یہ پرانی باتیں ہیں مگر کل ہی کی بات ہے جب ہم نئے نئے خود کو جوان سمجھنے لگے تھے اور کچھ کرنا چاہتے تھے، اپنے حصے کا دیا جلانا چاہتے تھے۔ میں، میرے یار مانی اور قاری نے مل کر مذہبی و فلاحی کاموں کے لئے گاؤں میں ایک انجمن بنائی۔ قاری انجمن کا پہلا صدر نامزد ہوا اور ہم ٹھہرے انجمن کے منشی۔ بعد میں ہمارے ساتھ کئی لڑکے شامل ہو گئے۔ انجمن کے سائے تلے اور قاری کے ساتھ مل کر ہم نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ ہمارے کارناموں کی بدولت علاقے کے ”مذہبی حلقے“ میں ہمارا طوطی بولتا تھا۔ وقت بدلا، حالات بدلے، سوچ بدلی اور منزلیں بھی بدل گئیں۔
ہمارا یار قاری، اف! کیا زبردست چیز تھا۔ اب قاری کا وہ نام جس سے سارے دوست اسے بلاتے تھے یعنی ”قاری پٹاکا“ لکھا تو کئی لوگ توہین کے زمرے میں شمار کریں گے، اس لئے یہ نام رہنے دیتے ہیں۔ قاری صرف ”سلطان راہی“ ہی نہیں تھا بلکہ اپنے اندر پوری ”انجمن“ بھی تھا۔ درس نظامی سے بھگوڑا تھا۔ اس کی آواز بہت پیاری تھی اور بڑی خوبصورت نعت پڑھتا تھا۔ قاری کی کئی ایک خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ منت سماجت کرنے اور چندہ جمع کرنے میں کافی مہارت رکھتا تھا۔ قاری کو نمود و نمائش کا بہت شوق تھا اور ہر اس جگہ ”ماما“ بن جاتا جہاں اسے تشہیر ملنے کا موقعہ ہوتا۔ اس کے علاوہ قاری کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اگر کہیں سب کچھ خراب ہو گیا ہو اور کوئی بہتری کی گنجائش نظر نہ آ رہی ہو تو پھر بھی قاری کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیتا۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی باتوں میں آ کر اس کے ساتھ چل دیتے تھے۔ کوئی مانے نا مانے مگر میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ قاری کا قبلہ درست ہو نہ ہو مگر وہ پیدائشی لیڈر ہے اور بھاگ دوڑ کرنے والا ایک محنتی انسان ہے۔
بقول قاری! یہ گاؤں کے دو چار لوگ جو ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہمیں ”انجمن“ کہہ کر چھیڑتے ہیں دراصل یہ ہم سے جلتے ہیں۔ ”جلنے والے“ بھی تو حد ہی کرتے تھے۔ ہم دو چار دن گاؤں میں کوئی ہل چل نہیں کرتے تھے تو وہ ہمارا مذاق اڑاتے کہ انجمن آج کل کہیں نظر نہیں آ رہی، کہیں سلطان راہی کے ساتھ بھاگ تو نہیں گئی۔ چاچے فیقو کا کام تو بس ہمیں تنگ کرنا ہی تھا۔ وہ قاری کی برادری سے تھا اور قاری کا چچا لگتا تھا، مگر قاری کے انتہائی خلاف تھا۔ چاچا فیقو اکثر ہمیں کہتا کہ دیکھ لینا ایک دن سلطان راہی انجمن کو بھگا لے گا اور قاری کو کہتا کہ وہ سلطان راہی تم ہو۔ چاچے فیقو کی ذومعنی باتیں ہمیں سمجھ نہ آتیں اور ہم سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ آخر وہ ہم سے جلتا تھا۔
کسی زمانے میں ابا جی نے میری لکھائی بہتر کرانے کی خاطر دو چار دن ایک ماہر خطاط کی شاگردی میں دے دیا تھا لہٰذا قلم کے قط اور الفاظ کی بناوٹ کی سمجھ آ گئی۔ ”گر تومی خواہی کہ باشی و خوشنویس، مینویس و مینویس و مینویس“ مطلب ”اگر چاہتے ہو کہ تم خوش خط لکھو، تو لکھتے رہو اور لکھتے رہو اور لکھتے رہو“۔ اس فارمولے پر لاکھ چلے مگر لکھائی پھر بھی کوئی خاص بہتر نہ ہوئی۔ بہرحال استاد محترم کی مہربانی سے معمولی نوعیت کا قلم چلانا آتا تھا تو گاؤں میں ادھر ادھر ”منہ کالا“ کرنے کی بجائے انجمن کی تشہیری مہم میں گاؤں کی دیواریں کالی کرتا۔
ایک دن میں اور مانی ایک اونچی جگہ پر انجمن کا نام لکھنے چڑھے ہوئے تھے اور قاری نیچے کھڑا ہو کر ہمیں ہدایات دے رہا تھا۔ اتنے میں ادھر سے چاچا فیقو گزرا، بڑے طنزیہ انداز میں کہنا لگا کہ خیریت تو ہے آج انجمن اوپر اور سلطان راہی نیچے۔ گاؤں کے قبرستان میں کافی بڑی بڑی گھاس اور قدآور کانٹے دار پودے اُگ آئے تھے۔ انجمن نے فیصلہ کیا کہ قبرستان کی صفائی کی جائے۔ ہم سب قبرستان کی صفائی میں مصروف تھے کہ چاچے فیقو کا گزر ہوا۔ کہنے لگا ارے واہ! آج تو انجمن مُردوں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ گاؤں میں کوئی بیمار ہوتا تو ہم سب اس کی تیمارداری کے لئے جاتے۔ ایک دن تیماداری کے لئے ہسپتال گئے ہوئے تھے تو چاچے فیقو نے گاؤں میں مشہور کر دیا کہ شیدو موچی بیمار تھا تو انجمن اسے ”خوش“ کرنے گئی ہے۔ چاچے کے طعنوں اور ذومعنی باتوں سے ہم بہت تنگ تھے۔ دعا کرتے کہ یا رب اسے ہدایت دے یا پھر اٹھا لے۔
گاؤں کے کئی ”باحیاء بڈھے“ بھی گرمی سے تنگ آ کر راہ چلتے چلتے کئی دفعہ دریائے چناب کے ٹھنڈے یخ پانی میں ڈوبکی لگا کر دل پشوری کر لیتے تھے۔ اول تو بڈھے ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی نہیں ہوتا تھا اور دوسرا نوجوانوں کے برعکس بڈھے سارے کپڑے اتار کر، ایک ہاتھ آگے، ایک پیچھے رکھا اور جلدی جلدی دریا میں گھس گئے۔ 🙂 بقول تب کے بڈھوں کے، اب اتنی بھی شرم کاہے کی، کوئی خاتون تھوڑی ادھر ہوتی ہے۔ ایک دن ہماری سنی گئی اور چاچا فیقو ہماری ”داڑھ“ کے نیچے آ ہی گیا۔ ہوا یوں کہ گرمیوں میں ہم کچھ دوست دریا میں نہانے گئے، ہمارے ساتھ نیدوجٹ بھی تھا جوکہ ہمارا پکا دوست تو نہیں تھا، بس ویسے ہی ہمارے ساتھ چل دیا۔ چاچے فیقو کی قسمت خراب کہ وہ بھی روائتی بڈھوں کی طرح دریا میں ”تاری“ لگا رہا تھا۔ چاچا گالیاں ہی دیتا رہ گیا اور نیدو جٹ کپڑے لے کر فرار۔ گو کہ اس حرکت پر نیدوجٹ کو کافی لتر پڑے اور ہمیں لعن طعن مگر اس واقعے سے چاچے فیقو کو سمجھ آ گئی کہ ”مڈیکے“ سے پنگا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آخر بیچارے کو مسلسل دو تین گھنٹے ٹھنڈے یخ پانی میں گزارنے پڑے تھے اور گرمیوں میں نمونیا کی شکایت ہو گئی۔
اگلا حصہ:- انجمن قاری کے ساتھ بھاگ گئی
ہاہاہا تگنی کا ناچ تو سنا تھا لیکن لگتا ہے آپ اگلی پوسٹ میں انجمن کے سامنے بابے فیقے کا ننگا ناچ بھی شروع کروانے والے ہیں
واقعی ”مڈیکے“ سے پنگا مہنگا پڑ سکتا ہے 😆 😆
ھاھاھا……بھائ چاچا فیقو کا کردار بہت زور کا ہے
بہت خوب اور مزے کا لکھا ہے ۔۔ پسند آیا
😆 منڈیک پارٹی سے ٹاکرا ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔
خوب لکھا ہے پیارے بھیا
ویسے بلال بھائی مجھے چاچا فیقے کی انجمن کے بھاگنے والی بات کچھ کھٹک رہی ہے۔ حتمی رائے کےلئے اگلی پوسٹ کا انتظاررہے گا۔
گرمیوں کا نمونیا آسانی سے جان نہیں چھوڑتا۔
ایسے بابے بہت جان عذاب کر کے رکھتے تھے۔ ہمارے گاوں میں تھا ایک بابا بانگا ۔ مسجد میں موذن تھا بس اسی سے نام پڑ گیا تھا ۔ بڑی ظالم چیز تھا ۔
مزے کی باتاںہیں
ہر گاں میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں
لیکن جن لوگونکو بات کرنے فن نہیں اتا وہ کہتے ہیں
تہاڈا پنڈ بڑا دلچسپ اے ، ساڈے پنڈ تے ایہو جہیانگلاں نئین ہوندیاں ۔
بچپن کی یادیں ہمیشہ پیاری ہی ہوتی ہیں۔
کچھ کا یاد کرنے انداز پیارا ہوتا۔ لکھیں تو آپ کے لکھے کی طرح ہماری یادیں بھی پیاری کر جاتا ہے۔
چاچے فیقو نے تو انجمن اور سلطان راہی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔
بقیہ حصے کا انتظار رہے گا۔۔۔زبردست
بہت اعلٰی، یاد بلال بھائی کیا جادو ہے لکھنے میں، ایک بار شروع کیا جو پڑھنا تو مشکل ہوگیا رکنا………..
آفس کا کام چھوڑ کر پڑھا، بڑا مزہ آیا.
زبردست ، اعلٰی….
چاے فیقو اور انجمن کے الفاظ کا استعمال مہارت سے کیا ہے اور کہانی میں جان ڈال دی ہے۔
ایسے واقعات دیہات میں عام ہوتے ہیں اور ہر گاؤں میں ایک کردسار چاچا فیقو جیسا بھی ہوتا ہے لیکن بات ہے کہ کون کس طرح واقعہ بیان کرتا ہے
لگتا ہے اگلی قسط میں منڈیکے پارٹی سے ٹاکرا لینے والے اردو بلاگروں کی خبر لیں گے ، اگلی قسط کا شدت سے انتظار ہے ۔ اردو بلاگرکانفرنس کے حوالے اپنی رائے کا اظہار اپنے بلاگ میں ہم نے کردیا ہے ۔ م بلال م صاحب کا ہم نے شکریہ بھی اداکیا ہے اپنی تازہ پوسٹ میں۔ http://sahel-barshori.blogspot.com
😆
ہم تو ٹھیرے شہری بابو ،پینڈو ہوتے تو جانتے ایسے کرداروں کو۔
ویسے تحریر بہت زبردست ہے اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔
آداب!
تحریر پڑھتے ہوئے تو میں نے خود کو وہیں موجود پایا، انجمن کے ہمراہ! مگر کبھی ایسا واقعہ میری زندگی میں پیش نہیں آیا۔ الطاف بھائی کی طرح میں بھی شہر کی پیداوار ہوں مگر کچھ سدھ بدھ دیہاتی ذندگی کی بھی ہے۔ ایک بات اور، مجھے نہر میں نہانے کے مزے کے بارے کچھ نہیں پتہ 😥 لیکن “سوئمنگ پول” میں اٹھکھیلیاں بہت کی ہیں 🙄 ۔
اب تو لگتا ہے، بلال بھائی کی نگری میں باقاعدگی سے حاضری دینی پڑے گی۔