گزشتہ سے پیوستہ
جنوب میں پنجاب کا آخری ضلع رحیم یار خان اور اس کی آخری تحصیل صادق آباد اور اس میں موجود اک قصبہ بھونگ شریف اور وہاں بنی اک جامع مسجد۔ جہاں ہم اک جمعۃ المبارک کے دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب پہنچ گئے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اُدھر پہنچے ہی کیوں؟ الجواب:- بھونگ کی جامع مسجد دیکھنے۔ کیونکہ یہ تعمیرات کا اک شاہکار ہے۔۔۔
بہاولپور اسمبلی کے رکن اور اعزازی مجسٹریٹ رہنے والے سردار رئیس غازی محمد نے اپنے محل نما گھر کے ساتھ اس مسجد کی تعمیر 1932ء میں شروع کروائی اور تقریباً پچاس سال کے عرصہ میں یہ مسجد مکمل ہوئی۔ اتنا عرصہ لگنے کی مجھے دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس مسجد میں گل کاری، خطاطی و میناکاری وغیرہ کا نہایت باریک کام ہوا ہے، جو کہ پیسے کے ساتھ ساتھ وقت طلب بھی ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ لگتی ہے کہ مسجد بنتے ہوئے اٹھارہ سال ہو چکے تھے، تب سیم کا ایسا مسئلہ سامنے آیا کہ جس سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ یوں تب تک جتنی بھی تعمیر ہوئی تھی، اسے گرا دیا گیا اور نئے سرے سے بیس فٹ اونچا چبوترہ بنا کر اس پر تعمیر شروع ہوئی۔ دورانِ تعمیر 1975ء میں سردار رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا، اور پھر ان کے بیٹے رئیس شبیر محمد نے تعمیر جاری رکھی۔ 1982ء میں جب یہ مسجد مکمل ہوئی تو خوبصورت و منفرد عمارت ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ تب سے اب تک دور دراز سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ منفرد طرزِ تعمیر کی بنا پر 1986ء میں اس مسجد کو تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2004ء میں اس کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ سیاحت کے فروغ کے لئے حکومتِ پنجاب اسے ثقافتی ورثہ قرار دے چکی ہے۔۔۔
اگر اجازت ہو تو یہاں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ درخت لگانا صرف اچھا عمل ہی نہیں بلکہ میری نظر میں عبادت ہے۔ لیکن عبادت کرتے ہوئے مقام کا خیال بھی تو رکھنا چاہیئے کہ کہاں عبادت کرنے بیٹھ رہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ مسجد کے ارد گرد لگے اونچے اونچے درخت بعد میں لگائے گئے ہوں گے۔ جنہوں نے نہ صرف فواروں سے آراستہ لان کی خوبصورتی کو متاثر کر رکھا ہے، بلکہ ان بے ترتیب و بے ڈھنگے لگے درختوں نے مسجد کا سارا حسن ہی چھپا رکھا ہے۔ یوں تو مسجد کے اردگرد وسیع جگہ ہے مگر غیر مناسب درختوں کی وجہ سے تنگ مقام معلوم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہیئے۔
بہرحال جامع مسجد بھونگ کی تعمیر کے لئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر کئی ممالک سے رنگ رنگ کا پتھر منگوایا گیا۔ جن کی کاٹ تراش کر کے خوبصورت پھول بوٹے بنائے گئے۔ پتھر کے ساتھ ساتھ صندل کی لکڑی اور ہاتھی دانت کا نفیس و باریک کام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بلکہ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لئے پاکستان و ہندوستان بھر سے کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لئے باقاعدہ کوئی نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ بلکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں ایک خاکہ سا تھا اور اسی کے مطابق تعمیر کرواتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب رئیس غازی محمد بیرونِ ممالک جاتے تو اُدھر کی مساجد کا بغور جائزہ لیتے اور جو چیز پسند آتی اسے بھونگ مسجد میں شامل کر لیتے۔ یوں کئی دفعہ بعض حصوں کی دوبارہ تعمیر کرنی پڑی۔۔۔ اس مسجد کا مرکزی دروازہ مشہد میں مزارِ حضرت امام رضا کے دروازے جیسا ہے۔ یہاں بیک وقت تقریباً دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اور بھونگ مسجد واقعی دلکش، دیدہ زیب، خوبصورت اور لاجواب ہے۔۔۔
ہم مسجد کی فوٹوگرافی میں اس قدر مگن تھے کہ پتہ ہی نہ چلا اور نمازِ جمعہ کا وقت قریب آ گیا۔ نمازی تشریف لانا شروع ہو چکے تھے، مگر ہم اپنے کام میں لگے رہے۔ کیونکہ ساتھ ساتھ ماحول کا بڑے غور سے جائزہ بھی لے رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ نمازیوں کی ہم پر کوئی توجہ نہ تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے اور غالباً مقامی نمازی لوگ، سیاحوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بیگ پہنے، کیمرے پکڑے اور تصویریں بناتے سیاحوں پر وہ کوئی خاص توجہ نہیں دیتے۔ لہٰذا باقاعدہ خطبہ شروع ہونے تک، ہم بے فکر ہو کر اور شرمائے بغیر فوٹوگرافی کرتے رہے۔ لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں، جب میں نے سیلفی بنائی تو مجھے اپنی یہ حرکت عجیب لگی۔ حالانکہ یہ کوئی بری بات نہ تھی اور معمول کے مطابق کسی نے اس حرکت پر توجہ بھی نہ دی لیکن اپنے تئیں مجھے بڑی شرم آئی۔۔۔
اگلا حصہ : بھونگ مندر، پتن منارہ اور ہندو برادری
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں