بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر← مزید پڑھیے
اے سالِ رفتہ مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں۔ مگر جب تک سانسیں ہیں، میں تمہیں کبھی نہ بھولوں گا۔ تیری وہ اک شام بھی نہ بھولوں گا کہ جب میری امی جان اس دنیا سے چلی گئیں۔ اس واقعہ نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ بلکہ میرے لئے زندگی موت اور رشتوں ناتوں کے معنی ہی بدل گئے۔ سال 2019ء کے آغاز پر بہت کچھ سوچا تھا۔ سیاحت کے حوالے سے بھی کئی پلان تھے لیکن پھر دماغ کے تانے بانے ایسے بکھرے کہ دوستوں کو کہا یارو! مجھے معاف رکھو۔ خیر ان احباب کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے مشکل میں مزید مشکلات بڑھائیں اور خلوص کی واٹ لگائی۔ اور وہ احباب ہیں← مزید پڑھیے
ان جوگیوں کی محبت، عزت اور حوصلہ افزائی نے ایک دفعہ تو منظرباز کو تقریباً رُلا ہی دیا تھا۔ ویسے میں جس معاشرے کا حصہ ہوں یہاں باتیں سمجھ آئیں نہ آئیں مگر لوگ فتوے لگائیں، سولی چڑھائیں۔ خیر جو بھی ہو مگر ٹلہ جوگیاں کی مثبت توانائیاں ہم پر مہربان ہیں۔ بے شک ہم جوگی ہوئے نہ رانجھے۔ لیکن جب جب ٹلہ گئے، ہمارے کاسے میں جوگ ضرور ڈالا گیا۔ جام لبریز نہ سہی مگر چند بوندیں ضرور ٹپکائی گئیں۔ چند گتھیاں سلجھیں تو کبھی ہم نے خوف کے اُس پار جھانکا۔ کبھی ٹلہ کی چاندنی رات میں نور کے کرشمے دیکھے تو کبھی غروبِ آفتاب۔ فوٹوگرافی کی اس سے بڑی خوش نصیبی بھلا اور کیا ہو گی کہ← مزید پڑھیے
ریچھ صاحب نے مسٹر مارموٹ کو تصویر بنانے کا کہا نہ مارموٹ نے ریچھ کو، لیکن لیپرڈ اور عقاب سمیت سبھی ایک دوسرے کی تصویریں بناتے پائے گئے۔ آخر جانور بھی انسان ہوتا ہے۔ خیر مزہ اسی میں ہے کہ کسی سفر پر دو فوٹوگرافر دوست ایک ساتھ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو اور پورے گروپ میں ایک ہی فوٹوگرافر ہو تو پھر کئی نیم فوٹوگرافر چِکنے اور چکنیاں اس کی مت مار دیتے ہیں۔ باقیوں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافر کو اپنی منہ فوٹو بنوانے کے لئے پورا لیکچر دینا پڑتا ہے۔ اس پر کئی لوگ غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایڈا توں فوٹوگرافر۔ اور بعض صاحبیاں تو اس حد تک غصہ کرتی ہیں کہ← مزید پڑھیے
جنگلی جانور انسان سے ڈرتے ہیں، لیکن جب مدبھیڑ ہو جائے تو وہ انسان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ درندہ تو پھر درندہ ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنی آئی پر آتا ہے تو انسان کو بھاگنے کا موقع نہیں دیتا اور چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب ایک دفعہ کوئی درندہ انسانی خون چکھ لے تو پھر وہ آدم خور ہو جاتا ہے اور انسان کو آسان شکار سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم دیوسائی میں ریچھوں کی تلاش کو نکلے، مگر دعائیں بھی کرتے کہ ریچھ مل تو جائے لیکن اس انداز سے کہ ہم اسے دیکھ لیں، تصویریں بنا لیں اور وہ اتنا قریب بھی نہ ہو کہ ہم پر حملہ کر دے۔ آخرکار واقعی ہمارا ریچھ سے سامنا ہو گیا اور پھر ہماری دوڑیں← مزید پڑھیے