کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزار الفاظ سے بھی بھاری ہوتی ہے۔ بس جی! دنیا اسی بھار کے چکروں میں ہلکی ہو رہی ہے۔ وہ کیا ہے کہ اگر ایک تصویر ہزار الفاظ سے بھاری تو ایک جعلی تصویر ہزاروں الفاظ کو ہلکا بھی کر دیتی ہے۔ چوری شدہ یا جعلی تصویروں کے ذریعے لوگوں کو ”تصویری چونا“ لگانے اور فوٹوگرافرز کو دیوار سے لگانے کا عمل صرف وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جاری و ساری ہے۔ لیکن ابھی ہم اپنے وطن کی ہی بات کریں گے۔ ”وار فوٹوگرافر ہائڈلی لیوین“ کی وہ تصویر تو یاد ہی ہو گی جو اس نے غزہ میں زخمی ہونے والی ایک بچی کی بنائی تھی۔ وہی تصویر پاکستانی افسرشاہی کے ”ہونہار عملہ“ نے تحقیق کئے بغیر انٹرنیٹ سے اٹھائی اور سفارت کار ملیحہ لودھی صاحبہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کشمیر کی کہہ کر لہرا دی۔ اس فاش غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملیحہ لودھی صاحبہ کی جاندار تقریر پسِ پشت چلی گئی اور جعلی تصویر زیرِ بحث آ گئی۔ یوں اک تصویر کی وجہ سے وطنِ عزیز کی پوری دنیا میں رسوائی ہوئی۔ اک تصویر نے ہزاروں الفاظ ہلکے کر دیئے۔
حیرانی تو ان ”پڑھے لکھے افسران“ پر ہوتی ہے کہ جن میں ”وٹامن کام“ اور خاص طور پر ”وٹامن ریسرچ“ کی شدید کمی ہے اور اسی کمی کی بدولت کہاں کی تصویر کہاں جوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تو وہ کہاوت یاد آ گئی ”کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا“۔ اسی کے مصداق وطنِ عزیز میں اکثر، کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑا پکڑ کر کام چلایا جاتا ہے۔ اور تو اور اسی کہاوت کے عین مطابق حکومتیں بھی بنائی جاتی ہیں۔
بہرحال اب سنیں! تصویری چونا لگانے کی ایک اور کہانی۔ خبروں سے معلوم ہوا کہ 25جون2019ء کو بلجیئم میں پاکستانی سفارتخانہ نے پورپیئن ایکسٹرنل ایکشن سروس(EEAS) کے اشتراک سے برسلز میں ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا۔ تین ہفتے جاری رہنے والی اس نمائش کو ”پاکستان میں پائیدار سیاحت“ کا عنوان دیا گیا۔ جس میں پاکستانی لینڈ سکیپ اور کلچر وغیرہ کی کئی خوبصورت تصاویر آویزاں کی گئیں۔ یقیناً یہ ایک اچھا قدم ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے دنیا کو پاکستان کا مثبت تاثر جاتا ہے اور ان دلکش تصویروں کو دیکھ کر کئی بین الاقوامی سیاح پاکستان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ مگر ٹھہریئے! کیونکہ نمائش میں ایک تصویر ایسی کہ جس کا عنوان ”پسو کے پاس اونٹوں کا کارواں“۔ بتاتا چلوں کہ مجھے اس نمائش اور وہاں موجود کسی بھی تصویر پر کوئی اعتراض نہیں۔ میری طرف سے پسو (ہنزہ) سے صحرائی اونٹوں کے کارواں گزاریں یا کسی خلائی مخلوق کا یو ایف او(UFO) اتاریں۔ مجھے تو ان صاحب پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ جن کا وہ شاہکار ہے۔ ویسے بھی میں اعتراض کرنے والا ہوتا کون ہوں۔۔۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مجھے کوئی اعتراض ہے نہ تنقید کرنا مقصود، تو پھر یہ تحریر کس واسطے؟ الجواب: بس جی اپنے دل کی تسلی کے لئے یہ بتانا مقصود ہے کہ بھان متی والی حرکتیں کر کے وطنِ عزیز کی رسوائی کا باعث نہ بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں فوٹوگرافی اور فوٹوشاپ کی ایسی کی تیسی کرنے پر نوحہ کناں ہوں اور لگے ہاتھوں بھان متی والی کہاوت کو تھوڑا جدید کرنا چاہ رہا ہوں۔ لہٰذا جدید ورژن یوں ہے ”بھان متی نے تصویر جوڑی، شمال و جنوب سے لی تھوڑی تھوڑی“۔۔۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نمائش میں ایک ”چمتکاری تصویر“ ایسی بھی ہے جو شمال و جنوب کی تصویریں جوڑ کر بنائی گئی۔ جوڑی گئی تصویروں میں سے ایک تصویر چین کے علاقے دُن ہوانگ(Dunhuang) میں ”ریت کے نغمہ سرا ٹیلوں“(Singing Sand Dunes)میں سے گزرتے اونٹوں کے ایک کارواں کی ہے۔ جبکہ دوسری تصویر پسوکونز(گوجال، ہنزہ) کی ہے۔ یوں دونوں تصویریں ملا کر ایک نئی تصویر بنائی گئی، جس میں پسو کے قریب شاہراہ قراقرم پر اونٹوں کا کارواں دکھایا گیا۔ بھلا اس قسم کے اونٹوں کا ایسا کارواں پسو میں کہاں سے آیا؟ یا اس جیسے دیگر سوالات تو اپنی جگہ، جبکہ میں نے اس چمتکاری تصویر کو دیکھ کر سر پکڑ لیا۔ کیونکہ کارواں کو پسو کونز کی تصویر میں اس بے دردی سے ٹھوکا گیا ہے کہ ایک عام بندہ بھی پہلی نظر میں پکار اٹھتا ہے ”فوٹوشاپ ای اوئے فوٹوشاپ ای“۔۔۔ اس تصویر میں ایڈیٹنگ کی بڑی فاش غلطیاں موجود ہیں۔ مثلاً حجم کے حساب سے اونٹ اپنے اردگرد کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ پہاڑوں پر اگر مشرق سے روشنی پڑ رہی ہے تو اونٹوں اور شتربانوں کا سورج مغرب میں پہنچ چکا ہے۔ میری نظر میں اس تصویر کا حال وہی ہے کہ جیسے کسی ریڑھی بان نے اپنی ریڑھی والی تصویر میں ایشوریا رائے کو ساتھ لا بیٹھایا۔ ایسی مزاحیہ تصویروں سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ ہر کوئی اپنا اپنا چاند اپنی اپنی ریڑھی پر بیٹھائے پھر رہا ہے اور سورج کی شعاعوں کی مت مار رہا ہے۔ خیر فوٹوگرافی کے بلاتکار والے ایسے معاملات عام بندہ بھی عموماً آسانی سے پہچان لیتا ہے جبکہ مدعا تو یہ ہے کہ اس چمتکار کو نہیں پہچانا تو نمائش کی انتظامیہ نے نہیں پہچانا اور نمائش بھی وہ کہ جس کا افتتاح شاہ محمود قریشی صاحب نے یورپی یونین کمیشن کی وائس پریزیڈنٹ صاحبہ کے ساتھ مل کر کیا۔ افتتاح اور نمائش دیکھنے کی بھی تصویریں بنیں اور وہی تصویریں پورپیئن ایکسٹرنل ایکشن سروس نے ٹویٹ بھی کر دیں۔ اس ٹویٹ میں اتفاق سے ایک تصویر وہ بھی تھی کہ جس میں شاہ صاحب اور وائس پریذیڈنٹ صاحبہ اُس چونا لگاتی تصویر کے عین سامنے ہیں۔
ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ مجھے اس چمتکاری فوٹوگرافر پر کوئی اعتراض نہیں۔ چاہے ان صاحب نے اپنے اناڑی پن کا مظاہرہ کیا، مگر ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے تئیں ڈیجیٹل آرٹ بنایا ہو۔ ویسے بھی کون جانے کہ انہوں نے وہ تصویر خود نمائش کے لئے پیش کی یا حسبِ معمول انتظامیہ نے خود ہی انٹرنیٹ سے اچک لی۔ خیر مسئلہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر سے وہ سیاح جو سیاحت کے واسطے پاکستان آنا چاہتے ہیں، اگر ان کی نظر اس چمتکاری تصویر پر پڑ گئی تو وہ پاکستان اور خاص طور پر پاکستانی فوٹوگرافرز کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ جب پاکستانی لینڈسکیپ کی ”خالص اور ملاوٹ سے پاک“ تصویریں موجود ہیں تو پھر ایسی چونا لگاتی تصویر کی بھلا کیونکر ضرورت پیش آئی؟ دنیا کیا سوچے گی کہ پاکستانیوں کا معیار ایسا ہے جو تصویریں جوڑ جوڑ کر اور بے ڈھنگے ڈیجیٹل آرٹ کا سہارا لے کر اپنی سیاحت کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ ویسے اس چمتکاری تصویر اور سونے پر سہاگہ وہ افسران کہ جنہوں نے ایسی تصویر کو سیاحت سے متعلقہ تصویری نمائش میں لگایا، ان سب نے مل کر فوٹوگرافی اور پاکستانی قدرتی مناظر کی ”آتمارول“ دی ہے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں