نیند اتنی تھی کہ جگانے والی گھنٹی چیخ چیخ کر چپ ہو گئی، مگر میں نہ اٹھا۔ اور پھر یکایک خیال آیا کہ جو سوتے ہیں، وہ کھوتے ہیں اور آج کل ”کھوتے“ کو تو لوگ کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ بس پھر ”کھوتا“ بننے سے ڈر گیا اور فوراً بستر چھوڑا۔ تیاری کی اور چل دیا انارکلی کی تلاش میں ہرن مینار۔ گوکہ تاخیر کا شکار تھا، مگر کبھی نہ پہنچنے سے دیر سے پہنچنا بہتر ہے۔ اس لئے گاڑی تیز چلانا کوئی عقلمندی نہیں۔ گوجرانوالہ پہنچ کر عدنان شاہد سے فون پر معلوم ہوا کہ گوجرانوالہ شیخوپورہ روڈ خراب ہے۔ کالاشاہ کاکو سے براستہ موٹروے (M2) جانا ہی مناسب رہے گا۔ دیر سویر جو بھی ہو، راستے میں چائے تو پینی ہوتی ہے اور کامونکی کے ایک ٹرک ہوٹل سے تو پینی ہی پڑتی ہے۔ چائے پیتے ہوئے ”ایکسپلور پنجاب میگزین“ کے ایڈیٹر عثمان قریشی صاحب کو فون کیا۔ انہیں کی زیرِ نگرانی ہرن مینار میں تقریب ہو رہی تھی۔ دراصل 18اپریل کو عالمی ثقافتی ورثہ کا دن(World Heritage Day) تھا۔ اس موقع پر ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب(TDCP) نے کھوج پنجاب(Explore Punjab) کے عنوان سے ہرن مینار میں سیاحوں، بائیکرز اور فوٹوگرافرز کی ملاقات اور فوٹوواک(PhotoWalk) کا اہتمام کیا تھا۔
”آ ویکھ سُخن دیا وارثا، تیرے جنڈیالے دی خیر“۔ صوفی شاعر وارث شاہ کے اسی جنڈیالہ اور شیخوپورہ کے راستے میں ہرن مینار آتا ہے، جو کہ مغل بادشاہ نورالدین جہانگیر نے 1607ء میں بنوایا تھا۔ اجی وہی! جلال الدین اکبر کا بیٹا اور شاہجہان کا باپ جہانگیر۔ جس نے تزکِ جہانگیری لکھی یا لکھوائی تھی۔ وہی جہانگیر جو پہلے شہزادہ سلیم عرف شیخو ہوا کرتا تھا اور جس کا انارکلی کے ساتھ محبت کا قصہ مشہور ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم کی چکربازیوں کے چکر میں انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا اور بعد میں خود شہزادہ سلیم ”نورالدین“ بن بیٹھا۔ ویسے بعض لوگ مختلف حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ انارکلی بس ایک افسانہ ہے اور حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ بہرحال حقیقت تو ”حقیقت“ کے سوا کوئی نہ جانے۔ لہٰذا ہمیں سلیمی چکربازیوں سے چکر کھانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی کوئی انارکلی ہمارے چکروں میں پڑنے والی نہیں۔ ہماری قسمت میں تو انارکلی بازار یا پھر ہرن مینار کے چکر ہیں۔ ہرن مینار بھی ایسا کہ مجال ہے جو وہاں کوئی ”ہرنی“ لفٹ کرائے، اور کرائے بھی کیوں؟ ہم شہزادہ سلیم تھوڑی ہیں۔ شہزادہ سلیم تو وہ ہوتا ہے کہ جس کا اپنا ہی تیر جانے انجانے میں اپنے پالتو ہرن ”منسراج“ کو جا لگے اور پھر پیارے ہرن کی قبر پر بلندوبالا مینار تعمیر کرائے۔
اگر ہرن کی موت پر زیادہ ہی افسردہ ہو رہے ہیں تو ہرن مینار کے ساتھ تقریباً271میٹر لمبا اور 228میٹر چوڑا تالاب ہے۔ اس تالاب میں چلو بھر سے زیادہ پانی ہے، لہٰذا ڈوبنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کے درمیان میں جو بارہ دری ہے، وہاں سے پانی میں چھلانگ تو بالکل بھی نہیں لگانی۔ بس بارہ دری میں بیٹھیں اور اپنی اپنی انارکلی کی یاد میں چین کی بنسری بجائیں۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے ’شامل باجا‘ بجائیں۔ تمام باجے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، ورنہ وہ آپ کا باجا بجا دیں گے۔ البتہ کچھ بھی بجانے سے پہلے یہ جان لیں کہ بارہ دری ہرن مینار بننے کے 13سال بعد یعنی 1620ء میں مکمل ہوئی تھی۔ مینار، تالاب اور بارہ دری آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔ ان کے اردگرد چھوٹا سا جنگل ہے۔اس میں تالاب تک پانی لانے کے راستوں کی کچھ باقیات آج بھی موجود ہیں۔ مغل بادشاہوں میں سو نقص نکالیں اور اُن کی ایسی تعمیرات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بجائے فلاں کام کرتے تو اچھا ہوتا۔ لیکن مغلوں اور خاص طور پر جہانگیر کی حسِ جمالیات اور اُس وقت کے مستریوں(انجینئرز) کے فنِ تعمیرات(انجینئرنگ) کو داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔
خیر ہمارا موضوع مغل بادشاہت یا معاشرت نہیں۔ فی الحال ہماری کہانی میں تو سیروسیاحت، فوٹوگرافی اور انارکلی ہے اور اس کہانی میں ڈیڑھ سو کلومیٹر فاصلہ طے کر کے، مقررہ وقت کے آس پاس ہی، میں ہرن مینار پہنچ چکا تھا۔ ”ٹورزم انفارمیشن سنٹر“ کے انچارج اعجاز چوہدری صاحب دل و جان سے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ فوٹوگرافی کے حوالے سے مشہور فیس بکی گروپ کے جانے مانے چند فوٹوگرافرز اور عثمان قریشی صاحب پنجاب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ریسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ عثمان صاحب نے باقی لوگوں سے میرا تعارف کرایا کہ یہ گجرات سے آئے ہیں۔ اس کے بعد فقیر اپنا ابتدائی نوعیت کا ہلکا سا کیمرہ لے کر اہلِ کرم کے مہنگے کیمروں کے پہلو میں، مگر اپنی موج میں بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگا۔ گویا بابا غالب کا وہی نسخہ آزمانے لگا کہ ”بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ……تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں“۔ نسخہ آزمایا، اہلِ کرم نے تماشا دکھایا اور بہت کچھ سکھایا۔ باقی اطلاع یہ ہے کہ موبائل سے تصویر کشی کی اجازت ہے، البتہ سرکار نے ڈی ایس ایل آر(DSLR) کیمرے سے ہرن مینار کی فوٹوگرافی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ مجھے تو اس پابندی کی کوئی ٹھوس وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ ویسے بھی وطن عزیز میں کوئی کام ٹھوس وجوہات کی بنا پر تھوڑی ہوتا ہے۔ خیر ”ایکسپلور پنجاب میٹ اپ اینڈ فوٹوواک“ چونکہ سیاحوں اور فوٹوگرافرز کے لئے تھی، اس لئے تقریب کے شرکاء کو سرکاری طور پر فوٹوگرافی کی اجازت دی گئی۔
ہم ریسٹ ہاؤس میں ہی بیٹھے تھے کہ ”کراس روٹ کلب“ کے بائیکر خاتون و حضرات تشریف لے آئے۔ یوں تقریب کے شرکاء کی کل تعداد پچاس کے قریب ہو گئی۔ سب تالاب کی طرف چل دیئے اور پھر اچانک گروپ فوٹوز کا شدید ترین طوفان آیا۔ یہاں بتاتا چلوں کہ آغاز تا انجام ویڈیوگرافرز کے ڈرون ہرن مینار پر اڑتے رہے۔ خیر جب مہمانوں کے لئے بارہ دری کا دروازہ کھلوانے کی خبریں آنے لگیں تو میں دروازے کے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ مقصد طوفان کو روکنا نہیں بلکہ سب سے پہلے داخل ہونا تھا۔ پہلے داخل ہو کر کوئی معرکہ نہیں مارنا تھا، بس لالچ تھا کہ لوگوں کے آنے سے پہلے پہلے بارہ دری اور اس کے خالی راستے کی تصویر بنا لوں۔ اور میں اپنے تئیں کامیاب ہو گیا۔ ا س کے بعد بارہ دری میں بھی گروپ فوٹو شدت اختیار کر گئی، مگر میری نظریں اپنے یار شمس پر تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ نقاب اوڑھتا، مجھے مینار کے اوپر چمکتے ہوئے کی تصویر بنا کر اپنا رانجھا راضی کرنا تھا۔ شاید کہ ایسے ہی انارکلی مل جاتی۔ خیر اس کام کے لئے پونے کلومیٹر کا چکر کاٹ کر تالاب کی دوسری طرف جانا تھا۔ چونکہ وقت بہت تھوڑا تھا، اس لئے گروپ فوٹو، بارہ دری کی بالائی منزل اور مینار پر چڑھنے کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے دوڑ لگا دی اور مقررہ جگہ پر پہنچ کر تصویریں بنائیں۔ کاش کہ اُس دن تالاب میں کشتیاں نہ چل رہی ہوتیں اور صنف نازک کے جیسی بادل کی نازک ٹکڑیاں، شمس کے اردگرد منڈلاتیں اور اُن کا عکس پانی پر تیرتا اور میرے مطلب کی تصویریں بنتیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ صنف نازک سے رنگوں کی بہار آتی ہے۔ صنفِ نازک کا سن کر ہمیشہ اوٹ پٹانگ ہی کیوں سوچتے ہو؟ کبھی مثبت بھی سوچ لیا کرو۔ پتہ نہیں ہماری باتیں لوگوں کو الٹی کیوں لگتی ہیں حالانکہ اس بات کی شہادت تو علامہ اقبالؒ بھی دیتے ہیں کہ ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ……اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں“۔
تصویریں بنا کر جب واپس پہنچا تو شمس دور کے دیس جا چکا تھا مگر اس کی روشنی اپنے اثرات دیکھا رہی تھی۔ تمام لوگ بارہ دری پر رحم کھاتے ہوئے باہر آ کر سبزہ زار میں بیٹھے تھے۔ میں بھی اُن میں شامل ہو گیا۔ ایک دوسرے کا تعارف اور گپ شپ ہوتی رہی۔ اسی اثنا میں ایک طرف کھانے کی میزیں سجنے لگیں اور دوسری طرف رنگ برنگی روشنیاں جل اٹھیں۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کھانے کا انتظار کیا جائے یا پہلے منور منظرنامے کی فوٹوگرافی کروں۔ دراصل دونوں قسم کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ دور کہیں سے صدا آئی کہ رزق تو رب کے ذمے ہیں مگر بجلی گورنمنٹ کے۔ اور اگر بجلی چلی گئی تو روشنیوں میں ڈوبے ہرن مینار و بارہ دری کی تصویر کشی نہ کر سکنے پر حکومت کو کوسنے سے بہتر ہے کہ کھانے کو چھوڑو اور فوٹوگرافی کر لو۔ جس کا کام اسی کو ساجے والی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے رزق رب پر چھوڑا اور خود رب کی عطا کردہ نعمتوں کے سہارے مختلف زاویوں سے تصویریں بنانے لگا۔ تصویریں بنانے تک کھانا بھی لگ گیا۔ یوں ٹی ڈی سی پی والوں کی طرف سے منسراج ہوٹل کے سبزہ زار میں پُرتکلف ضیافت اڑائی۔ بس ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ پہلے جہاں مچھروں نے مت ماری ہوئی تھی، کھانے کے وقت اُدھر ایک بھی مچھر نہیں تھا۔ باقی یہ تو سمجھ آ گئی کہ ہوٹل کا نام جہانگیر کے پالتو ہرن کے نام پر ہے۔
کھانے کے بعد عثمان قریشی صاحب نے سرپرائز دیا کہ ہلکی پھلکی آتش بازی کا سامان بھی ہے۔ یہ تو سونے پر سہاگہ ہو گیا اور انارکلی ملنے کا موقع پیدا ہو گیا۔ بس پھر شرلیاں چھوڑنے کا وقت و مقام دریافت کیا اور میرے مطابق جس زاویے سے بہتر فوٹوگرافی ہو سکتی تھی، اُدھر جا کر ٹرائی پاڈ پر کیمرہ لگا کر بیٹھ گیا اور ہوائیاں اڑنے کا انتظار کرنے لگا۔ آخرکار سرکار نے شرلیاں چھوڑیں، عوام کی ہوائیاں اڑیں، ہوا میں انارکلیاں بلند ہوئیں اور ہم نے ایک کی بجائے دو پکڑیں۔ اعتراض کاہے کا؟ چار تو ویسے بھی جائز ہیں اور زیادہ کے چکروں میں ہم پڑتے نہیں۔ کیونکہ شہزادہ سلیم ہیں نہ ہمارے ابا جی جلال الدین اکبر کہ ہمیں کچھ نہ کہیں اور انارکلی کو دیوار میں چنوا دیں، بلکہ ہمارے ابا جی نے انارکلی کو تو کچھ نہیں کہنا اور ہماری چھترول بھی نہیں کرنی مگر……آہو۔۔۔
اس کے بعد ریسٹ ہاؤس میں الوداعی چائے کا دور چلا۔ اعجاز چوہدری صاحب کی خلوص بھری چائے واقعی مزیدار تھی، بلکہ ساری تقریب ہی شاندار تھی۔ جس کے لئے ٹی ڈی سی پی اور عثمان قریشی صاحب کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔ یوں اس کہانی کا خوش کن اختتام ہوا۔ بولے تو ”ہیپی اینڈنگ“، مگر آخری پکچر ابھی باقی ہے دوست۔ خوش کن اختتام کے بعد تالاب میں ڈوبنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے جاتے جاتے تالاب کنارے چھوٹی سی گروپ فوٹو بنائی۔ کیمرے کو ٹائمر پر لگا کر اور خود منظرباز بھاگتا ہوا تصویر میں جا گھسا۔
آپ بھی تصویریں دیکھیں اور بتائیں کہ کیسی لگیں۔ تصویریں اچھی نہ لگیں تو ”چِین“ کی بنسری بجائیں اور اگر اچھی لگیں تو پھر پاکستان کی بنسری بجا لیں اور اگر کوئی پوچھے تو آپ بھی کہہ دیجئے گا ”ہماری بنسری ہماری مرضی“۔۔۔ 🙂
بہت شکریہ آپ ہمارے شہر آئے اور بہت خوب صورت فوٹو گرافی کی۔۔۔اور افسوس رہے گا کہ بنا ملے چلے گئے