خواتین و حضرات! میں ہوں اس داستان کا میزبان منظرباز۔۔۔ زندگی جیتے تمام مسافروں سے التماس ہے کہ برائے مہربانی انسان سے وابستہ امیدوں اور شکوہ شکایت کا بوجھ اتار دیجئے اور سفری و سیاحتی سامان باندھ لیجئے۔ یوں قوی امید ہے کہ آپ کا سفر یادگار ہو گا۔۔۔ بہرحال ہماری اس سفری داستان میں شادیانے بجتے ہیں، چشمے گاتے ہیں، آبشاریں مٹکتی ہیں، برفیں تڑکتی ہیں اور پریاں ناچتی ہیں۔ اس کہانی میں رومانس ہے… ٹریجڈی ہے… ڈرامہ ہے۔ شاعری ہے… نثر ہے۔ نظم، غزل، مضمون اور افسانہ ہے… مکالمہ ہے۔ ساکت و متحرک کردار ہیں۔ یہ مہم جوئی ہے۔ یہ امتحان، صبر، برداشت اور حوصلے کی کہانی ہے۔ اس میں دل کی پذیرائی ہے… مقبول ستارۂ صبح ہے۔ اس میں منظور کا طاہر ہے، شبیر کا جمال ہے، طور کا اقبال ہے۔ عباس کا غلام اور بندۂ ستار ہے۔ اس کہانی میں راجپوت ہے اور اک منظرباز بھی ہے۔ اور ہاں اس میں کوثر بھی ہے، عظمت، صدیق اور دولت بھی۔
جیپ ڈرائیور کی فاش غلطی مگر قدرت کی مہربانی سے جیپ کھائی میں گرنے سے بچ گئی۔ جب اک حادثے سے بچ نکلے تو نانگا پربت کے ہیئرلش کوفر(Herrligkoffer) بیس کیمپ اور پھر بزہن گلیشیئر کو عبور کرتے ہوئے ٹاپ میدان اور لاتوبو بیس کیمپ کا ٹریک کرنے کے لئے وادی روپل سے روانگی کے وقت بنائی گئی منہ فوٹو شریف۔۔۔ شریف اس لئے کہ فوٹو میں سوائے منظرباز کے سبھی شریف لوگ ہیں۔ ویسے بھی ایک گروہ میں ایک ہی غنڈہ ہوتا ہے اور اس گروہ کا غنڈہ۔۔۔ 😉 😛
بہرحال ایک مرتبہ پھر راما میڈوز اور جھیل، ترشنگ، نانگاپربت(8126میٹر) کے بیس کیمپس اور دیوسائی کی سیاحت فرمائی… فوٹو اور ویڈیوگرافی کی ”انی“ مچائی۔ اور جانو! دو دن پہلے آئی ایم واپس گھر۔۔۔بولے تو نو دن کے سفر کے بعد نویں مہینے کی نو تاریخ کو نو لوگ واپس گھروں کو پہنچے۔۔۔ چونکہ میں اس سفر کا نیم منشی بھی تھا، اس لئے تھوڑی منشی گیری بھی ہو جائے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ اس سفر میں فریق و صدیق و جیوٹریک کے مطابق ہم نے سینکڑوں کلومیٹر گاڑیوں پر مگر میدانی و پہاڑی سڑکوں پر سفر کیا۔ تقریباً 38کلومیٹر پہاڑی پگڈنڈیوں اور کچے و پتھریلے راستوں پر پیدل چلے۔ جس میں پتھروں سے اٹے بزہن(Bazhin) گلیشیئر کی تقریباً سوا کلومیٹر طویل خطرناک بھول بھلیوں کا سفر بھی شامل ہے۔ ہماری ٹیم اور خاص طور پر میں کوئی باقاعدہ قسم کا ٹریکر یا ہائیکر نہیں۔ اس لئے یوں زادِ راہ، فوٹو اور ویڈیوگرافی کے اوزار اٹھا کر جنگل بیانوں میں اُتار چڑھاؤ کا یہ کھیل میری اچھی بھلی خبر لیتا ہے۔ مگر جنابِ عالی! ہم مجبور ہیں، کیونکہ ایسی مشکلات میں عجب ہی لطف آوے ہے۔ قدرتی حسین نظارے کشٹ تو مانگیں مگر ان نظاروں سے سکون زیادہ ملے ہے۔ وہ کیا ہے کہ نانگا پربت تو تصویروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، لیکن پربت کے دامن میں کھڑے ہو کر ننگی آنکھ سے ساڑھے چار کلومیٹر بلند دیوار کو دیکھنا سحرزدہ کر دیتا ہے۔ ریچھ تو چڑیا گھر یا مداری کے پاس بھی دیکھ سکتے ہیں مگر قدرتی ماحول میں دیکھنے کا سواد ہی ”وکھرا“ ہے۔
بس جی! اسی سواد کے واسطے ہماری ٹیم سطح سمندر سے اوسطاً 4100میٹر بلند دنیا کے دوسرے بلندترین سطح مرتفع دیوسائی یعنی دیو کی سرزمین(The land of Giant) پہنچی اور دیوسائی کے میدانوں میں ہمالیائی بھورے ریچھ کی کھوج کو نکلی۔ کئی ٹیلوں کے اتار چڑھاؤ نے مت مار دی۔ مگر قدرت نے خاص الخاص مہربانی فرمائی۔ جہاں لوگوں کو ایک ریچھ بھی بمشکل نظر آتا ہے وہاں ہمیں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار چار ریچھوں کی زیارت ہوئی۔ قدرتی ماحول میں ہمالین براؤن بیئر(Himalayan Brown Bear) کو دیکھنا ہماری پرانی خواہش تھی اور اس کے پورا ہونے پر ہم بہت خوش اور کافی حد تک جذباتی بھی ہو گئے تھے۔ مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ اور ان میں ”دیو نوء ٹُھک“(Deo nau Thuk) یعنی دیو کی پہاڑی بھی ایک اہم امتحان تھا۔ کیونکہ ہم اسے سر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔دیو نوء ٹھک کو وولف پیک(Wolf Peak) بھی کہتے ہیں اور یہ دیوسائی کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ اس چوٹی سے تقریباً پورے دیوسائی کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یہ جھیل شیوسر کے مشرق میں 13.5کلومیٹر، جبکہ بڑاپانی پُل کے جنوب میں 7.25کلومیٹر کی دوری پر نظر آتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 4311میٹر اور اپنی بنیاد(بیس) سے 350میٹر بلند ہے۔ بے شک اس پہاڑی کی چڑھائی زیادہ نہیں مگر سطح سمندر سے اتنی بلندی پر جہاں ہوا کا دباؤ اور آکسیجن کم ہوتی ہے، وہاں کم از کم ہماری ٹیم کے لئے سیدھا چلنا بھی دشوار تھا اور ایسے میں کسی چوٹی پر چڑھنا تو جان جوکھم کا کام لاگے۔۔۔ خیر رب نے ہمت دی اور ہم دیو کی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ویسے بھی جس دیو کے نام پر اس پورے سطح مرتفع(Plateau) کا نام ہو۔ اور لوک داستانوں کے مطابق جس پہاڑی پر وہ دیو رہتا ہو اور چوٹی پر بیٹھ کر پورے دیوسائی پر نظر رکھتا ہو، یقیناً اس چوٹی تک پہنچنا تو بنتا تھا۔ اور چوٹی پر پہنچ کر چاروں طرف کیا شاندار نظارے تھے۔ ہر سمت دیوسائی اپنے آخری کناروں تک نظر آتا تھا۔ خیر ریچھوں کی تلاش اور دیو نوء ٹھک کو سر کرنا یقیناً ہماری ٹیم کی بڑی کامیابیوں میں شامل ہے۔ جس کے لئے ہمیں دیوسائی میں تقریباً 15کلومیٹر پیدل ٹریک اور کُل ملا کر 553میٹر چڑھائی کرنی پڑی۔ اس ساری کاروائی کے دوران ہمالین مارموٹ(Himalayan Marmot), عقاب اور کئی اقسام کے پرندے بھی دیکھنے کو ملے۔ اور دیوسائی کی سنہری ہوتی گھاس میں کہیں کہیں پھولوں کی بہاریں بھی شدید تھیں۔
آخر پر عرض بس اتنی سی ہے کہ یہ تحریر صرف اک خلاصہ بلکہ منشی نامہ ہے۔ جبکہ اصل ویڈیو، تصویری و تحریری داستان بعد میں۔ جس میں پردۂ سکرین پر ظاہر ہونے والے مناظر کے ساتھ ساتھ پسِ پردہ ہونے والے عوامل بھی شامل ہوں گے۔ جس میں ذکر ہو گا کہ جیپ ڈرائیور نے کیا غلطی کی اور ہماری کیسے بچت ہوئی۔ کن حالات میں ہیئرلش کوفر بیس کیمپ پہنچے اور پھر کیسے بزہن گلیشیئر عبور کیا۔ لاتوبو میں حلوے اور جلوے کیسے رہے۔ دیوسائی میں پہلا ریچھ دیکھنے پر ٹیم کی کیا حالت ہوئی۔ کچھ رکن جب دیونوء ٹھک کو سر کر کے واپس پہنچے تو باقی ٹیم نے انہیں کیسے خوش آمدید کہا۔ یہ سب تو ہو گا ہی مگر خاص الخاص وہ جو ”تم“ ساتھ ساتھ تھے اس کا ذکر بھی ہو گا۔
Good n Zabardast. Muddat baad aik wakhri si tehreer parh ker maza aaya aur likhne per majboor hogeya
Kabhi hum bhi “Munshi” huwa kerte thay kissi chotay motay group k
!App ne tou jawany yaad karadi! Allah aap ko khush rakhay