اکثر ایک پیغام ملتا ہے کہ ”ماشاء اللہ، منظرباز خوش باش۔ وجہ کیا ہے؟ آخر پسِ پردہ کیا ہے؟ کہیں خودی، سیروسیاحت اور فوٹوگرافی تو نہیں؟“
شاعر (سلیم کوثر) نے کہا تھا ”سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے“۔ شاعر جس سطح پر جا کر بات کر رہا ہے، ہم وہاں تک تو نہیں جاتے بلکہ فی الحال جا ہی نہیں سکتے، اس لئے سرآئینہ اور پس آئینہ میں آئینہ ہی حائل رہنے دیتے ہیں۔ البتہ کچھ ”سطحی سا“ پسِ پردہ جھانکتے ہیں۔ چلیں! فرد، سیروسیاحت اور فوٹوگرافی کے حوالے سے پردے کے پیچھے سرسری سا دیکھ لیتے ہیں۔
ہاں تو دوستو! اگر فرد کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بھی عموماً دیہاتی پاکستانیوں کی طرح گلی، نالی، زمین، برادری اور خاندانی سیاست وغیرہ کا شکار ایک عام انسان ہے۔ جو حالات پر نظر اور اپنی رائے تو رکھتا ہے مگر اب شوروغل کم کم ہی کرتا ہے۔ یہاں بھی پردے کے پیچھے وہی سکھ دکھ، خوشی غم، صحت بیماری اور زندگی کے وہی اُتار چڑھاؤ ہیں جو ہر انسان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ منظرباز کہتا ہے کہ پریشانیاں اور مشکلات تو سب کو ہیں، اس لئے ہر کسی کو کچھ وقت اپنے لئے بھی نکالنا چاہیئے اور کچھ ایسے مثبت مشاغل ضرور رکھنے چاہئیں جو آسودگی کا باعث ہوں۔ جیسے کہ لکھنا، پڑھنا، سیاحت اور فوٹوگرافی وغیرہ جیسے مشاغل نے منظرباز کی زندگی کو نفسیاتی تناؤ(Stress)، دماغی دباؤ(Depression) اور اضطراب(Anxiety) جیسے مسائل سے کافی حد تک بچا رکھا ہے۔ بات ماضی یا مستقبل کی نہیں کروں گا، بات تو حال کی ہے، گوکہ حال بھی اک وہم سا ہی تو ہے۔ بہرحال اس حال میں بھی نوبت ”لہو اُگلنے“ تک آنے سے پہلے ہی، منظرباز سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، کسی نہ کسی شغل سے دو دو ہاتھ کرنے چل پڑتا ہے۔ یوں شوق بھی پورا ہو جاتا ہے اور اِدھر اُدھر کی ”کُتیا کُتیا“ سے بھی بچ جاتا ہے۔ اور، اور۔۔۔ اس ”اور“ پر فی الحال پردہ ہی رہنے دیں۔
یہ تو مالک کا کرم ہے کہ اس نے چھوٹی چھوٹی خوشیاں سمیٹنے اور غم غلط کرنے کی ڈگر پر چلا رکھا ہے۔ ورنہ کیا منظرباز اور کیا اس کی منظربازی۔۔۔ اور وہ جو کہتے ہیں ”تم کسی کے کچھ نہیں لگتے“۔ ایک تو انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ منظرباز کی اکڑ ہرگز نہیں، شاید بے ثبات زندگی کی تھوڑی بہت سمجھ اسے بے نیازی کی طرف لے جا رہی ہے، یا پھر اس نے انسانوں سے امیدیں وابستہ کرنی کم کر دیں ہیں۔ ویسے بھی ہر وقت مسائل کے بھنور میں غوطے کھانے اور مشین کا پُرزہ بننے کی بجائے، اگر دو پل خوش ہو لیتا ہے تو بھلا کسی کا کیا جاتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ روزی روٹی کے چکر اور دیگر مشاغل کے باعث مصروفیت ایسی ہے کہ جس پر ایک بابے نے کہا تھا ”اچھا کام تو ایک طرف رہا، بُرے کام کے لئے بھی وقت نہیں ملتا“۔۔۔ لبِ لباب: یہ جو سوشل میڈیا اور اِدھراُدھر خوش باش اور ہنستے کھیلتے نظر آتے ہیں، اندر کھاتے ہر ایک کی طرح انہیں بھی کئی قسم کی پریشانیاں گھیرے ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اندر ہی اندر درد سہتا، آنسو پیتا مگر زندگی جیتا ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ وہ ہر وقت آہ و بکا کرنے کی بجائے زندگی جینے اور خوش رہنے کا گُر کسی حد تک سیکھ چکا ہے۔ پردے پر جو بھی نظر آئے جبکہ پسِ پردہ زندگی کی کہانی سبھی کی ایک جیسی ہی ہے، البتہ نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔
پڑھنے لکھنے کے حوالے سے پردے کے پیچھے جھانکنے کی کوشش نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔ کیونکہ ادھر ایک لکھاری کی نوحہ کناں چیخیں ہی سنائی دیں گی۔ البتہ اگر سیاحت کے حوالے سے پسِ پردہ دیکھا جائے تو پھر وہاں انفرادی طور پر معاملہ زبردست ہے۔ جب دل کیا ”کوئی جائے نہ جائے، منظرباز تو جائے گا“ کا نعرہ مارتے ہوئے منہ اٹھا کر چل دیئے۔ کسی آزاد پنچھی کی طرح وادی وادی اڑتے پھرے۔ جس ٹہنی پر دل کیا، بیٹھ گئے۔ جس شجر کے سائے میں دل کیا، دن گزار دیا۔ جو آسانی سے مل گیا، کھا لیا۔ جہاں رات ہوئی، عارضی گھونسلہ بنا کر رہ لیا۔ گویا منظرباز کی ”موجاں ای موجاں“۔۔۔ خیال رہے کہ کبھی کبھار تو ٹھیک، ورنہ جہاں اکیلے سفر کی موجیں ہیں، وہیں پر کئی مسائل بھی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ مستقل طور پر اکیلا تو درخت بھی سوکھ جاتا ہے جبکہ ”ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں“۔
اور اگر بات کی جائے اجتماعی یعنی دوستوں اور خاص طور پر کزنوں کے ساتھ سیروسیاحت؟ تو اس پر جگر مراد آبادی کا شعر یاد آ گیا ”یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے……اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے“۔ گویا یہاں بھی وہی معاملہ ہے، جو اکثریت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہلکی پھلکی سیاحت کا پروگرام تو آسانی سے بن جاتا ہے۔ مگر جب انتظار در انتظار کے بعد اور خدا خدا کر کے تھوڑی لمبی سیاحت کا پروگرام بنتا ہے تو کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھائے، پروگرام کی بنیادوں میں بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہر کسی کی اپنی اپنی مصروفیات اور مجبوریاں ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ (کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے) والا معاملہ بھی ہو جاتا ہے۔ بے شک ”یاراں نال بہاراں“ لیکن ان بہاروں کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ہر خوشی یا سکھ وغیرہ کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی صورت ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ تھوڑا باریکی سے غور کرو تو مالک نے نہایت متوازن معاملہ رکھا ہے۔ لہٰذا سیاحت کے دوران ایک طرف بہاروں کی موجیں لوٹتے ہیں تو دوسری طرف ”یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا، میری مانو، میری مانو“ کے نعروں میں اک مارشل لاء سا لگا ہوتا ہے۔ ہر ہر موڑ پر ”ڈکٹیٹرشپ“ سر چڑھ کر بولتی ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ معاملہ متوازن ہے جی، متوازن۔ اگر ایک طرف ڈکٹیٹر تو دوسری طرف جمہوریت پسند بھی ہیں۔ جو ”فوج“ کو بیرکوں تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس دوران کئی جھڑپیں بھی ہو جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان ہیں تو ”بشری غلطیاں“ ہونی ہی ہونی ہیں۔ بس بہتری اس میں ہے کہ کسی غلطی کی صورت میں ایک دوسرے کو انسان سمجھتے ہوئے ”کچھ“ گنجائش دی جائے۔ خیر پردے کے پیچھے نوک جھونک تو چلتی ہے مگر خوب ہلہ گلہ بھی ہوتا ہے اور شغل میلہ بھی لگتا ہے۔ کبھی پہاڑوں کے پتھر، کبھی دریاؤں کے پانی تو کبھی صحراؤں کی ریت چھانتے پھرتے ہیں۔ کبھی کسی ویران علاقے میں پہاڑ کی چوٹی پر آگ جلائے کھانے پکتے اور بھنگڑے چلتے ہیں تو کبھی دھول مٹی مفت و مفت پھانکتے ہیں۔ زمین و کائنات کے رنگ برنگے نظارے دیکھتے اور منظربازیاں کرتے ہیں۔ یوں قدرت اپنے آپ میں بھگو کر تازہ دم کر دیتی ہے۔ نتیجتاً معمولی مسائل کی صورت میں قیمتیں چکا کر بھی حساب کتاب دیکھا جائے تو ان بہاروں کا سودا گھاٹے میں نہیں رہتا۔ منافع میں خوشیوں کے انبار ملتے ہیں۔
فوٹوگرافی کے حوالے سے پسِ پردہ دیکھا جائے تو بعض اوقات منظر آسانی سے پکڑ میں آتے ہیں اور کئی دفعہ تو بڑی خجل خرابی کے بعد بھی مطلوبہ منظر نہیں ملتا۔ بعض اوقات فقط ایک تصویر بنانے کے لئے فوٹوگرافر کو لمبا سفر کرنا، پانی میں اترنا، پہاڑ چڑھنا، انتظار کرنا، بہروپ بنانا، تاک لگانا، مڈ میں اترنا اور خاک ہونا پڑتا ہے۔ جی ہاں! خاک ہونا پڑتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ اگر کوئی بدیانتی نہ کرے، ڈنڈی نہ مارے تو یہ کچھ کچھ درویشی قسم کا شعبہ ہے۔ خیر ہم تو اس معاملے میں ”صاحبوں“ کے عشرِعشیر بھی نہیں اور بس شوقیہ فنکار ہیں۔ بہرحال اپنی ایک مثال دینے کی جسارت کرتا ہوں۔ اس سے پہلے تحریر کے ساتھ جو تصویر ہے اور اس تصویر میں مزید جو چھوٹی چھوٹی تصویریں ہیں، ان کے متعلق بتا دوں کہ یہ کس کس نے بنائی ہیں۔ مرکزی(بڑی) تصویر میں نے بنائی تھی اور یہی تصویر بناتے ہوئے میری تصویر غلام عباس نے، اور اس کی دائیں طرف مقامی بچوں کے ساتھ گروپ فوٹو شہباز الحسن نے بنائی تھی۔ آگ والی اور دو افراد کے ”ناکام“ یوگا کی تصویر بنانے کی غلطی بھی مجھ سے ہی سرزد ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ جس تصویر میں ایک ”نام نہاد“ یوگی نظر آ رہا ہے وہ سعد ملک نے بنائی تھی، اور یہ ساری کی ساری تصویریں ضلع بھمبر(کشمیر) کے بلند ترین پہاڑوں میں سے ایک کی چوٹی پر مختلف اوقات میں بنائی گئی تھیں۔ ویسے ہم نے اپنے تئیں اس چوٹی کو ”ڈیرہ ٹاپ“ کا نام دیا ہوا ہے، کیونکہ ہم اکثر اس پر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ حالانکہ چوٹی پر جگہ اتنی سی ہے کہ بمشکل پانچ چھ بندے کھڑے ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی لڑکھڑایا تو سینکڑوں فٹ نیچے جانے کی بجائے سیدھا اوپر جائے گا۔
کشمیر کے اس علاقے میں خطرناک سانپ بہت پائے جاتے ہیں مگر ہم کیا کریں؟ ہم تو اپنی کھوج کے ہاتھوں مجبور ہیں، کیونکہ ضلع بھمبر کی اس چوٹی سے چاروں طرف دور دور تک شاندار نظارے ہوتے ہیں۔ شمال مشرق میں سماہنی سیکٹر اور اس سے آگے مقبوضہ کشمیر، مغرب میں منگلا جھیل اور جنوب میں چند پہاڑیوں سے آگے میدانی علاقہ تاحدِنظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ البیرونی زمین کی پیمائش کے لئے پہاڑ چڑھ بیٹھے اور ہم نظاروں کی تلاش میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کہاں عظیم سائنسدان اور کہاں عام سا منظرباز۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو ہمہ تن گوش ہوتے ہیں، فطرت ان کے لئے نغمہ سرا ہوتی ہے۔ فطرت کے ان نظاروں کی شفاف لہروں سے کچھ روح سرشار ہوتی ہے، کچھ فطرت اپنا آپ کھولتی ہے، کچھ کھوج کی تسکین ہوتی ہے اور کچھ ہم فوٹوگرافی کر لیتے ہیں۔ خیر انہی نظاروں کی فوٹوگرافی کے لئے سردی گرمی کی پرواہ کئے بغیر بارہا اس چوٹی پر گئے لیکن آج تک اس قسم کی تصویریں نہیں بنا سکا جو بنانا چاہتا تھا۔ مثلاً چیڑ کے درختوں پر نچھاور ہوتے ستاروں کے جھرمٹ خوبصورتی سے پکڑ میں نہ آئے(بوجہ ہوا میں ضرورت سے زیادہ نمی، بادل یا گردوغبار)۔ اور کبھی بادلوں کی وجہ سے شمس ہمارے وقت سے پہلے ہی پیا گھر سدھار گیا۔
فوٹوگرافی تو سارا کھیل ہی روشنی کا ہے۔ مطلوبہ روشنی اور رنگوں کے لئے مناسب وقت اور موسم کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں ”خراب موسم میں بھی بہترین تصویریں بنتی ہیں“۔ اب خراب موسم اور اوپر سے فوٹوگرافی کا کشٹ، گویا بندوبست کرنے کرنے میں ہی اکثر اوقات مناسب وقت گزر جاتا ہے، اوپر سے ہم ٹھہرے ازلوں کے سست۔ ویسے بعض اوقات موسم کا حساب لگا کر کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو مناسب وقت آنے سے پہلے ہی آمریت ”جلدی کرو، واپس چلیں“ کے ”کاشن“ دینے لگتی ہے۔ ویسے کبھی آمریت اقتدار میں ہوتی ہے تو کبھی جمہوریت اپنا لوہا منوا لیتی ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ ہنزہ میں پہلے ہی دو ٹوک کہہ دیا تھا کہ ایگل نیسٹ پر گہری رات میں فوٹوگرافی کر کے ہی واپس آنا ہے۔ اس لئے کوئی صاحب اُدھر جا کر ”چڑ چڑ“ نہ کرے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ادھر پہنچ کر ”چڑچڑصاحب“ بار بار پوچھتے ”تصویریں بنا لیں تو چلیں، ٹھنڈ لگ رہی ہے، واپس چلیں؟“ دراصل سبھی دوستوں کو فوٹوگرافی کا شوق نہیں، اس لئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اکتا جاتے ہیں۔ جیسے ایک دفعہ سکردو سے خپلو جاتے ہوئے راستے میں بار بار رک کر تصویریں بنا رہے تھے تو کئی دوست اس سے اکتا گئے۔ اکتاہٹ کا توڑ انہوں نے یہ کیا کہ فوٹوگرافی کو لے کر اس قدر جگتیں لگائیں کہ بیچارے فوٹوگرافرز زچ ہو کر رہ گئے۔ اور پھر خپلو داخلے پر ایک منظر نہایت خوبصورت تھا، اوپر سے مناسب روشنی بھی تھی، مگر فوٹوگرافرز ایسے ڈرے ہوئے تھے کہ گاڑی روکنے کا کہہ نہ پائے۔ یوں ایک خوبصورت منظر سے ہم تو محروم نہ ہوئے لیکن ناظرین ہمارے کیمرے کی آنکھ سے وہ منظر دیکھنے سے محروم ضرور ہو گئے۔۔۔ پس ثابت ہوا ”بہترین تصویریں بنانے کے لئے ہمیشہ اکیلے سفر کرو۔“
سیانے کہتے ہیں ”فوٹوگرافر مشکل حالات میں بھی کوئی نہ کوئی اچھی تصویر بنا ہی لیتا ہے“۔ ایسا کہنے والے سیانوں کو ڈھونڈتے پھریں یا پھر مجھے ہی سیانا سمجھ کر باقی بات خود ہی سمجھ جائیں۔ چند اشارے دے دیتا ہوں۔ جیسے کہ خپلو پر خوبصورت شام اتر رہی تھی، مگر ہم اترے چہروں کے ساتھ گاڑی سے اتر رہے تھے، کیونکہ گاڑی کے ٹائر سے ہوا اتر چکی تھی، یعنی ٹائر پھٹ چکا تھا۔ اضافی ٹائر لگا کر کام تو چلا لیا مگر اس کے سہارے واپسی نہیں ہو سکتی تھی۔ شام کے وقت سردی مزید بڑھ رہی تھی اور ہم صبح کے بھوکے، تھکن سے نڈھال اور پریشان حال ہوئے پڑے تھے، مگر پھر بھی بحالتِ مجبوری ٹائروں والی دکان ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ ایسے مشکل حالات میں بھی ہم نے۔۔۔آہو۔۔۔ اب پردے کے پیچھے زیادہ نہ جھانکو اور ”اگلی بات سمجھ جاؤ یار“۔۔۔
بہت جوب عمدہ تحریرلکھی ہے۔ایسےہی لکھتےرہیے