نومبر 1, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

دوڑ سوڑ کے اس پار

اک شکوہ ”دوڑ سوڑ“ آپ نے میری سیاحتی تحریروں میں چند ایک بار پڑھا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاحت کے دوران جب دوست احباب کچھ زیادہ دوڑیں مچاتے ہیں تو مجھے الجھن ہونے لگتی ہے۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہوتے ہیں اور میں اپنی جگہ۔ انہیں منزل پر پہنچنے کی جلدی یا پھر صرف سیروتفریح مقصود ہوتی ہے، جبکہ میں سیاحت سے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بے شک میں بھی منزل کا رُخ کر کے نکلتا ہوں لیکن میرے لئے منزل سے زیادہ سفر اہم ہوتا ہے۔ راستے میں آنے والا اک اک منظر، اک اک رنگ دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ منزل پر پہنچ گئے تو بہت اچھے ورنہ کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ ”دوڑ سوڑ“ شدید الشدید مسئلہ ہے۔۔۔ پچھلے دنوں ”سیاحت اور عکاسی“ کے موضوع پر لائیو گفتگو کے دوران ایک بات کہی تھی کہ جب سفر پر نکلیں تو وقت کو پیچھے چھوڑ جائیں۔ اس سے مراد یہ تھی کہ سفر ترتیب ضرور دیں لیکن بھاگم بھاگ سے بچیں۔ خاص طور پر دورانِ سیاحت وقت کا لمبا چوڑا حساب کتاب کرنا چھوڑ دیں۔ سکون سے چلیں اور راستے میں آنے والے ذرے ذرے سے باتیں کرتے جائیں اور انہیں محسوس کریں۔ کچھ اپنی کہیں، کچھ ان کی سنیں۔ کسی خانہ بدوش کی طرح جہاں رات ہو رُک جائیں، صبح پھر چل دیں۔ یوں دھرتی کا ایک وکھرا رنگ دیکھنے کو ملے گا اور سیاحت اپنے منفرد و مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

سیاحت میں بعض لوگ منزل کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن سفر کو بہت عام چیز سمجھتے ہیں۔ البتہ میری نظر میں سفر بہت گہری چیز ہے۔ اور اگر آپ فوٹوگرافر یا لکھاری وغیرہ ہیں تو پھر سفر مزید گہرا اور موجزن ہو جاتا ہے۔ جس میں بے شمار لہریں اٹھتی ہیں۔ اور میری ”خرابی“ یہ ہے کہ میں نے خیر سے دونوں شوق(لکھنا اور فوٹوگرافی) پال رکھے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ سیاحت میرے لئے اک کھوج ہے، اک تڑپ ہے، اک سرور ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ شاید اسی وجہ سے ”دوڑ سوڑ“ سے الجھن ہوتی ہے اور سکون سے مست ماحول میں سفر کا قائل ہوں۔۔۔ مشہور و معروف سیاح، سفرنامہ نگار اور محقق سلمان رشید کہتے ہیں کہ ایک سفرنامہ نگار کے لئے سفر کا طریقہ ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جتنی آپ کی رفتار کم ہو گی، اتنا آپ زیادہ دیکھیں گے۔ سفر کا پیدل چلنے سے کوئی بہتر طریقہ نہیں۔ پیدل جب چلتے ہیں تو آپ پتھروں سے، درختوں سے، پرندوں سے باتیں کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ اور یہی بہتر طریقہ ہے دنیا کو دیکھنے کا۔ اور اگر آپ صرف ایک مسافر ہیں، تو بھی آپ کو چاہیئے کہ آپ رکیں، دیکھیں، محسوس کریں اور اس مقام کے ہمدرد بن جائیں۔
If you go fast you see nothing, if you go slow you see everything.

کہنے والے درست ہی کہتے ہیں، کیونکہ سیاحت کے دوران پیدل، سکون یا کم رفتار میں چلنا کئی نئی دنیاؤں کے دروازے کھولتا ہے۔ ورنہ ”دوڑسوڑ“ تو مشینوں کا شیوہ ہے۔ جن میں دل نہیں ہوتا، سوچ نہیں ہوتی، جذبات نہیں ہوتے۔ ان کی بس گراری گھومتی ہے، اپنا مطلوبہ کام سرانجام پاتا ہے اور بس۔۔۔

بلاوجہ کے بوجھ اور دوڑ سوڑ کے اس پار شاید اک سکون نگری ہے۔ اور یہ تصویر ایسی ہی نگری کے اک سفر کی ہے۔ ایسا سفر کہ جس میں کوئی بھاگ دوڑ نہیں تھی۔۔۔ کبھی دیکھ تو سہی! افق کے اُس پار سورج ڈھل رہا ہے۔ مگر آسمان رنگ بکھیر رہا ہے۔ دیپ جل رہے ہیں۔ دور کہیں تیرا گھر سہی، دور کہیں تیری منزل سہی۔ لیکن تم ذرا تو ٹھہرو! سکون سے بیٹھو، کچھ تو محسوس کرو۔ کچھ تو راہ کے نظاروں سے سیراب ہو جاؤ۔ فطرت کے رنگ اپنے اوپر پڑنے دے۔ اپنے دل میں دیپ جلنے دے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *