جوگی نے ایک میلے خوبصورت دیوی کو دیکھا تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اگر ایک طرف رانجھا عشق میں ناکامی کے بعد جوگی بنتا ہے تو دوسری طرف کوئی جوگی واپس پلٹا بھی کھا سکتا ہے۔ لہٰذا جوگیوں سے بچ کے رہنا۔۔۔ بہرحال جوگی کو دیوی سے محبت ہوئی اور جب اسے زیر کرنا چاہا تو دیوی اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے بھاگی اور ایک پہاڑ کی غار میں جا پناہ لی۔ اس تصویر کے درمیان میں آپ کو وہی ”تری کوٹہ“ یعنی تین چوٹیوں والا پہاڑ نظر آ رہا ہے۔ یہ تصویر میں نے سرحد کے پار بہت دوری سے بنائی ہے۔ پہاڑ دکھتا چہرہ، اس تصویر اور جوگی کی مکمل کہانی یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
جانو! چلو منظرباز کے تالاب پر نہانے اور پارٹی میں چلیں۔۔۔ نہیں رہنے دو۔ کیا معلوم وہ بھی شکاری ہو اور ہمیں تالاب کا سہانا جھانسا دے کر شکار کر جائے۔۔۔ ارے نہیں نہیں۔ اب وہ ایسا نہیں۔ اس نے ہمارے آرام و سکون کے لئے ہی اتنی محنت سے تالاب بنایا ہے اور اس کا دعوت نامہ بھی آیا ہے۔ نہ جانا اچھا نہیں لگے گا۔ تالاب پارٹی میں باقی کئی پرندے بھی آ رہے ہیں۔ خوب ہلہ گلہ ہو گا۔ نہائیں گے، ناچیں گے، گائیں گے۔۔۔ ویسے کیا کبھی کسی آزاد پنچھی اور جنگلی جانور کو اپنی موج مستی میں اڑتے، گھومتے پھرتے اور چہچاتے دیکھا ہے؟ دیکھنا اور جائزہ لینا۔ تم پر فطرت کے بڑے راز یوں آشکار ہوں گے کہ← مزید پڑھیے
غروب ہوتے سورج کی آخری کرنیں ہمالیہ کے پیرپنجال سلسلے پر پڑ رہی تھیں اور میں فطرت کی تجربہ گاہ میں کیمرہ لگائے سیکھ رہا تھا۔ گویا مظاہرِ قدرت استاد تھے اور میں شاگرد۔ ویسے میں تو ہمیشہ سے ہی شاگرد ہوں۔ بابا جی نے کہا تھا کہ پُتر اگر آگے سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو کم از کم سیکھنے کے معاملے میں انا کو مار دینا اور ہمیشہ شاگرد بن کر رہنا، علم کے آگے سر جھکائے رکھنا۔ بس جی! اسی لئے آج تک طفلِ مکتب ہی ہوں اور کسی کو اپنا شاگرد نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ وہ ایک کہاوت ہے کہ بکری کے بچے جب جوان ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی ماں پر ہی ”ٹپوشیاں“ لگانے لگتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کچھ شاگرد بھی اپنے استاد پر چڑھ کر← مزید پڑھیے
زندگی کی کیسی خوبصورتی ہے کہ ہم مرنے کے بعد بھی کسی کیڑے کی خوراک، کسی درخت کی شاخ، کسی پھول کی پتی بن کر زندہ رہیں گے۔ یہ بات کرنے والا ہمارا پیارے دوست بھی اسی سال بچھڑا اور ہمیں روتا چھوڑ گیا۔ ہمارے لئے اس سال 2020ء کا آغاز بہت دل دہلا دینے والا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ دن مشکل تو تھے مگر ہم دیہاتیوں کے لئے ویسے ہرگز نہیں تھے کہ جیسے شہری لوگوں کے لئے تھے۔ کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے لئے لہلہاتیں فصلیں اور قریب ہی بہتا چناب۔ اور پھر وہ جو گاؤں ویران کر کے شہروں میں جا بسے تھے، وہ بھی وبا کے ڈر سے بھاگے تو← مزید پڑھیے
اس اذیت ناک رات کے دو بج رہے تھے کہ جب میں کمرے میں گیا، کیمرہ وغیرہ اٹھایا اور واپس چھت پر پہنچا۔ تصویر میں دائیں ہاتھ والے گھر پر میں نے خود ٹارچ سے روشنی پھینکی۔ ویسے کسی کے گھر پر یوں روشنی مارنا میری نظر میں غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن یہ گھر نہیں بلکہ صرف مکان ہے۔ اکثر ایسے مکانوں کو دیکھ کر گنگناتا ہوں کہ ”تھیں جن کے دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے … ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا“۔ خیر یہ تو بات تھی فوٹوگرافی، گھر اور مکان کی۔ جبکہ اصل کہانی اس شعر میں ہے ”کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں … گردش میں تارے رہیں گے سدا“ جاتے جاتے آخر پر آپ سب کو بتانا بس یہ چاہتا ہوں کہ← مزید پڑھیے