بسم اللہ الرحمن الرحیم
پچھلے تین سال سے میرا کام کاج کچھ ایسا ہے کہ سونے اور جاگنے کی کوئی خاص روٹین نہیں۔ جب کام ہوا تو کام کرتا رہا اور پھر جب نیند نے شدت اختیار کی تو سو گیا۔ یہ عام سی بات تھی کہ میں چوبیس گھنٹے سے مسلسل جاگ رہا ہوتا اور کئی دفعہ تو کام کرتے کرتے اس سے بھی زیادہ وقت گزر جاتا۔ ان تین سالوں میں دن و رات کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہو گا کہ جو میں نے نیند میں یا جاگتے ہوئے نہ گزارا ہو۔ کبھی فجر کے وقت نیند پوری کر کے اٹھ رہا ہوتا، تو کبھی شام کے وقت اٹھ کر ”ناشتہ“ کر رہا ہوتا۔ دوست مجھے صبح بخیر کے پیغام بھیج رہے ہوتے تو میں جواب میں انہیں شب بخیر کہتا۔ لوگ سونے کی تیاری کر رہے ہوتے تو میں نیند پوری کر چکا ہوتا۔ میرے کئی رشتہ دار کہتے کہ اس بندے کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایک دفعہ ان کے گھر آؤ تو یہ بندہ رات کو جاگ رہا ہوتا ہے، تو دوسری دفعہ یہ رات کو سو رہا ہوتا ہے۔ بس یہی کہ نہ سونے کا وقت مقرر تھا اور نہ جاگنے کا۔
دن و رات کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو میں نے نیند میں یا جاگتے ہوئے نہ گزارا ہو یعنی چوبیس گھنٹے کے دورانیہ کے ہر لمحہ کو نیند میں بھی گزار، نیند سے جاگتے ہوئے بھی محسوس کیا اور نیند کی آغوش میں جانے کو بھی چوبیس گھنٹوں کے ہر لمحہ میں محسوس کیا۔ ان تین سالوں میں میں مختلف اوقات میں سونے اور جاگنے کا موازنہ کر سکا ہوں اور میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ سونے کا بہترین وقت غروبِ آفتاب کے تقریبا دو گھنٹے بعد سے لے کر صبح صادق سے تقریبا دو گھنٹے پہلے تک کا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے لیکن میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب بھی میں اس وقت میں سویا اور پھر جب جاگا ہوں تو میں ذہنی اور جسمانی طور پر بہت ہی توانا محسوس کرتا ہوں۔ نیند بھی بڑی اچھی آتی ہے اور صبح صادق سے تقریباً دو گھنٹے پہلے یعنی رات کے آخری پہر نیند سے جاگنے کے بعد لکھنے بیٹھوں تو دماغ کمپیوٹر کی تیزی سے کام کرتا ہے، اس وقت جاگنے کے بعد جسمانی اور ذہنی آرام مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور مکمل خاموشی ہونے کی وجہ سے آپ اچھی طرح سوچ بیچار یا کوئی بھی کام پوری دلجوئی سے کر سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ رات، دن کی روشنی میں ڈھلنی شروع ہوتی ہے تو وہ آپ کی طبعیت پر کوئی برا اثر نہیں کرتی۔ ویسے بھی تبدیلی آہستہ آہستہ ہو تو وہ محسوس نہیں ہوتی۔ جبکہ اگر آپ اس وقت اٹھو جب سورج کی روشنی پھیل چکی ہو تو، یوں آپ ایک دم اندھیرے سے روشنی کی طرف جاتے ہیں اور میں نے محسوس کیا ہے اس طرح طبیعت اتنی ہشاش بشاش نہیں ہوتی جس طرح رات کے آخری پہر میں جاگنے سے ہوتی ہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ رات کے آخری پہر میں ایک عجیب قسم کا سحر ہے۔ مجھے تو یہ وقت بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ اس وقت میں جو بھی کام کروں اس میں دل بہت لگتا ہے۔ کتاب پڑھوں، کچھ لکھوں یا کمپیوٹر پر کام کروں یا کوئی بھی تخلیقی کام کرنا چاہوں تو دماغ دیگر اوقات کی نسبت زیادہ اچھا کام کرتا ہے۔ ایک اور عجیب چیز میں نے محسوس کی ہے کہ رات کا اندھیرا جذبات سے لبریز ہے تو دن کی روشنی عقل کے تابع ہے۔ ا س بات کا اندازہ مجھے اپنی لکھی ہوئی تحریروں سے ہوا۔ جو تحاریر میں نے رات کے اوقات میں لکھیں ان میں جذبات غالب تھے اور جو میں نے دن کے اوقات میں لکھیں ان میں منطق سے بات کی۔ جو وقت ان دونوں یعنی جذبات اور عقل کے درمیان آتا ہے یعنی رات کا آخری پہر سے صبح تک کا وقت، شاید وہ اسی لئے مجھے پسند آیا ہے کہ اس میں دونوں چیزیں ایک ساتھ مل رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت کسی بھی کام میں جذبات و عقل دونوں شامل ہوتی ہیں اور انسان جذبات و عقل یعنی دل و دماغ کو ساتھ لے کر چلے تو سوچ میں میانہ روی رہتی ہے اور انسان کی خوشی کے لئے میانہ روی بہت ضروری ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ جذبات کے بغیر انسان ایک مشین بن کر رہ جاتا ہے اور صرف جذبات انسان کو شدت پسندی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اب مجھے دوسروں کا پتہ نہیں لیکن میری نظر میں سونے کا بہترین وقت وہی ہے جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اور کچھ سوچنے کا بہترین وقت رات کے آخری پہر میں نیند سے جاگنے کے بعد کا ہے۔ اب یہ بھی پتہ نہیں کہ ایسا صرف میں ہی محسوس کر رہا ہوں یا پھر واقعی ایسا ہی ہے۔
اگر آپ بلاگر یا لکھاری ہیں تو، ہوسکے تو اس بارے میں کچھ لکھیں تاکہ کم از کم کچھ اندازہ ہو سکے اور ایک چھوٹا سا سروے بھی ہو جائے۔
باقی اللہ سب سے بہتر جاننے والا ہے۔
2010ء کے آخر پر مجھے خود احساس ہونا شروع ہوا کہ میری کوئی اچھی روٹین نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دن کام کے لئے اور رات آرام کے لئے بنائی ہے، لہٰذا مجھے بھی اپنی روٹین ٹھیک کرنی چاہئے۔ یوں اب میں نے کئی دن کی محنت کے بعد اپنی روٹین بہت بہتر کر لی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے بہتر روٹین پر قائم رہنے کی ہمت عطاء فرمائے۔۔۔آمین
بلال صاحب، آپ نےجووقت بتایاہےوہ بالکل ٹھیک ہےاس وقت سوناصحت کےلئےبھی بہت اچھاہےاورنیندبھی خوب آتی ہےاورجاگنےپردماغ بھی اچھی طرح کام کرتاہے۔
بلال آپ کی تحریر مجھے میرے ماضی میں لے گئی ۔ میں ویسے تو رات کو وقت پر سونے کی عادی تھی ۔۔۔ لیکن جب امتحان قریب ہوتے تب ساری ساری رات پڑھ کر گزرتی ۔۔۔ اور وہی ایک وقت جب چاروں طرف خاموشی لوگ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ۔ تب اپنے آپ کو جاگتا ہوا دیکھ کر غصہ آتا کہ یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ہی رہ گے ہیں ۔ رات بھر جاگ جاگ کر پڑھنے کے لیے ۔۔۔ لیکن میں اب جب لکھنے لگتی ہوں ۔ تو اس وقت ہی دماغ جاگ جاتا ہے ۔ کہ مجبور کرتا ہے کہ اٹھو لکھ لو پھر موقع نہیں ملے گا۔۔۔ اور جتنی دیر اٹھ کر کچھ لکھنے کا موڈ بنایا ۔۔۔ جو کچھ یاد تھا ۔ بھول گئی ۔۔ کیونکہ اٹھنے میں اتنا وقت لگ جاتا ۔میرا دماغ وہ دیری برداشت کرنے کو ہرگز ہرگز تیار نا ہوتا ۔۔
میرے خیال میں آپ کا اندازہ درست ہے، وہی وقت بہتر ہے۔ ہمیں نماز تہجد کی بھی اسی وجہ سے ترغیب دی گئی ہے۔ رات کے آخری پہر اٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
رات کے وقت بجلی والی چیزوں سے بچنا سکون لاتا ہے، مگر اس کم بخت کمپیوٹر کو کون چھوڑے :youkiddingme:
محترم جناب، م۔ بلال صاحب ، السلام علیکم جناب میں نے نیند کے بارے میں ایک سائینسی آرٹیکل پڑھا تھا ۔ تحقیق کے مُطابق آپ نے جس ٹائم کا حوالہ دیا ہے وہی سونے کیلئے بہترین ٹائم ثا بت ہُوا ہے ۔ بُہت شُکریہ (خُلوص کا طالب ۔ایم ۔ڈی)
السلامُ علیکم بلال بھائی
آپ نے جو وقت بتایا ہے یہی وقت سب سے بہتر ہے کوئی کام یکسو ہوکر کرنے کا ۔ میںدعا کروں گا کہ اللہ پاک آپ کی روٹین بنائے رکھے