یوں تو ایک حساب سے بلاگ کا سلسلہ تبھی چل نکلا تھا مگر تب اس کا نام بلاگ نہیں تھا۔ ویسے بھی بلاگ کوئی باقاعدہ لفظ نہیں تھا۔ یہ اصطلاح بعد میں وجود میں آئی۔ 17 دسمبر 1997ء کو ایک امریکن بلاگر ”جارن برگر“ نے ایک اصطلاح ویب لاگ(Weblog) وضع کی۔ بعد میں اسی اصطلاح کی مختصر شکل سے لفظ بلاگ (Blog) بنا۔ جس کا بنانے والا پیٹر مرہلز تھا۔ ہوا یوں کہ اپریل یا مئی 1999ء میں پیٹر نے اپنے بلاگ کی سائیڈ بار میں مذاق کے طور پر ویب لاگ لفظ کو توڑ کر وی بلاگ(We Blog) بنا کر لکھ دیا۔ یوں آن لائن ڈائریاں لکھنے والوں (بلاگرز) کی اکثریت نے ویب لاگ کی مختصر صورت یعنی ”بلاگ“ ہی لکھنا شروع کر دیا اور یہاں سے اس لفظ نے رواج پایا۔
اس کے بعد ”بلاگر“ کی اصطلاح کا سرا بلاگ بنانے کی سہولت مہیا کرنے والی پیرا لیب کی ”بلاگر سروس“ سے ملتا نظر آتا ہے جوکہ 23 اگست 1999ء کو شروع ہوئی۔ بعد میں صاحبِ بلاگ (بلاگ نگار) کو بلاگر (Blogger) کہا جانے لگا۔ 2003ء میں بلاگر سروس کو مشہورِ زمانہ گوگل نے خرید لیا اور آج وہی سروس بلاگسپاٹ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ بھی شروع میں کئی ایک سروسز سامنے آئیں جو بلاگ بنانے کی سہولت فراہم کرتی رہیں۔ ان میں اوپن ڈائری اور سلیش ڈاٹ قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد مووایبل ٹائیپ اور آج کی ایک مشہور سروس ورڈپریس ہے۔ آج کل بلاگ لکھنے کے عمل کو بلاگنگ (Blogging) کہا جاتا ہے۔ تمام بلاگز (Blogs) کو مشترکہ طور پر اور ان کے درمیان تعلقات کو یعنی بلاگنگ کی دنیا کو انگریزی میں Blogosphere کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح ”بریڈ گراہم“ نے 10 ستمبر 1999ء کو مذاق مذاق میں وضع کی اور آج تک یہی استعمال ہو رہی ہے۔ اسی ”بلاگرز کی دنیا“ کو اردو میں ”بلاگستان“ کہنے کا رواج پا گیا ہے۔
بلاگنگ شروع تو ہو چکی تھی مگر امریکہ میں 11 ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد یہ کچھ زیادہ ہی پھیلنے لگی۔ ہر اہم واقعہ پر بلاگر کھل ڈل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
یہ معلوماتی تحریر بہت خو ب ہے ما شاءاللہ ۔
بلاگنگ کی تاریخ کہانی بہت دلچسب ہے فیس بک کہانی کی طرح ۔اور واقعی بلاگ لکھنا اپنی ذاتی ڈائری لکھنا ہی ہے۔ اور بلاگ لکھنا بلاگ پوسٹ کرنا کتاب لکھنے کتاب چھپنے سے بھی بڑا نشہ ہے ۔ اس طرح کہ کتاب ایک بار پبلش ہو جائے تو اس میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ۔ چاہے کتابت کی غلطی یا خیال کی پختگی اپنے لفظ کی نظرثانی پرکتنا ہی مجبور کرے لیکن لفظ جلد کی قید میں آکر پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہو جاتا ہے۔۔۔۔ باقی میرے بلاگ پر کچھ دیر بعد
محبت ۔۔۔اپنائیت۔۔۔ عزت
جیو بلاگستان
لوڈ شیڈنگ کے ظالم سماج سے بچ بچا کر آخر بلاگ مکمل ہو ہی گیا۔
http://noureennoor.blogspot.com/2014/02/blog-post_18.html
میں نے ویب لاگ کا 1999ء کے آخری مہینوں میں سُنا تھا اور 2000ء کے شروع سے اپنی سی کوشش کرتا رہا کہ انٹرنیٹ پر سستی سی جگہ مل جائے تو میں وہاں ہاتھ منہ صاف کروں ۔ 1993ء میں میرےبڑے بیٹے زکریا نے جو اُن دنوں انجنیئرنگ کے آخری سال میں تھا بتایا کہ ایک انٹرنیٹ سروس ایس ڈی این پی کے نے شروع کی ہے ۔ وہ 500 روپیہ ماہانہ لیتے تھے ۔ ہم نے سروس لے لی مگر اس پر زیادہ سے زیادہ ای میل ہی بھیجی جا سکتی تھی اور وہ بھی دھیرے دھیرے ہی جاتی تھی ۔ 1995ء میں پی ٹی سی ایل نے پاکنیٹ کے نام سے سروس شروع کی تو لے لی اور اس کیلئے ایک اور ٹیلیفون لائین بھی لے لی کہ ٹیلیفون بند نہ رہے۔ رفتار شاید 5 یا 6 کے بی پی ایس تھی ۔ 1996 میں کومسیٹ نے سروس شروع کی تو رفتار 20 کے بی پی ایس سے اُپر تھی ۔ پاکنیٹ چھوڑ وہ لے لی ۔ رفتار بڑھتی گئی اور 2 سال مین 56 تک پہنچی جو عملی طور پر 30 سے 35 ہی ہوتی تھی ۔ اس کے بعد ہم نے بہتر رفتار کیلئے ڈبلیو او ایل سے بھی استفادہ حاصل کیا ۔ 2001ء مین وھاج السراج صاحب جو مکینیکل انجیئر ہیں نے مائیکرونٹ ڈی ایس ایل شروع کیا تو ہماری ڈائل اَپ سسٹم سے جان چھوٹی اور دوسری ٹیلیفون لائین بھی ہم نے کٹوا دی ۔ جیسی بہترین کسٹمر سروس مائیکرونیٹ دیتا ہے ایسی مجھے لاہور یا کراچی میں بھی کہیں نظر نہ آئی ۔ 2004 میں میں نے اپنی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے اپنا بلاگ انگریزی میں بنایا ۔ اُن دنوں اُردو لکھنا وقت طلب تھا ۔ کچھ آسانی پیدا ہوئی تو 2004ء کے آخر یا جنوری 2005 میں اس پر اُردو بھی لکھنا شروع کیا ۔ پھر 2005ء میں اُردو کا علیحدہ بلاگ شروع کیا ۔ بلاگر پاکستان میں بند ہوا تو ورڈ پریس پر دونوں بلاگ شروع کئے ۔ 2006ء مین مائیکرونیٹ کے مالکوں ہی نے فائبر آپٹکس سے لیس نیا ٹیل سروس شروع کی ۔ اب چونکہ میں اکیلا ہی انترنیٹ استعمال کرتا ہوں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرا کام ایک میگا بی پی ایس سے بخوبی چلتا ہے۔ ورڈ پریس میں سانچے کی آزادیا کم ہوئیں تو اُردو کے بلاگ کیلئے اپنی جگہ خرید لی