے اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ سب کو ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے ۔ آمین
بحت خوب لکھا آپ نے جو جتنے اچھے کام کرے گا اتنا ھے اسکا نام رھتئ دنٕئا تک رھے کا
میرے خیال میںجس طرحہماری زندگی میںجو بھی آسانیاں ہیں جو ہم سے پہلے لوگ چھوڑ گئے جیسے کہ بجلی اور ریڈیو وغیرہ بلکل ویسے ہی ہمیںبھی دنیا کو جیسا پایا تھا اس سے بہتر چھوڑ کر جانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اور اگلی زندگی ہماری گہری خواہشات اور خوف کے سوا کچھ نہیں۔