استور سے پہلے تنگ کھائیاں ختم ہو چکی تھیں کیونکہ اب ہم تھوڑی بلندی پر تھے اور ایک سرسبز وادی ہمارا استقبال کر رہی تھی۔ ویسے تو ”استور“ پوری وادی کا نام ہے مگر ایک استور شہر بھی ہے، جو کہ 2004ء میں ضلع بن گیا تھا۔ استور شہر سطح سمندر سے تقریباً 2400 میٹر بلند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں چین اور افغانستان سے آنے والے تاجر جو کہ آگے کشمیر جاتے تھے، استور ان کے لئے ایک اہم سرائے کی حیثیت رکھتا تھا۔
ہم شام کے چھ بجے استور پہنچ گئے۔ استور کے مین بازار میں ہی گاڑی کھڑی کی اور سلیم دیگر علاقہ جات کی معلومات اکٹھی کرنے لگ پڑا۔ مجھے اب غصہ آ رہا تھا کیونکہ میرے خیال میں دیگر علاقوں کی بجائے اگر ہوٹل کی معلومات لے تو کم از کم پیٹ میں دوڑنے والے چوہوں کو تو کچھ سکون ملے۔ ہم سب گاڑی سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ گاڑی کے شیشوں پر کافی دھول پڑی ہوئی تھی، ایک ملنگ شیشوں پر لائنیں لگانے لگا۔ جیسے ہی ایک لائن لگاتا تو ساتھ کہتا ”یہ ہو گیا“۔ یہ ہو گیا، یہ ہو گیا اور یہ ہو گیا کے ساتھ ساتھ لائنیں لگا رہا تھا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی منتر پڑھتے ہوئے گاڑی پر جادو کر رہا ہے۔ کچھ مقامی لوگ اسے دیکھ دیکھ کر ہنستے مگر ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی مست ملنگ آخر کر کیا رہا ہے۔ تھوڑی دیر ”یہ ہو گیا“ پر غور کیا تو پتہ چلا کہ اس ملنگ نے لائنوں کی مدد سے ہیلی کاپٹر بنا دیا ہے۔ اتنی تفصیل سے ہیلی کاپٹر بنایا کہ میں حیران رہ گیا کہ اس نے ہیلی کاپٹر کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بنا دیں۔ ملنگ ابھی ادھر ہی تھا تو عبدالرؤف اسے گاڑی کے پیچھے والے شیشے کی طرف لے گیا اور اسے کہتا ہے کہ دیکھو کتنی زبردست و بہترین دھول پڑی ہے۔ یہاں تو بڑا نکھرتا ہوا ہیلی کاپٹر بنے گا۔ عبدالرؤف کا اتنا کہنا تھا کہ ملنگ شروع ہو گیا، یہ ہو گیا، یہ ہو گیا۔
”یہ ہو گیا“ کا جادوائی عمل دیکھنے کے بعد میری نظر ایک بینر پر پڑی۔ یہ ”ایس کام“ کی اشتہاری مہم کا حصہ تھا۔ اسی بینر سے مجھے پتہ چلا کہ استور میں ایس کام فون کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ ہمارے موبائل نیٹ ورک بھی استور میں چل رہے تھے۔ اس وقت یہ نیٹ ورک کم اور میرے ارمانوں کے قاتل زیادہ تھے۔
سلیم ادھر ادھر کی کافی معلومات لے چکا تھا، ہمارا پروگرام تھا کہ کچھ کھانے کے بعد ابھی ”راما“ چلے جائیں کیونکہ راما تک ہماری اپنی گاڑی جائے گی اور پھر وہاں جا کر کیمپنگ کی جائے۔ خیر انتظامیہ (سلیم) کی منت کی کہ باقی سب بعد میں پہلے کسی ہوٹل کا پتہ کرو تاکہ کچھ پیٹ پوجا کی جائے۔ ہمیں کسی نے بتایا کہ فلاں طرف جاؤ ادھر ہوٹل ہے۔ ہم سب گاڑی سمیت ادھر چلے گئے۔ کچھ گاڑی سے اتر کر ہوٹل کی معلومات لینے چلے گئے، میں گاڑی میں ہی بیٹھا تھا کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی۔ پہلے تو مجھے لگا کہ بس ویسے ہی بورڈ پڑا ہوا ہے مگر غور کرنے پر پتہ چلا کہ ہم واقعی استور کے ”سیکریٹیریٹ“ میں کھڑے ہیں۔ یہاں کا سیکریٹیریٹ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ ہمارے ادھر پنجاب میں تو ایسے کمرے میں جج کا ریڈر تک نہیں بیٹھتا اور یہ پوری کی پوری عدالتیں ایک دو کمرے اور چھوٹے سے احاطے پر محیط ہیں۔ خیر اس وقت عدالتوں اور سیاست پر سوچنے سے زیادہ ضروری کام کھانا تھا کیونکہ ہمیں شدید بھوک لگ رہی تھی۔ اتنے میں سلیم بھی آ گیا اور بتانے لگا کہ یار ادھر تو ایک چھوٹا سا ہوٹل ہی ہے۔ مجبوری ہے، اسی پر گذارہ کرنا پڑے گا۔ اجی ہمارا کیا ہے، جب سفر پر نکلے ہیں تو پھر چھوٹا ہوٹل ہو یا دال سبزی، سب چلتا ہے، بلکہ دوڑتا ہے، مگر ہمارے ساتھ کچھ ایسے یار لوگ تھے جن کا ٹور فطرت کی قربت سے زیادہ اچھا کھانا اور ”شام و شام“ سونا ہوتا ہے۔ خیر یہاں تو مجبوری تھی تو گویا ان کا آج کا ”ڈنر“ تو مجبوری کی نظر ہو گیا اور ہم دونوں ڈرائیوروں کو گاڑی میں چھوڑ کر کیونکہ گاڑی کے ایک شیشے کا تالا خراب ہو گیا تھا اور کوئی بھی آسانی سے گاڑی میں گھس سکتا تھا اس لئے ان دونوں کو گاڑی کے پاس چھوڑ کر ایک ایسے ہوٹل پہنچے جہاں پر رسوئی اور باقی سب کچھ ایک ہی بڑے سے کمرے پر مشتمل تھا۔
صاحب بیٹھو! بتائیں کیا کھائیں گے؟
کھانے میں کیا کیا ہے؟
”سب کچھ ہے“، دال ہے، چنے ہیں، دال چنے ہیں اور چنے دال ہیں۔ 🙂
یہ بتاؤ تیار کیا ہے۔
سب کچھ تیار ہے۔
اچھا ایسا کرو کہ تین پلیٹ چنے اور تین پلیٹ دال لے آؤ اور باہر گاڑی میں ہمارے دو دوست ہیں، انہیں ادھر ہی کھانا پہنچا دو۔
آڈر میں میں نے لقمہ دیا کہ ایسا کرو اگر پیاز ہیں تو تھوڑے سے پیاز پہلے ہی کاٹ کر لے آؤ۔ یہ پیاز کسی سلاد شلاد کے زمرہ میں نہیں منگوائے تھے بلکہ یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ اللہ کے فضل سے مجھے آج تک بلندی کے اثرات نہیں ہوئے یعنی بلندی پر چڑھتے ہوئے اکثر لوگوں کے تھوڑے تھوڑے کان بند ہوتے ہیں یا پھر بلندی پر پہنچ کر آکسیجن اور ہوا کے دباؤ کی کمی کی وجہ سے سر بھاری بھاری سا ہو جاتا ہے اور کئی لوگوں کو شدید دردِ سر بھی ہوتا ہے، مگر میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں، پھر بھی پیاز اس لئے منگوائے تھے کہ تھوڑے سے کھا لوں تاکہ اگر اس دفعہ کوئی اثرات ہونے ہیں تو اس سے تھوڑا بہت بچا جا سکے۔ گو کہ آج سے پہلے بلندی کے اثرات نہیں ہوئے مگر احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ پیاز بلندی کے اثرات کم کرنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ اگر آپ نے تھوڑا پیاز کھا رکھا ہے تو اس سے بلندی کے اثرات کم ہونگے اور اگر اثرات ہو چکے ہیں تو پھر بھی پیاز کافی مفید ثابت ہوتا ہے۔
کھانے کا انتظار کرتے کرتے تقریباً ایک گھنٹہ گزر چکا تھا، سورج اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، اہل استور سے ”کل پھر ملیں گے“ کا کہہ کر اپنی کرنیں کسی اور دیس برسانے جا رہا تھا۔ ہوٹل کی ایک چھوٹی سی کھڑکی سے ایک کھائی نظر آرہی تھی جو پیغام دے رہی تھی کہ میں جلد ہی ”تاریک نگر“ بن جاؤ گی۔ اسی وقت عبدالرؤف رسوئی کی طرف گیا اور واپس آ کر انکشاف کیا کہ کچھ بھی تیار نہیں تھا اور ہوٹل والا ابھی تیار کر رہا ہے۔ خیر صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہیں پر ہمارے ایک دوست طاہر بٹ کا ایک مرتبہ پھر فون آیا۔ وہ کیا ہے کہ جناب ہماری طرح کے ”ملنگ“ نہیں، اتنے لمبے سفر اور خاص طور پر اتنے دن گھر، بچوں یا ”کسی اور“ سے دوری برداشت نہیں کر سکتے یا پھر شاید ”کسی اور“ سے اجازت نہیں ملتی، بہرحال ان میں سے کسی بھی وجہ یا وجوہات کی بنا پر وہ ہمارے ساتھ نہیں تھے مگر لمحہ بہ لمحہ ہماری خبر گیری کرتے۔ ان کی اتنی زیادہ خبر گیری پر ایک دفعہ تو میں کہنے لگا کہ اوہ بٹ! یار بن یار، ”بے بے“(ماں) نہ بن۔
اللہ اللہ کر کے کھانا آیا۔ دال کسی کام کی نہیں تھی لیکن چنے کافی مزیدار معلوم ہوتے تھے۔ پتہ نہیں واقعی مزے کے تھے یا پھر ہماری بھوک انہیں مزے کا بنا رہی تھی۔ بہرحال ہم نے کھانا کھایا اور ہوٹل سے نکل کر گاڑی کی طرف جانے لگے تو سلیم کے ہاتھ میں ایک لفافہ دیکھا۔ پوچھنے پر سرکار فرمانے لگے کہ یہ روٹیاں ہیں کل کے لئے۔۔۔
اوہ تیری خیر ہو۔ یہ کیا کہہ رہا ہے؟
ہاں تو ٹھیک ہے نا۔ راما میں کوئی ہوٹل نہیں۔ کل سالن خود بنائیں گے اور یہ روٹیاں۔۔۔
یار کل تک تو یہ ”پاپڑ“ بن جائیں گی۔
فکر نہ کرو، اس طرح پیکنگ کی ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔
جو بھی ہو ہم سے کل باسی روٹیاں نہیں کھائی جائیں گی۔
کوئی بات نہیں، نہ کھانا، میں کونسا زبردستی کر رہا ہوں۔ کل جب بھوک لگے گی، یہ روٹیاں تو کیا اگر دس دن پہلے کی بھی ہوں تو وہ بھی کھا جاؤ گے۔
ہم باتیں کرتے کرتے گاڑی تک پہنچے۔ سب گاڑی میں بیٹھ گئے تو کسی نے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کھانا مل گیا تھا۔ ڈرائیور نے رونے جیسی صورت بنا کر بتایا کہ کوئی نہیں آیا۔ ہمیں ہوٹل والے پر غصہ آیا اور خود پر شرمندگی۔ خیر سلیم اور عبدالرؤف ڈرائیوروں کو ساتھ لے کر کھانا کھلوانے چلے گئے اور ہم گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔ گو کہ ڈرائیوروں سے معاہدہ تھا کہ انہوں نے خود اپنے کھانے کا بندوبست کرنا ہے، مگر بھائی جان اخلاق (اخلاقیات) تھے کہ ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ ہم علیحدہ کھائیں اور ڈرائیور علیحدہ۔ ڈرائیور کھانا کھانے جا چکے تھے۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ ہم جتنی جلدی کر رہے تھے کہ روشنی ہوتے ہوئے راما پہنچ جائیں، اتنی ہی دیر ہو رہی تھی۔
ڈرائیور آئے تو اللہ کا نام لے کر رات کی تاریکی میں راما کی طرف سفر شروع ہوا۔ استور سے راما تقریباً آٹھ سے دس کلومیٹر دور ہے مگر رات کی تاریکی، کہیں کہیں سے ٹوٹی سڑک اور ٹھیک طرح سے رستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے یہ سفر تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا۔ آبادی میں موجود بھول بھلیوں کی وجہ سے جی پی ایس پر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کونسا رستہ ٹھیک اور شارٹ کٹ ہو گا۔ اس لئے جو بھی مقامی ملتا اس سے پوچھ لیتے کہ راما کی طرف کونسا رستہ جاتا ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا کہ بس اس سڑک کو نہ چھوڑنا تو سیدھے راما پہنچ جاؤ گے۔ مگر اب کیا کریں؟ سڑک ٹی کی شکل میں ہے، ایک دائیں جا رہی ہے تو ایک بائیں اور سامنے تو پہاڑ ہے۔ اب فیصلہ مشکل تھا۔ بہرحال دو وجوہات کی بنا پر بائیں طرف مڑ گئے۔ ایک تو یہ سڑک کچھ بہتر تھی اور دوسرا سو میٹر کے فاصلے پر کچھ مکان نظر آ رہے تھے۔ آگے گئے، گاڑی روکی تاکہ کسی سے رستہ پوچھا جائے، مگر جیسے سب ہم سے روٹھ کر گھروں میں چھپ گئے تھے۔ ویران سڑک اور اتنی چھوٹی کہ واپس مڑ بھی نہیں سکتے تھے۔ سڑک سے بیس پچیس فٹ بلندی پر ایک گھر تھا۔ جس کی بتیوں کا چال چلن بتا رہا تھا کہ اس گھر میں کوئی نہ کوئی ضرور ہے اور جاگ بھی رہا ہو گا۔اب گاڑی سے نکلے تو کون نکلے؟ سلیم اور عباس ظاہر ہے ”جوان بزرگ” ہیں تو پھر یہ کام انہیں نے کرنا تھا۔ دونوں اترے، ایک لمبے سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے مرتے مرتے اس گھر کی طرف جا رہے تھے اور پھر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ پانچ دس منٹ بعد واپس ایسے آئے جیسے وہاں سے امرت پی کر تازہ دم ہو گئے ہیں۔ دونوں بڈھے کھوسٹ بڑے خوش خوش دوڑے آ رہے تھے، واپس پہنچ کر کہنے لگے ”چھڈو راما نوں“ ادھر ہی کوئی جگہ دیکھو اور کیمپ لگاؤ۔ ساتھ ہی کہتے ہیں ہم ٹھیک طرف جا رہے ہیں، راما ادھر ہی ہے۔ ڈرائیور نے گاڑی چلا لی۔ مگر ان دونوں نے رستہ معلوم ہونے کی جو رنگینی بتائی تو میں اور عبدالستار ان دونوں کو گالیاں دیتے ہوئے، چلتی گاڑی سے مڑ مڑ کر اس گھر کو دیکھنے لگے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا! کاش کہ رستہ معلوم کرنے میں خود چلا جاتا۔
بھائی جان آخر اس گھر میں ایسا کیا تھا ؟؟؟؟؟ 😆 😆 😆 😆
کل تک اگلی قسط شائع کرتا ہوں تو اس میں بتاتا ہوں کہ اس گھر میں کیا تھا؟ 🙂 ویسے کچھ خاص نہیں تھا۔
بلال بھائی کیا وہاں کسی حور سے ملاقات ہوئی تھی یا پھر حورے سے ؟
بھائی جان ہماری تو ملاقات ہی نہیں ہو ئی اسی لئے تو ہم اس گھر کو مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔
Interesting fact, Onions have antioxidants flavonoids like querceptin that cause thinning of blood and improve blood flow through heart and blood vessels. It is sometimes used for altitude sickness but more effective treatments are available such as Acetazolamide.
جی بہتر۔ اب مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ اس دوائی کا کیا نام تھا مگر ہم ساتھ جو میڈیکل کِٹ لے کر گئے تھے اس میں ایسی دوائی موجود تھی جو بلندی کے اثرات کم/ختم کرتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ یہ کِٹ ہمارے ایک دوست غلام عباس جو کہ خود تھوڑا بہت میڈیکل کے متعلق جانتا ہے، اس نے کچھ ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد تیار کی تھی۔ باقی یہ پیاز تو میں احتیاط کے طور پر دیسی ٹوٹکا استعمال کر رہا تھا۔ 🙂
قسط کے آخر والا قصہ دلچسب لگتا ہے اب اگلی قسط کا انتظار پہلے سے زیادہ رہے گا ویسے یہ تو آپ نے حسینہ واجد والے کام شروع کر دیئے سفر نامے میں۔
جی اب آپ کو زیادہ انتظار بھی نہیں کروائیں گے۔ ویسے آخر والا قصہ اتنا بھی دلچسپ نہیں، اس لئے زیادہ نہ سوچیئے گا۔ 🙂
جاوید چوہدری نے بھی آپ سے متاثر ہو کر اپنا سفر نامہ شروع کر دیا ہے۔ 🙂
محمد صابر بھائی کیسی باتیں کرتے ہیں؟ اجی کہاں ہم اور کہاں وہ ”وڈے“ لوگ۔
ویسے ان کا سفر نامہ تین اقساط کے ساتھ ختم ہو چکا ہے۔ ان کی 27 جولائی والی آخری قسط نے کافی مایوس کیا ہے، لکھنے کا فن تو ان کے پاس زبردست ہے مگر نانگا پربت کی معلومات فراہم کرنے میں تین بہت بڑی غلطیاں کر گئے ہیں۔
ایک:- نانگا پربت کے فیری میڈوز کی طرف والے گلیشیئر کی لمبائی غلط ہے جو کہ اصل میں بمشکل دس گیارہ کلومیٹر ہے جبکہ وہ اسے تیس چالیس کلومیٹر لکھ گئے ہیں۔
دو:- وہ نانگا پربت پر چڑھنے والے روٹ میں فیری میڈوز والی طرف کو مشکل ترین لکھ گئے ہیں جبکہ فیری میڈوز والا راستہ سب سے آسان مانا جاتا ہے اور اسے نانگا پربت کی پیٹھ کہا جاتا ہے، سب سے مشکل اور خطرناک روپل فیس ہے جہاں پر دنیا کی بلندترین ”دیوار“ سیدھی کھڑی ہے۔
تین:- ان کے مطابق آج تک صرف دو ٹیمیں نانگا پربت کو سر کر سکی ہیں۔ ایک 1953ء میں اور دوسری 1995ء میں جبکہ یہ بھی غلط ہے کیونکہ نانگا پربت کو دو سے زیادہ ٹیمیں سر کر چکی ہیں اور سب سے بڑھ کر رین ہولڈ میسنر دو دفعہ سر کر چکا ہے۔ ایک دفعہ اپنے بھائی کے ساتھ اور ایک دفعہ اکیلے۔ جہاں تک میری معلومات ہے اس کے مطابق تو 1995ء میں نانگا پربت پر کوئی مہم جوئی ہوئی ہی نہیں تھی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ 15 جولائی 2012ء یعنی ابھی کچھ دن پہلے ایک اور ٹیم نے سر کیا ہے۔ جب ہم نانگا پربت کے بیس کیمپ کی سیروتفریح میں مصروف تھے تو تب وہ ٹیم چڑھ رہی تھی۔
بہرحال وہ ”وڈے“ بندے ہیں، جو بھی لکھیں سب چلتا ہے۔