انجمن مذہبی و فلاحی کاموں کے لئے بنائی تھی۔ خاص مذہبی کاموں میں ہم مختلف موقعوں پر واعظ و نصیحت کے لئے محفل یا درس کا انتظام کرتے اور ایک سالانہ بڑی محفل کا انعقاد بھی کرتے تھے۔ دو تین سالوں میں چھوٹی سی محفل اتنی بڑی ہو گئی کہ پاکستان کے نامور قراء، نعت خواں اور مقررین ہمارے مہمان ہوتے۔ اب ان کی اکثریت واقعی مہمان ہوتی تھی یا ”سودے بازی“ کے بعد آتی یہ علیحدہ بحث ہے۔ واہ رے! ہم نے بھی کیا کیا تماشے کیے اور دیکھے۔ خیر ہماری محفل میں بڑے بڑے ناموں کی آمد اور ہمارے انتظامات دیکھ کر آس پاس کے دیہات والے بہت متاثر ہوتے۔ ہمارا دائرہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہو کر پندرہ بیس دیہاتوں تک پھیل چکا تھا۔ ہمارے قریبی شہر کے علماء حضرات بھی ہماری کاوشوں سے بہت متاثر تھے۔ کہیں بھی کوئی مذہبی محفل ہوتی تو سب سے پہلے ہمیں دعوت نامہ بھیجا جاتا۔
فلاحی کاموں کے لئے اپنے ہاتھ سے کام اور جان مار کر ہم بچوں نے معمولی رقم سے بہت کارنامے کیے۔ سب سے پہلے تو وہی روایتی کام جو ہر تنظیم بنتے ہی کرتی ہے یعنی مقدس اوراق کے لئے ڈبے لگائے تاکہ مقدس کاغذات کی بے حرمتی نہ ہو۔ مزید ہر گلی اور چوراہے میں بتیاں لگائیں۔ وہ قبرستان جہاں دن کے وقت لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے اس کو ایسا بنا دیا کہ کئی بابے مرنے کو تیار ہو گئے۔ 🙂 گھروں کی اونچی نالیوں سے گرتا گندہ پانی جس کے چھینٹوں سے کپڑے خراب ہو جاتے تھے اور خاص طور پر نمازیوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس گندے پانی کے پائیپ اپنے خرچے پر لگوائے۔ واٹر سپلائی کے پائیپ جو جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے، گندہ پانی ان میں داخل ہوتا تھا اور کئی جگہ تو ایسی تھیں جہاں سے کھدائی کرنے کے لئے کوئی مزدور آسانی سے راضی نہیں ہوتا تھا کیونکہ دو تین دن مسلسل کیچڑ میں کھڑے ہو کر کھدائی کرنی پڑتی۔ ایسی جگہوں پر ہم بچوں نے کھدائی کی اور واٹر سپلائی ٹھیک کروائی۔ انجمن کے پاس فنڈز کی بہت کمی تھی۔ مخیر حضرات اسی انجمن کو سالانہ محفل نعت کے لئے پیسے تو بہت دیتے تھے مگر فلاحی کاموں کے لئے کوئی ایک پائی دینے کو راضی نہ ہوتا۔
ہمارے بڑے پروجیکٹ تو ابھی باقی تھے۔ جیسے بس و تانگہ اسٹینڈ پر انتظار کرنے والوں کے لئے سائے اور پانی کا انتظام، ایمبولینس، لائیبری، ماڈل سکول اور ہر وہ کام جس سے ہم لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور اپنے گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بنا دیں۔ خیر فنڈز کے لئے ہم نے بہت دروازے کھٹکھٹائے۔ چودھریوں کے اس گاؤں میں نام کے چودھری سارے تھے مگر کام کا ایک دو بھی بڑی مشکل سے ملا اور ان کے بھی مالی حالات ایسے نہ تھے کہ وہ ہمارے ایک دو پروجیکٹ ہی مکمل کروا سکتے۔ وہ جو لاکھوں کروڑوں کی زمین کے خریدار بن کر ہاتھوں میں پیسے پکڑ کر بیٹھے تھے، جب ”انہیں کی فلاح“ کے لئے فنڈ کی درخواست کی جاتی تو اپنی غربت کا رونا روتے۔ آخر کار ہم نے فیصلہ کیا کہ کوئی کاروبار یا کچھ بھی ایسا شروع کیا جائے جس سے مستقل آمدن ہو، تاکہ فلاحی کام ہو سکیں۔ عجب دن تھے، کیا پِدی، کیا پدی کا شوربہ۔ آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ چلو کافی سارے درخت لگا دیتے ہیں، جب یہ بڑے ہوں گے تو انہیں بیچ کر کچھ نہ کچھ کریں گے۔ کئی درخت لگا دیئے۔ ایک طرف نیدوجٹ نے چاچے فیقو کی باتوں سے ہماری جان چھڑائی تھی تو دوسری طرف کمبخت کو پتہ نہیں درختوں سے کیا تکلیف تھی۔ ہم جو بھی پودا لگاتے دوسرے دن وہ اسے اکھیڑ دیتا۔ مزے کی بات تو یہ کہ پودا اکھیڑ کر اور توڑ مروڑ کر ادھر ہی رکھ دیتا، جہاں ہم نے لگایا ہوتا۔ بھلا تو لے جا اور کہیں لگا دے تو پھر بھی کسی کا بھلا ہو۔
خیر ہم جو کر سکتے تھے وہ کرتے رہے۔ قاری کی بدولت انجمن کی ترجیحات تبدیل ہونے لگیں۔ فلاحی کاموں سے توجہ کم ہونے لگی اور زیادہ سالانہ محفل کی طرف ہو گئی۔ اوپر سے واعظ و نصیحت کی محفل آہستہ آہستہ محفل نعت میں تبدیل ہو گئی۔ میں اور مانی چیختے، چلاتے، بحث کرتے کہ ٹھیک ہے سالانہ محفل بھی ہو مگر اس میں پہلے کی طرح علمائے اکرام بھی تو بلائے جائیں جو نوجوانون کی تربیت کریں اور محفل کے ساتھ ساتھ فلاحی کام بھی ضروری ہیں۔ قاری کی ترجیح ہمیشہ ہی نمود و نمائش رہی تھی۔ شعوری یا لاشعوری طور پر اسے محفل میں ہی زیادہ نمودونمائش نظر آ رہی تھی۔ ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود سارے فلاحی کام نظرانداز ہو گئے اور انجمن بس محفل منعقد کروانے تک ہی محدود ہو گئی۔ ہماری آواز دبانے کے لئے قاری دن بدن انجمن میں اپنے نئے ہمنوا شامل کرتا رہا۔ میرے اور مانی کے ہی بنائے ہوئے اور تحریری صورت میں لکھے ہوئے انجمن کے قوانین جمہوریت کے مطابق تھے لہٰذا ہمیں لاکھ بحث کے بعد جمہوریت کا ہر فیصلہ ماننا پڑتا۔ جس کام کے لئے ہم چلے تھے جب وہ ہی پس پشت ڈال دیا گیا تو ہم نے اپنی آخری کوشش بھی کر دیکھی۔ مگر وہ قاری ہی کیا جو ہار مان جاتا۔ آخر ہم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے بلکہ قاری ہی اپنے ہمنواؤں کے ساتھ مل کر ہمیں دیوار سے لگاتا گیا۔ پھر وہ دن آ گیا جب ہمارے لئے واقعی انجمن قاری (چاچے فیقو کے سلطان راہی) کے ساتھ بھاگ گئی۔
آج بھی قاری سے سلام دعا تو اچھی ہے مگر پہلے جیسی یاری نہیں رہی۔ ویسے قاری ”سٹار“ بن چکا ہے۔ ایک بڑے نعت خواں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ دو تین سی ڈیز ریلیز ہو چکی ہیں۔ ٹی وی پر بھی نعتیں پڑھتا ہے اور بڑی بڑی محافل میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ قاری اب انجمن کا تاحیات صدر ہے۔ انجمن میں نہ کبھی الیکشن ہوتا ہے اور نہ ہی ”آڈٹ“ ہوتا ہے۔ قاری ”آل ان آل“ ہے۔ انجمن آج بھی سالانہ محفل بڑے جوش و خروش سے کرواتی ہے۔ محفل والے دن ہم دونوں (میں اور مانی) میں سے جو جو گاؤں میں ہوتا وہ محفل میں ضرور شرکت کرتا ہے۔ محفل میں بیٹھے سینکڑوں سامعین کی طرح ہم بھی ایک کونے میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے چند لوگوں کے علاوہ حاضرین محفل میں کوئی نہیں جانتا کہ بانیان محفل کون تھے اور گاؤں کے لوگوں کی تربیت کی خاطر اس محفل کا آغاز واعظ و نصیحت کے لئے ہوا تھا جو کہ اب صرف محفل نعت تک محدود ہو گئی ہے۔ حاضرین محفل میں سے دو تین کو بذریعہ قرعہ اندازی عمرے کا ٹکٹ تو دیا جاتا ہے مگر جس گاؤں میں یہ محفل ہو رہی ہے اس میں فلاح و بہبود نام کی کوئی چیز نہیں۔ جس محفل کے ذریعے گاؤں کے نوجوانوں کی تربیت کرنی تھی۔ اس گاؤں میں آج بھی شاندار محفل تو ہوتی ہے مگر بچہ اِدھر دودھ چھوڑتا ہے تو اُدھر شراب پینا شروع کر دیتا ہے۔ اس گاؤں میں آج بھی صرف تین ماسٹر ڈگری والے ہیں۔ ایک وہ حضرت جو آج سے تیس پینتیس سال پہلے ماسٹر کر کے امریکہ جا بیٹھے تھے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ دوسرے میرے والد صاحب اور تیسرا میرا یار مانی۔
مانی سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی رہتی ہے مگر جب بھی ملتا ہے تو مجھے بہت ڈانٹتا ہے۔ میرے ساتھ لڑتا ہے۔ کہتا ہے کہ تم کسی کام کے نہیں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے گاؤں کے لئے کرو۔ میرا جواب ہر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ غم روزگار کے بعد جو تھوڑا وقت ملتا ہے، اس میں کوشش تو یہی کرتا ہوں کہ کچھ کرو، اب تو ہی بتا، میں مزید کیا کروں؟ اگر تیرا خیال ہے کہ کوئی نئی تنظیم بنائی جائے تو دیکھتے ہیں۔ اس دیکھنے دیکھنے میں وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
وقت اور حالات کے ساتھ لوگ بھی بدل جاتے ہیں مگر چاچا فیقو ذرا بھی نہیں بدلا اور آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔ بالکل پہلے کی طرح
اگلا حصہ:- چاچے فیقو کی کہانیاں
کچھ کرنے والے شریف ہوں اور مذہب سے دلچسپی بلکہ “کتابی ” مذہب کے رومان کا شکار بھی ہوں تو
ایسا ہی ہوتا ہے۔۔ مجھے یقین ہے آپ لوگ انجمن کے عاشقین کی نظر میں اب بے دین ہوچکے ہوں گے
انجمن کا قاری کے ساتھ بھاگ جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس پہلے بھی اس نوع کی انجمنوں کو قاری بھگا کر لے جاچکے ہیں۔ہماری قوم(مسلمان) بھی گفتار کا حلوہ اس شوق سے چٹ کرتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ان قاری صاحب کو پھر بھی محفل نعت کا چسکا پڑا ہے اگر مسلمانوں کے دائرہ اسلام سے خارج کرانے اور خواتین کو موضوع محفل بنانے کا شوق پڑجائے تو آپ کیا سکتے تھے۔
ہمم، کافی سنجیدہ مسئلہ ہے اور مسئلہ بھی ایسا ہے جس کو کوئی لکھاری چھیڑتا نہیں۔ ہمارے شہر میں بھی ایک بہت بڑی محفل نعت ہوتی ہے، کافی بڑے بڑے نام آتے ہیں پورے ملک سے، ان جیسے ایک بندے کو منگانے پر ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ تک لگ جاتے ہیں، ان کی ڈیمانڈز بھی ہوتی ہیں، محفل میں لوگ ہم پر نوٹ بھی برسائیں گے، جہاز کا ٹکٹ اور دوسرا کرایہ بھی لیں گے اور معاوضہ الگ، پہلے پہل کاروباری افراد نے عمرے کا ایک ٹکٹ ایک محفل نعت کے لیے مختص کرنا شروع کیا، اب کوئی دس یا اس سے اوپر افراد کے لیے عمرہ ٹکٹ دیا جاتا ہے، کوئی کاروباری فرد پانچ ٹکٹ دیتا ہے، کوئی تین، اور محفل نعت کی ایک سربراہی کمیٹی بھی بن گئی ہے، جس میں کوئی دس بارہ لوگ ہیں، ہر سال کمیٹی کے دو یا تین افراد بھی انہی فنڈز پر عمرہ کرنے جاتے ہیں، اس کمیٹی کا سربراہ شہر کا سب سے بڑا عمرہ ٹریول ایجنٹ ہے، جس نے ماشاء اللہ داڑھی بھی رکھ لی ہے اور محفل نعت کے ہر پوسٹر اور اشتہار میں اسکی تصویر اور اسکی کمپنی کا نام بھی شامل ہوتا ہے، ربیع الاول میں شہر کی سب سے بڑی مسجد کو اس طرح سجایا جاتا ہے جیسے روضہ رسول کا منظر ہوتا ہے، مصنوعی سونے کی جالیاں اور سبز گنبد بھی بنایا جاتا ہے، جو محفل نعت کی اگلی صبح اکھاڑ کر کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے، نمود و نمائش پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جب کہ عمل کی تکلیف کوئی نہیں کرنا چاہتا، غریب بھوکے کو کھانا کھلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
یہ جو آپ نے قاری کو انجمن کے ساتھ بھگایا ہے ناں یہ کچھ ٹھیک نہیں!!!
باقی وہ انجمن آپ کے مطلب کی نہیں تو نئی بنا لیں!!!
کئی انجمنیں کئی قاریوں کے ساتھ بھاگ نکلیں ، لیکن کہنے کا حوصلہ کسی کسی کو ہوتا ہے۔ میرے آبائی علاقے کی انجمن بھی بس محفل نعت ، وہابی کو مرزئی کہنے اور ربیع الاول کو گلیوں کے کناروں پر چونا بکھیرنے تک محدود ہے۔ سوچ جمود کا شکار ہو اور ذاتی مفاد ہی عزیز ہو تو انجمن کے قاری کے ساتھ بھاگنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دوسری انجمن بے شک بنا لیں لیکن اسے ایک اور قاری سے بچانے کے لئے بہت محنت اور مخالفت سہنا پڑے گی۔
پوسٹ پڑھتے ہوئے پتہ نہیں کیوں ذہن میں طاہرالقادری کی شکل بار بار ابحرتی رہی حالانکہ اس بندے کا تعلق اس پوسٹ سے نہیں ہے
مجھے بھی اینج ای لگ رہا ہے، اس قاری کو میں قادری قادری پڑھ رہا تھا 😐
واہ کیا بات کی ہے جا نو
بہت عمدہ بلال بھائی! آپ نے کچھ تو کر لیا۔۔۔۔۔ ورنہ اکثریت تو ایسے اقدامات دل ہی دل میں اٹھاتی رہ جاتی ہے۔ اللہ آپ کو مزید ہمت عطا فرمائے آمین!
ہرطرف یہی رونا ہے
مطلب چاچا فییقا ابھی زندہ ہے۔۔۔۔۔پھر تو لازمی ایک اور انجمن بننی چاہیے۔۔۔۔؟؟؟؟
بد دل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ نے معاشرے میں رہ کر نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور رزقِ حلال کمانا بھی عبادت ہے ۔ آپ نے اُردو بلاگنگ کیلئے جو کام کیا ہے وہ بھی کارِ ثواب ہے ۔ دل میں بے لوث خدمت کا حوصلہ قائم رکھیئے اور چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرتے رہیئے ۔ قطرے مل کر ہی دریا اور پھر سمندر بنتے ہیں ۔ اور کچھ نہ ہو سکے دو ناراض رشتہ داروں یا دوستوں میں صلح کرا دیجئے ۔ کوئی فجر کی نماز پڑھنا چاہتا ہو مگر نیند نہ کھُلتی ہو تو اسے چند روز جگا دیا کیجئے ۔ یہ کچھ بھی نہ ہو سکے تو جسے مسکراہٹ کی ضرورت ہو اسے مسکراہٹ دیجئے
درست فرمایا!
پاکستان میں ہر جگہ یہ ہی مصائل ہیں آپ نے اس بلاگ میں بڑے اچھے انداز میں اس کا اظہار کیا ہے: شکریہ
ایسی انجمن تو میں/ ہم دوستوں نے کبھی نہیں بنائی، بھلا شہر کے لوگوں کو ان کاموں سے کیا مطلب؟ 😯 لیکن آپ نے ہمارے معاشرے کی اس تلخ حقیقت کا اظہار کیا ہے جو دن بدن پھیلتی جا رہی ہے “نمودونمائش”۔ اور “قاری” جیسے بیشمار لوگ ہمارے آس پاس ہیں جو کسی نہ کسی “انجمن” کو بھگانے کو تاک میں لگے ریتے ہیں۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
انجمن بھاگ گئی تو بھاگ گئی۔ درست سمت میں کوششیں جاری رہنی چاہیئیں۔ کیونکہ قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے