29جون2012ء صبح کے چار بج چکے ہیں اور گاڑی جہلم سے چل پڑی ہے۔ سلیم ہمارا لیڈر ہے اور اس نے ہی سب کو بلند آواز میں سفر کی دعا پڑھائی ہے۔ گاڑی کی آگے والی سیٹ پر عبدالستار ہے۔ پیچھے سلیم اور نجم ہیں اور ان کے ساتھ والی فولڈنگ سیٹ پر معاون ڈرائیور بیٹھا ہے۔ ان کے پیچھے میر جمال اور عبدالرؤف ہیں۔ پیرومرشد بابا غلام عباس اور میں بقلم خود سب سے آخری سیٹ پر بیٹھیں ہیں۔ عباس لوگوں کے لئے پیرومرشد نہیں۔ یہ تو ابھی بیٹھتے ہوئے جب میں نے ساری سیٹ عباس کو دے دی کہ تم یہاں سو جاؤ اور مذاق مذاق میں کچھ اس طرح اس کی ٹانگیں دبانے لگا جیسے عام طور پر مرید پیروں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر عباس کو ساری سیٹ دے دی ہے اور خود فولڈنگ پر بیٹھ کر لکھنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔ یوں میرا سفر بھی اچھا گزر جائے گا۔ آپ کو کچھ الٹا سیدھا پڑھنے کو مل جائے گا اور ”پیرومرشد بابا غلام عباس“ جو ساری رات کے جاگے ہوئے ہیں وہ آرام فرما لیں گے۔ ویسے رات بھر سے سبھی جاگ رہے ہیں۔
جہلم شہر نکلنے سے پہلے ہی نماز فجر ادا کی اور ساتھ ہی گاڑی میں ڈیزل بھی بھروا لیا۔ نماز کے بعد میں نے جو سب سے اہم کیا وہ دوسروں کے لئے تو عجیب ہوتا ہے مگر میں ہر ٹور پر کرتا ہوں یعنی سامان کو ایک خاص ترتیب سے رکھ کر خیمے اور ”سلیپنگ بیگ“ کچھ اس ترتیب سے رکھتا ہوں کہ ایک دو بندے ان پر بڑے آرام سے سو سکتے ہیں۔ ابھی جب میں نے وہ ترتیب لگائی تو عباس اور عبدالرؤف بڑے خوش ہوئے کہ واہ سونے اور تاش کھیلنے کی اچھی جگہ بنا دی ہے۔
سفر شروع ہو چکا ہے اور اب سورج نکل رہا ہے۔ سورج کے پیچھے پیچھے گرمی کا جن بھی بوتل سے باہر آ جائے گا۔ چند دن اس جن سے بچنے اور اپنے آپریٹنگ سسٹم کو تازہ دم (ریفریش) کرنے کے لئے یہ سفر کر رہے ہیں۔ وادی وادی گھومیں گے، چشموں کا ٹھنڈا و میٹھا جام نوش کریں گے۔ رنگ برنگے جنگلی پھولوں سے باتیں کریں گے۔ ان کے احساس و جذبات محسوس کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے دکھ درد اور خوشی کی باتیں سنیں گے مگر اپنے نہیں سنائیں گے کیونکہ اپنی ساری سوچیں، جھنجھٹ اور مشینی باتیں ادھر ہی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس علاقے کی ثقافت اور رہن سہن دیکھیں گے۔ خوبصورت مگر مشکل زندگی اور سادے لوگوں سے ملیں گے۔ ان سے گپ شپ کریں گے۔ دوستیاں بڑھائیں گے۔ خود کو طلسماتی پہاڑوں کے سحر میں گرفتار کروائیں گے۔ سو چہروں والے قاتل پہاڑ کو دیکھیں گے۔ سنا ہے یہ پہاڑ نانگاپربت بہت خوف ناک ہے۔ میں تو یہ دیکھنے جا رہا ہوں کہ مجھے اس سے خوف آتا ہے یا پھر میں اس کے طلسم میں گرفتار ہوتا ہوں۔ مجھے اس قاتل پہاڑ سے بہت سی رازونیاز کی باتیں کرنی ہیں۔ بہت کچھ کہنا ہے اس سے۔
خیر جب پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ پہاڑ ہمارے ساتھ کیسی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ فی الحال تو ہم جی ٹی روڈ پر جہلم سے اسلام آباد کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ دینہ شہر آ چکا ہے۔ بائیں طرف ایک سڑک مڑ رہی ہے جو قلعہ روہتاس کو جاتی ہے اور بائیں طرف ہی تھوڑا دور ٹِلہ جوگیاں کی پہاڑیاں نظر آ رہی ہیں۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر عباس سو رہا ہے، باقی بھی رات جاگنے کی وجہ سے سست پڑے ہیں بلکہ عبدالستار بھی سو چکا ہے۔ یہ عبدالستار بڑا خوش قسمت بندہ ہے۔ گاڑی ہو یا دوستوں کا شور شرابا، کیسے بھی حالات ہوں، جب اسے نیند آتی ہے تو یہ سو ہی جاتا ہے۔ خیر عباس اور عبدالستار کے علاوہ باقیوں میں سے کوئی کبھی کبھی چھوٹی موٹی شرلی چھوڑ دیتا ہے اور میں لکھنے میں مصروف ہوں۔ چلتی گاڑی میں لکھنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ویسے اگر میں اور میرے ساتھ موجود یہ سارے یعنی ہم ”سات سست درویش“ اگر تازہ دم ہوتے تو اس قلعہ روہتاس اور ٹِلہ جوگیاں کی ایسی خودساختہ تاریخ تیار کرتے کہ 948ھ میں شیر شاہ سوری کا بنایا ہوا یہ قلعہ ایک دم سے زمین بوس ہو کر ہم سے معافی مانگ رہا ہوتا اور ٹِلہ جوگیاں کے جوگی دست بستہ کھڑے ہم سے رحم کی اپیل کر رہے ہوتے۔ وہ کیا ہے کہ ان درویشوں کو بس ایک لفظ یا نام دے دو اور دعا کرو کہ ان کی حسِ مزاح پھڑک جائے تو پھر دیکھوں یہ بات کا بتنگڑ اور ایسی مصنوعی کہانی تیار کریں گے کہ لگے کا سب حقیقت ہے۔ لفظ بگاڑ کر ایسی تکرار کریں گے کہ اب تو کئی دفعہ مجھے خود پتہ نہیں چلتا یا ٹھیک لفظ زبان پر نہیں آتا اور میں غلط بول جاتا ہوں۔ جیسے ابھی شیر شاہ سوری کا نام لکھنے لگا تو ”سور سا شیری“ لکھ گیا۔ اسی طرح چند الفاظ آپ کو بتائیے دیتا ہوں۔ موسٹ ہوئے روڑغ (روسٹ ہوئے مرغ)، تمازی دواغن (دماغی توازن)، شالا باغ ڈیم اور کالا مار باغ (شالا مار باغ اور کالا باغ ڈیم) وغیرہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے خود ساختہ الفاظ ہیں جو کسی دوسرے کو بالکل سمجھ نہیں آتے مگر جب ہم ایک دوسرے کو کہتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے۔ جیسے ”چل سیمینائیٹ ہو“، ”یہ سبٹینئر ہے“۔ مزید کچھ ایسے الفاظ ہیں جن کے اصل معنی کچھ اور ہیں مگر جب ہم دوست ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں تب ہم ان کا کچھ اور ہی مطلب لیتے ہیں۔ جیسے ”سائیں“ جو بندہ کسی بھی شعبہ میں ایکسپرٹ ہو، آخری حدوں کو چھو رہا ہو اور خاص طور پر مخلص ہو تو ہم اسے ”سائیں“ کہتے ہیں۔ کسی چیز کی تعریف میں اسے ”چھکڑا“ کہتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کے پاس کوئی اچھا کمپیوٹر ہو تو ہم اس کمپیوٹر کو چھکڑا کہیں گے۔ اس کے علاوہ یہ درویش، بندوں کو ان کے کاموں کے حساب سے عہدے دیتے ہیں تو وہ عہدے کچھ یوں ہیں۔ ابتدائی عہدہ سرکٹ، اس سے اوپر سبٹینئر، پھر سب ڈولیئر، سب ڈب ڈولیئر، سب ڈب ڈب ڈولیئر اور سب سے بڑا عہدہ سائیں ہے۔ ہم دوستوں میں جب کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص ”سب ڈولیئر“ ہے تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں شخص کس قسم کا ہے اور وہ کتنے پانی میں ہے۔ ایسے الفاظ اور لغت میں اضافہ سیروتفریح کے دوران ہی ہوتا ہے، مگر آج سب سست پڑے ہیں اور ابھی تک کوئی نیا لفظ وجود میں نہیں آیا۔
میں لکھنے میں مصروف رہا اور اسی دوران کئی چھوٹے شہر اور قصبے گزر چکے ہیں۔ 6 بج گئے ہیں، راولپنڈی آ گیا ہے اور ہم شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیں جی عظیم عوام کی عظیم فوج نے گاڑی کو چیکنگ کے لئے روک لیا ہے۔ روز کے ناکوں پر کھڑے ہونے والے دور سے ہی گاڑی پہچان لیتے ہیں کہ یہ کسی دوسرے شہر کی گاڑی ہے، چاہے گاڑی کا نمبر کسی بھی شہر کا ہو۔ فوجیوں نے ایک پولیس والا گاڑی کی تلاشی لینے بھیجا ہے۔ ہم سب کو اتار کر تلاشی لے رہے اور گاڑی کی بھی ایک ایک چیز چھان رہے ہیں۔ اب سب کچھ ٹھیک ہے تو گاڑی کے کاغذات مانگ رہے ہیں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ڈرائیور کاغذوں میں سو روپے کیوں رکھ کر دے رہا ہے۔ پولیس والا جو کہ فوجیوں کا نمائندہ ہے نے سو روپے جیب میں ڈال لیے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں مہنگائی بہت ہے۔ اجی کاہے کی مہنگائی یہاں تو سو سکوں کے عوض سب سے قیمتی چیز ”ایمان“ تک خریدا جا سکتا ہے۔ خیر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں۔ گاڑی سے اتار کر تلاشی لینے کی وجہ سے غلام عباس کی نیند بھی برباد ہو چکی ہے۔ میں اور عبدالرؤف غصے میں آگئے ہیں اور ڈرائیور سے پوچھ رہے ہیں کہ تم نے رشوت کیوں دی، بقول ڈرائیور کے کہ اگر رشوت نہ دیتے تو وہ جانے نہ دیتے۔ میں نے بڑے آرام سے پوچھا ہے کہ کیا تمہارے کاغذات پورے ہیں؟ جب اس نے ہاں میں جواب دیا تو میں اور عبدالرؤف مزید بھڑک اٹھے کہ پھر تو نے رشوت کیوں دی؟ خیر دوستوں نے بات آئی گئی کر دی ہے اور سفر شروع ہو گیا ہے۔
آج میری سونے جاگنے کی الٹی روٹین کا مجھے پہلی دفعہ کوئی فائدہ ہوا ہے ورنہ پہلے تو اس روٹین نے نقصان ہی نقصان دیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ کل میں دوپہر کے وقت سو گیا اور رات کو اٹھ کر سیروتفریح کو نکل پڑا، اس لئے ابھی تک مجھے نیند محسوس نہیں ہوئی، لیکن اتنا لکھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ تھوڑی دیر لکھنا بند کروں اور یہ جو میرے ساتھی مست ملنگ بنے ہوئے ہیں، ان کو ذرا دھمال پر لگاؤ۔
اگلا حصہ:- عظیم شاہراہ پر سفر – پربت کے دامن میں
ٹور کے رکھو
جی ٹھیک
مجھے جوانی جو 55 سال کی عمر تک قائم رکھی کی یادیں آپ تازہ کرا رہے ہیں ۔ یہ سڑکیں کئی بارہا ہم نے ناپی ہوئی ہیں ۔ اور یہ 100 روپے والی بات ۔ ڈرائیور کو کسی کمی کا ڈر تھا ۔ اصل سفر شروع ہونے میں ابھی بہت وقت ہے ۔ میں دبئی میں بیٹھا پاکستان کے مزے لے رہا ہوں ۔ اگر اسلام آباد میں ہوتا آپ لوگوں کا کچھ وقت ضائع کرنے کی پوری کوشش کرتا
واقعی ہمیں بھی بعد میں معلوم ہوا کہ ڈرائیور کے کاغذات میں کمی تھی۔
باقی اگر آپ ہمارا وقت ”ضائع“ کرتے تو یقینا ہمیں بہت خوشی ہوتی اور یہ ہمارے ٹور کے خوشگوار ترین لمحات میں شامل ہوتا۔ خیر جب آپ واپس آئیں تو بتائیے گا، ان شاء اللہ ملاقات کا کوئی پروگرام تشکیل دیتے ہیں۔
بہت خوب ۔
ہم بھی چشمِ تصور میںسفر کا مزہ لیتے ہیں۔
کیا ہوا جو ہم جا نہ سکے
چلتے رہیںگے تیرے ساتھ ٹھنڈی ہوا کی طرح
کیا ہوا جو ہم اپنی پیاس بجھا نہ سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ آپ تمام ساتھیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین۔
بہت شکریہ جناب۔ ویسے یہ سفر نامہ بھی اسی لیے لکھ رہا ہوں تاکہ جو لوگ شوق رکھتے ہیں اور جا نہیں پا رہے ان کو تھوڑا بہت لطف آ جائے۔
سائیں بہت اچھے 🙂
نہ جی ہم سائیں کہاں۔ ہم تو بمشکل ابھی تک سبٹینئر تک پہنچ سکے ہیں۔ سائیں تو بہت آگے کی منزل ہے۔
بلال بھائی بہت اچھے انداز سے لکھ رہے ہو آپ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہم سفر ہوں
پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
بلال میاں کو یہ علیگی منظر بازنہیں منظر نواز کہتا ہے۔ بہ حیثیت گردش گر ، عکّاس ، روداد نویس آپ کی لیاقتوں کا مُعترف اور قدرداں ہوں۔
آپ مذاق (ذوق) کو مزاح کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ در اصل بازاریوں کا وطیرہ ہے۔ مزاح مزاح میں جو چاہیں کہیں لیکن مذاق نہ کریں۔ یہ ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے۔ دعا کرتا ہوں خدا آپ کے ذہنِ رسا اور قلم کو جِلا بخشے۔ اپنی مزاحیّہ تحار یر ( نہیں نگارشات ) سے نوازتے رہیں۔