محفوظات برائے ”معاشرہ“ زمرہ ( صفحہ نمبر 14 )
سارا معاملہ بالکل صاف ہے۔ اسلحہ اور اسلحہ لائسنس کا ریکارڈ بھی موجود ہے، ڈاکخانہ میں اندراج اورتمام اسلحہ لائسنسوں کی ڈاکخانہ سے ایک یا دو بار تجدید فیس کے ساتھ ہو چکی ہے۔ بس اسلحہ لائسنس بنواتے ہوئے جو فیس تھی وہ اسلحہ برانچ کا عملہ خود کھا گیا تھا اور اسی بات کو لے کر حکومت نے شریف شہریوں کے لائسنس منسوخ کر دیئے ہیں اور ان کا اسلحہ ضبط کر رہی ہے۔
ایک لمحہ کے لئے مان لیتے ہیں کہ اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے والا قدم بالکل ٹھیک ہے تو کوئی ان تیرہ ہزار کو بھی تو بتائے کہ ان کا پیسا جو سرکار کے ملازمین کھا گئے ہیں وہ کون واپس دلوائے گا؟ ڈاکخانہ سے لائسنس کی تجدید کے لئے جو فیس حکومت کو ادا کی گئی تھی، کیا حکومت وہ فیس واپس کرے گی؟ اسلحہ مال خانے جانے سے جو اسلحہ کی قیمت ہے وہ کون دے گا؟ کیا حکومت ان تیرہ ہزار کو اتنا وقت اور ساتھ دے سکتی ہے کہ وہ اسلحہ واپس اسلحہ ڈیلروں کو فروخت کر دیں؟ لیکن ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اگر اسلحہ واپس اسلحہ ڈیلروں کو فروخت کرنے کا کہا گیا تو اسلحہ ڈیلر بہت شور مچائیں گے اور شاید حکومت یہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بس عوام کو ہی دبا سکتی ہے۔ اگر حکومت کہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں بلکہ عوام نے خود ہی غلطی کی ہے تو پھر میرے سیدھے اور سا دے سے سوال ہیں کہ اسلحہ برانچ کس کی ہے؟ اسلحہ برانچ کا عملہ کس نے بھرتی کیا تھا؟ اتنا بڑا کام ہوتا رہا اور اسلحہ برانچ کے انچارج تک کو پتہ نہ چلا؟ اینٹی کرپشن والے کہاں تھے؟ تقریباً دو سال حکومت کہاں سو رہی تھی؟
”حاکمِ اعلیٰ “کیا اب ایسے حالات کو ٹھیک کرنا بھی عوام آپ کو سیکھائے گی؟
← مزید پڑھیے
کسی بھی معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار اور امن و امان رکھنے کے لئے حکومت سب سے پہلے معاشرے میں موجود جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کو دیکھتی ہے۔ پھر سیکیورٹی کتنی جلدی اور کتنی طاقت کے ساتھ پہنچ سکتی ہے اور پھر عام شہری کےلئے دفاع ذات کے سازوسامان جیسے اسلحہ وغیرہ کا انتخاب کرتی ہے اور عام شہری کو اس کی اجازت دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کم کرنے اور جرائم کو ختم کرنے پر کام کرتی ہے۔ جیسے جیسے جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کم ہوتی ہے ویسے ویسے قانون میں تبدیلی کر کے دفاع ذات کے سازوسامان میں بھی تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اس لئے آسانی سے ممکن ہوتی ہے کہ دفاع ذات کے لئے رکھا گیا اسلحہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہوتا ہے۔
← مزید پڑھیے
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لائسنس جعلی کیسے ہوے؟ لائسنس جاری ہوئے تو حکومتی ادارے سے ڈی سی او کی مہر و دستخط کے ساتھ سرکاری ملازمین کے ہاتھوں جاری ہوئے، پیسے کھائے تو سرکاری ملازمین نے کھائے۔ اب ایک عام شہری کو کیا پتہ اور پتہ چل بھی نہیں سکتا کہ اندر کھاتے سرکاری ملازمین کیا گل کھلا رہے ہیں۔ عام شہری تو اپنے جان و مال کی حفاظت کے لئے اسلحہ کا لائسنس بنوانے سرکاری دفتر جاتا ہے، فیس ادا کرتا ہے اور لائسنس حاصل کرتا ہے۔ بعد میں حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہم آپ کے لائسنس منسوخ کرتے ہیں کیونکہ ہم نے جو بندے لائسنس بنانے کے لئے رکھے ہوئے تھے وہ دھوکے باز نکلے اور پیسے کھا گئے ہیں۔ کوئی ان پندرہ ہزار لوگوں کو بتائے کہ ان کا اس میں کیا قصور ہے؟
← مزید پڑھیے
آپ خود سوچو! ان خراب حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے یا نظام کی بہتری کے لئے ہم نے ان کا مقابلہ کرنے یا اچھائی کے لئے کیا کیا؟ ہم بڑی آسانی سے حکمرانوں کو قصوروار کہہ کر پھر اپنی دنیا میں مست ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا سوچو! یہی ہمارے حکمران جنہیں ہم نالائق کہتے ہیں لیکن وہ اپنے کام اور مقصد کے لئے ہم سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اب ان کا کام اور مقصد ہی برائی کرنا ہے تو وہ برائی کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کرتے۔ بچپن سے لے کر مرنے تک دشمن کے ڈر اور خوف میں رہتے ہیں۔ میڈیا سے بچتے بچاتے اپنا کام کرتے ہیں۔ کئی کئی سال جیلوں میں گذارتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے اپنے رشتہ داروں کو گنواتے ہیں۔سوچ سوچ کر پلان بناتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر میٹنگز کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے دن رات لوگوں سے ملتے ہیں۔ کسی کو توڑتے ہیں تو کسی کو اپنے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے انہوں نے ایک منظم گروہ تیار کر رکھا ہے۔ ایک مرتا ہے تو اس کا بیٹا، بیٹی یا دیگر کوئی وارث اس کی جگہ لے کر اپنے کام کو مزید آگے بڑھاتا ہے۔63 سال ہو گئے لیکن ان کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ اپنے جیسوں کا بڑا برا انجام دیکھ کر بھی ان کی ہمت میں کمی نہیں آئی۔ بے شک ان کا مقصد برائی ہے لیکن وہ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ضرور ہیں۔
← مزید پڑھیے
اکثر مثبت سوچ کی ترویج کے لئے ایک بات کی جاتی ہے کہ ”گلاس کو آدھا خالی نہ دیکھو بلکہ آدھا بھرا ہوا دیکھو“۔
جو لوگ مشکل سر پر ہو لیکن اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ایسے لوگوں کی ہمت بڑھانے اور مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے بلکہ اکثر تنقیدی انداز میں کہا جاتا ہے کہ ”بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا کسی مسئلے کا حل نہیں“۔
میں اکثر ان دونوں باتوں کی وجہ سے کافی ”کنفیوز“ ہو جاتا ہوں۔ جب کہیں پڑھتا یا سنتا ہوں کہ یہ ٹی وی اینکر، کالم نگار اور باقی لکھاری وغیرہ ملک کی خرابیاں ہی دیکھتے ہیں اور پھر دوسروں کو بتاتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ یہاں پھر وہی بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ واقعی گلاس کو آدھا خالی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے۔ کچھ دیر اسی پر اتفاق رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی جب یہ خیال آتا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا بھی تو کوئی سمجھداری نہیں تو پھر سوچتا ہوں، نہیں نہیں خرابیاں سب کے سامنے لائی جانی چاہئیں، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہمارے ملک میں کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں، عوام کو جگایا جائے اور بتایا جائے کہ غفلت کی نیند سے جاگو اور ہوش کرو۔
مزید اس تحریر میں مایوسی اور مثبت سوچ پر بالکل تھوڑی سی بات کرتا ہوں۔
← مزید پڑھیے