اس مقام سے بہت اوپر ”پنج آب“ نے عشق کی معراج پائی اور اپنا آپ سندھو ندی میں فنا کر دیا۔۔۔ کسی کو محبوب نہر والے پُل پر بلاتے ہیں تو مجھے خود پُلوں نے ہی بلا رکھا تھا۔۔۔ وہ جس کے عشق میں راوی و چناب فنا ہوئے، اسی دریائے سندھ کے اک کنارے تاریک رات میں جیسے تیسے پہنچا۔ سامنے ہی ایوب اور لینس ڈاؤن پل سکھر روہڑی تھا۔ مگر میرے ارد گرد غضب کی تنہائی تھی۔ کچھ کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر کوئی بندہ آ گیا تو مجھے یہ سب کرتا دیکھ کر یقیناً شک کرے گا۔ اس لئے جلدی جلدی اپنا کام کرتا رہا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اچانک سے ایک بندے نے مجھے← مزید پڑھیے
زندگی کی کیسی خوبصورتی ہے کہ ہم مرنے کے بعد بھی کسی کیڑے کی خوراک، کسی درخت کی شاخ، کسی پھول کی پتی بن کر زندہ رہیں گے۔ یہ بات کرنے والا ہمارا پیارے دوست بھی اسی سال بچھڑا اور ہمیں روتا چھوڑ گیا۔ ہمارے لئے اس سال 2020ء کا آغاز بہت دل دہلا دینے والا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ دن مشکل تو تھے مگر ہم دیہاتیوں کے لئے ویسے ہرگز نہیں تھے کہ جیسے شہری لوگوں کے لئے تھے۔ کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے لئے لہلہاتیں فصلیں اور قریب ہی بہتا چناب۔ اور پھر وہ جو گاؤں ویران کر کے شہروں میں جا بسے تھے، وہ بھی وبا کے ڈر سے بھاگے تو← مزید پڑھیے
میرے لئے سیاحت صرف سیروتفریح اور فوٹوگرافی صرف تصویروں کا نام نہیں، بلکہ بات اس سے آگے کی ہے۔۔۔ اور اس کے لئے جو راستہ اپنایا ہے اس پر چلتے ہوئے ایک ایک لمحہ مجھے خوشی دیتا ہے۔ میں اس میدان میں اس لئے نہیں کہ مجھے کچھ ثابت کر کے کسی کو دکھانا ہے۔ مجھے تو بس اس منظربازی کے ذریعے ایسا عرق کشید کرنا ہے کہ جو روح کو تازہ دم اور زندگی کو سرشار کر دے۔ لہٰذا گزارش فقط اتنی سی ہے کہ مجھے اپنا مدِ مقابل (حریف) ہرگز نہ سمجھیئے۔ کیونکہ میں ایسی کسی دوڑ کا بندہ سرے سے ہوں ہی نہیں۔ مجھے کچھ ثابت نہیں کرنا، مجھے کوئی ریکارڈ نہیں بنانا اور آپ کی ان لڑائیوں← مزید پڑھیے
لذیذ کھانوں نے ٹلہ جوگیاں کے جنگل میں صرف منگل ہی نہیں بلکہ بدھ جمعرات بھی کر دیا۔ اونٹ اور گدھے گھوڑوں نے مل کھایا۔ تاروں سے بھرے آسمان تلے، الاؤ جلے۔ لیکن اکثر احباب الاؤ جلانے سے کترانے لگے۔ خیر ٹلہ ہو، تاروں بھرا آسمان ہو اور الاؤ نہ جلے، رات کی ایسی بے حرمتی کم از کم اپنی برداشت سے باہر ہے۔ آخر جنگل سے لکڑیاں لینے گیا اور میں تو خیر خیریت سے واپس آ گیا لیکن پھر کچھ لوگ گھپ اندھیرے میں جنگل کی طرف ”گھوسٹ ہنٹنگ“ کے لئے چلے۔ چلتے چلتے میں انہیں جنگل میں ایک کنویں تک لے گیا، جس کے اندر ہڈیوں کا ڈھیر تھا اور پھر ← مزید پڑھیے
او میری جان دے ٹوٹے! تم “مرکھائی“ سے چھلانگ لگا کر خودکشی نہ کرنا۔ وہ کیا ہے کہ ”مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“۔ ویسے بھی ہم جو تیری یاد میں مرے جا رہے ہیں، وہ کیا کم ہے؟ اب تم بھی مر کر کیا ہماری دنیا ویران کرو گے؟ چل چھوڑ! ٹلہ ٹاپ پر چلتے ہیں۔۔۔ لو جی پہنچ گئے۔ اب بس جلدی جلدی خیمے لگاؤ اور ان میں سامان رکھو۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ پہلے مقامِ غروب پر جا کر غروبِ آفتاب کا نظارہ تو کر لیں۔۔۔ ویسے کیا تمہیں خوف کے اُس پار جانا ہے؟ فطرت کو روح تک سمانا ہے؟ اور اپنے اندر دیا جلانا ہے؟ تو کبھی یہاں چپ چاپ بیٹھ کر غروبِ آفتاب کا نظارہ کرنا اور کسی جوگی منظرباز کی طرح← مزید پڑھیے