جوان لڑکیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ایک تاریخی مقام کے پارک میں تفریح کے لئے آئی ہوئی تھیں۔ کچھ دور درختوں کی اوٹ میں لونڈے لپاٹے کیمرے کو ٹیلی فوٹو لینز لگائے بیٹھے تھے۔ وہ اپنے تئیں چھپ چھپ کر اور زوم کر کر کے لڑکیوں کی چوری چوری تصویریں بنا رہے تھے۔ اس فیملی کو کسی طرح پتہ چل گیا اور ان کے مرد حضرات نے لونڈوں کو جا لیا۔ پھر دے مار ساڑھے چار۔ لوگ جمع ہو گئے، پارک کی انتظامیہ بھی پہنچ گئی اور آخرکار لونڈوں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔۔۔ پارک میں ایسے معاملات یعنی لڑکیوں کی چوری چوری تصویریں بنانے اور اس پر لڑائی کے واقعات پہلے بھی ہو چکے تھے۔ آئے روز کے ان سیاپوں سے انتظامیہ تنگ آ چکی تھی۔ روک تھام کے لئے جب ان سے کچھ نہ بن پڑا تو پارک میں کیمرہ ہی ممنوع کر دیا۔ ”ہن آرام جے؟“
ایک دوسرے پارک کا واقعہ ہے کہ جھاڑیوں میں کیمرہ چھپا کر کچھ لڑکے پرینک (Prank) شوٹ کر رہے تھے۔ کئی لوگوں کو تنگ کیا اور پھر ایک لڑکی کو شدید زچ کیا۔ لڑکی غصے میں آئی تو ”پرینکیا“ ہنستے ہوئے بولا کہ غصہ نہ کریں، ہم پرینک کر رہے تھے۔ وہ، اس طرف جھاڑیوں میں کیمرہ لگا ہوا ہے۔ کیمرے کی طرف ذرا ہاتھ ہلا دیں۔ اگلی بھی کوئی گئی گزری نہیں تھی بلکہ اس دبنگ لڑکی نے کیمرے کی طرف ہاتھ ہلانے کی بجائے ”پرینکئیے“ کے منہ پر ہاتھ جڑ دیا۔ منہ سہلاتے ہوئے پرینکیا بولا ”معافی دے دیں، میں ویڈیو ڈیلیٹ کر دیتا ہوں“۔ لڑکی چیختے ہوئے بولی ”ویڈیو ڈیلیٹ تو بعد میں ہو گی، پہلے تم اس بات کا جواب دو کہ بغیر اجازت تم نے میری ویڈیو بنانے کی جرأت کیسے کی؟ اور ڈیلیٹ کا جھانسا کسی اور کو دینا۔ میں جانتی ہوں کہ ڈیلیٹ فائل بھی ریکور ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی ٹیکنالوجی جہاں پہنچی ہوئی ہے، کیا معلوم اتنی دیر میں کہاں کہاں اس ویڈیو کا بیک اپ بن چکا ہو“۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ لڑکی نے شور مچا کر لوگ اکٹھے کر لئے۔ لوگوں نے پرینکئیے کی خوب دھلائی کی۔ پارک کی انتظامیہ بھی آن پہنچی اور پھر وہی کہ پرینکیا اپنی لونڈوں لپاٹوں کی ٹیم کے ہمراہ حوالات کے درشن کرنے چل دیا۔۔۔ اور یہاں بھی انتظامیہ فوٹو و ویڈیو گرافی کے ایسے واقعات سے عاجز آ چکی تھی۔ گویا یہاں بھی کوئی حل نکالنے کی بجائے سیدھا سیدھا کیمرہ(ڈی ایس ایل آر) ہی بین کر دیا گیا۔
صرف یہ دو واقعات ہی نہیں، بلکہ کیمرے کے حوالے سے ایسے بہت سارے واقعات ہو چکے ہیں اور بعض واقعات میں تو فوٹوگرافر اپنی جان سے بھی گیا۔ مثلاً شوخی کے چکروں میں پہاڑوں یا بلند عمارتوں کے بالکل کنارے پر ہو کر تصویریں بناتے ہوئے نیچے گر گئے، برفانی تودے کے نیچے گھس کر سیلفیاں بناتے برف میں دب گئے اور ریل کی پٹری پر تیز رفتار ریل کے قریب تصویر بناتے ہوئے بھی کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں پرینک کے دوران مارے گئے لڑکے کی خبر تو اکثریت نے سن رکھی ہو گی۔ ویسے یہ پرینک بھی عجب ہی پھڈا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کل کو ڈاکو بھی اس کا سہارا لیں گے۔ یعنی لوگوں کو لوٹیں گے اور اگر پکڑے گئے تو بولیں گے کہ وہ دیکھیں کیمرہ لگا ہوا ہے۔ ہم تو پرینک کر رہے تھے۔۔۔ خیر کئی لوگوں کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کی وجہ سے مختلف پارکس اور سیاحتی مقامات وغیرہ پر دن بدن کیمرہ بین ہوتا جا رہا ہے۔ اور ہم جیسے یعنی فطرت، سیاحتی مقامات اور تاریخی عمارتوں کی سیدھی سادی فوٹو گرافی کرنے والے تو مفت میں رگڑے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی کچھ نام نہاد میڈیا رپورٹرز نے کیمرے کو بدنام کر دیا ہوا تھا اور اب رہی سہی کسر لونڈے لپاٹے اور کئی ”بزرگ پاٹے“ نکال رہے ہیں۔ اگر یہ سیاپے ایسے ہی چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب لوگ کیمرے کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا کریں گے اور اکثر مقامات پر فوٹو اور ویڈیو گرافی ممنوع ہو چکی ہو گی۔
یہ تو تھے کیمرے والوں کے چند کرتوت، جبکہ دوسری طرف انتظامیہ اور سرکار آج بھی ”انیس سو پتھر“ کے زمانے میں ہی جی رہی ہے۔ فوٹو اور ویڈیو گرافی کے حوالے سے وطنِ عزیز میں کوئی ”واضح قانون“ سرے سے ہے ہی نہیں۔ جہاں جس ادارے کا دل کرتا ہے، فوٹوگرافی ممنوع قرار دے دیتا ہے۔ مزید مثال ڈرون کیمرے کی ہی لے لیجئے۔ ڈرونز مارکیٹ میں بک رہے ہیں، لوگ اڑا رہے ہیں مگر جیسا کہ باقی ممالک میں ڈرون کے متعلق باقاعدہ قانون اور رجسٹریشن وغیرہ ہوتی ہے، یہاں ایسا کچھ نہیں۔ آپ قانونی طور پر باہر کے ممالک سے ڈرون کیمرہ نہیں لا سکتے۔ اگر لائیں تو ایئرپورٹ وغیرہ پر ادارے ضبط کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے فلاں وزارت سے این او سی لاؤ۔ جب آپ این او سی لینے جاتے ہیں تو اگلے کہتے ہیں کہ ہم تو ایسا کوئی پرزہ شائع ہی نہیں کرتے۔ یوں آپ کئی اداروں اور وزارتوں کے درمیان شٹل بن کر رہ جاتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا ڈرون سرکار کے بچے اڑاتے ہیں یا ڈرون ”اُڑتا اُڑتا“ مارکیٹ میں بکنے کے لئے پہنچ جاتا ہے۔ البتہ اگر آپ کا ”پاوا تگڑا“ ہو تو پھر کہاں کا قانون، کیسا قاعدہ۔۔۔ ایسے ہی مختلف مقامات پر فوٹوگرافی کا حال ہے۔ اس پر مزید ایک واقعہ سناتا ہوں کہ چناب کنارے ایک جگہ برطانوی راج کی ریل کی پٹری ہے۔ جو کہ کسی زمانے میں دریا کا بند بنانے کے واسطے پتھر لانے کے لئے بچھائی گئی تھی اور اب استعمال نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ میں اس کی فوٹوگرافی کر رہا تھا کہ رہ گزرتے دو پولیس والے رُکے اور تفتیش شروع کر دی۔ المختصر: میں نے بہت کہا کہ کس جگہ اور کس قانون میں لکھا ہے کہ اس متروک پٹری کی تصویر نہیں بنا سکتے؟ اور یہاں تو انتباہ(وارننگ) کا کوئی بورڈ بھی نہیں۔ مگر ان کی ایک ہی رٹ کہ بس نہیں بنا سکتے۔ خیر وہ تو کیمرہ ضبط کرنا چاہتے تھے مگر بحث مباحثے کے بعد تصاویر ڈیلیٹ کرنے کی شرط پر جان چھوٹی۔۔۔
پچھلے دنوں نئی بننے والی ایک شاہراہ کی ویڈیو گرافی کرنی چاہی۔ حالانکہ اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن ”پابندستان“ میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ایویں کوئی ”یرلُو ملازم“ تنگ نہ کرے۔ لہٰذا مختلف اداروں جیسے موٹر وے پولیس اور محکمہ شاہرات سے اس متعلق جانکاری لینے چل دیا کہ آیا کسی شاہراہ کی ویڈیو گرافی کا کوئی قانون ہے یا نہیں اور کیا اجازت لینی ہوتی ہے یا نہیں؟ محکمے والے پہلے تو حیران ہوئے، پھر پریشان ہوئے اور پھر ہنسے اور بولے ”ہمیں آج تک ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ تم پہلے بندے ہو کہ جس نے اس متعلق پوچھا۔ ورنہ لوگ تو بغیر پوچھے دے دنا دن۔۔۔ جاؤ بھئی ہماری طرف سے موج کرو اور بناؤ جو بنانا ہے۔ موقع پر اگر کسی نے منع کیا تو بھگت لینا“۔ گویا موقع پر خاطر مدارت کرانا۔ خیر میں چل دیا۔ اس شاہراہ کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا اور شروع میں ٹال پلازہ کے قریب کئی لوگ کھڑے سیلفیاں بنا رہے تھے۔ مگر میں نے احتیاطاً موقع پر موجود انتظامیہ سے پوچھنا مناسب سمجھا۔ اور یہی میری غلطی ٹھہری۔ انکوائری شروع ہو گئی کہ کیوں، کس لئے اور کیسے؟ شناختی کارڈ دکھاؤ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تنگ آ کر کہا کہ وہ اتنے لوگ بھی تو تصویریں بنا رہے ہیں۔ کیا انہوں نے اجازت لی؟ جواب آیا کہ ان کو چھوڑو۔ تم اپنی کہو۔۔۔ بس جی حقیقت یہ تھی کہ قانون کا خیال رکھنے اور اجازت لینے کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ ورنہ باقیوں کی طرح میں بھی اپنے منہ تصویریں بنا لیتا تو کسی نے نہیں پوچھنا تھا۔ جیسا کہ ”سن ڈوڈھ“ کے قانون کے مطابق اکثر پُلوں پر ”فوٹوگرافی ممنوع“ کا بورڈ آویزاں ہونے کے باوجود اسے کوئی خاطر میں نہیں لاتا اور تصویریں بنانے والوں کو کوئی روکتا بھی نہیں۔ لیکن اگر آپ انتظامیہ سے اجازت لینے جاؤ تو لگ پتہ جائے۔۔۔ ویسے بندہ پوچھے کہ آج جب گوگل میپس وغیرہ کی صورت میں سٹیلائیٹ امیجز ہر بندے کے پوروں پر ہیں، ایسے ایسے جدید آلات آ چکے ہیں کہ ”کوہ میل“ دور بیٹھ کر پُل کی تصویر بن سکتی ہے یا چلتی گاڑی میں پُل کی ”ایچی بیچی“ ریکارڈ ہو سکتی ہے تو ایسے میں سن ڈوڈھ کے قانون میں ترمیم کر کے لوگوں کی جان آسان کیوں نہیں کرتے۔۔۔
بہرحال ایک طرف بندر کے ہاتھ ماچس آنے کے مصداق غیر ذمہ داروں اور لونڈے لپاٹوں کے ہاتھ کیمرہ آنے سے ”جنگل“ میں آگ لگ رہی ہے تو دوسری طرف وہ انتظامیہ کہ جس پاس ہر چیز کا ایک ہی حل ”پابندی“۔ اور تیسری طرف کیمرے اور فوٹوگرافی کے متعلق واضح قانون ہی نہیں اور چوتھی طرف سرکاری اہلکاروں کا حال یہ ہے کہ وہ کیمرے کے معصوم سے ٹرائی پاڈ کو بھی سنائپر(بندوق) کے سٹینڈ کے کھاتے میں شمار کرتے ہیں۔ پانچویں طرف مجھ جیسے قانون کی پاسداری کرنے والے ”ڈرپوک و شرمیلے“ فوٹوگرافر کہ جو کہیں بھی تصویر بناتے ہوئے ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں دھر نہ لئے جائیں۔ آ جا کر چھٹی طرف یعنی آسمان کی طرف والے کے آسرے پر ہیں کہ جو آسانیاں پیدا فرماتا ہے۔ ورنہ یہاں تو روزِ اول سے ہی سب کچھ خطرے میں چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے وطنِ عزیز تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اور ایسی صورت میں فوٹوگرافرز اور فوٹوگرافی کو درپیش مسائل کی طرف توجہ بھلا کون دے۔ ویسے پوچھنا تھا کہ پچھلے دنوں وزیرِاعظم صاحب کے ساتھ ولاگر و بلاگرز کی جو میٹنگ ہوئی، اس میں کسی نے ایسا کوئی مدعا کیا وزیرِاعظم کے سامنے رکھا؟ یا پھر تگڑے پاوے والے اپنا پاوا مزید تگڑا کر کے ہی گھروں کو لوٹ گئے؟
محترم بلال صاحب
السلام علیکم
بہت خوبصورت تصویر ہے۔۔۔ اللہ بدنظروں کی نظر سے آپ کو محفوظ رکھےآپکےشوق سے ہمارے ذوق کی تکمیل ہوتی ہے۔۔۔ اگر تکلیف نہ ہو توآپکا بنایا ہوا اردو کی بورڈ بھجوادیں۔۔۔ مہربانی، عنایت، شکریہ ۔۔۔ خوش رہیں آباد رہیں ۔۔۔ آمین یا رب العالمین
حمیدالرحمن
حیدرآبار دکن
انڈیا