ہماری اکثریت پسِ پردہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ سب کو ہیرو بننے کا شوق ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت کام سمجھ جاتا ہے وہ پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ہماری ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کی مثال آپ کو عام زندگی سے لے کر انٹرنیٹ تک ہر جگہ ملے گی۔ عام زندگی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اور انٹرنیٹ پر میں اس کی مثال مختلف ویب سائیٹس اور فورمز کے ممبران سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھ لیں، اتنے ہمارے فورمز استعمال کرنے والے ممبر نہیں جتنے اب فورمز بن رہے ہیں۔ ذہانت کا ذخیرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بہت جگہوں پر بکھرا پڑا ہے۔ ہیرو بننے کے چکروں میں سب شروع سے پہیہ ایجاد کر رہے ہیں۔ کسی نے تھوڑا زیادہ کر لیا ہے اور کسی نے کم۔ اگر یہی کام ایک پلیٹ فارم پر ہوتا تو اب تک پہیہ تو کیا کئی قسم کی گاڑیاں بن جانی تھیں۔ جب ایک پلیٹ فارم سے کام زیادہ ہوتا تو پھر نیا منصوبہ بنایا جاتا اور نئے فورمز، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ کبھی غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک چھوٹی سی وضاحت کرتا جاؤں کہ سب کی بات نہیں کر رہا بلکہ اکثریت ایسی ہے۔ اگر مقصد اور منزل مختلف ہو پھر تو ظاہر ہے علیحدگی ہی بہتر ہے لیکن اگر مقصد ہو اچھا مسلمان بننے کی تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی مسجد کیوں بناتا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ ہاں تو کبھی آپ نے غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو میری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔ ← مزید پڑھیے
میری نظر میں ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرنی ہو گی کہ ہم کونسا کام اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں، جو ہماری فطرت کے مطابق بھی ہو اور وہ کام کرتے ہوئے ہمیں اچھا بھی لگے۔ یوں ہماری ایک منزل منتخب ہو جائے گی۔ پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں راستہ منتخب کرنا ہو گا اور پھر سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی ضروریات دیکھتے ہوئے اپنا سامان باندھنا ہو گا اور پھر اللہ کا نام لے کر سفر شروع۔ دوران سفر کئی لوگ ملیں گے، بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا، کئی جگہ پر تھکاوٹ کی وجہ سے پاؤں تھوڑے بہت رک بھی جائیں گے، بہت احتیاطی تدابیر کے باوجود کہیں ڈاکو سب کچھ لوٹ کر بھی لے جا سکتے ہیں اور اسی طرح کئی دیگر مشکلات بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کامیاب وہی ہو گا جس نے یہ سب ہونے کے باوجود چاہے آہستہ آہستہ ہی کیوں نہ سہی لیکن منزل کی طرف سفر جاری رکھا۔ فرض کریں اگر ہم منزل پر پہنچ گئے تو پھر آگے کیا ہو گا تو میں اس منزل کو کچھ اس طرح دیکھتا ہوں کہ ایک بار شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ یار اس پہاڑ کی دوسری طرف کیا ہے تو اس نے جواب دیا ”ایک اور پہاڑ“۔ ہماری منزل بھی کچھ ایسے ہی ہے کہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو شاید زندگی میں کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن کامیاب وہی انسان ہوتے ہیں جو منزل کی جانب سفر کرتے ہیں۔← مزید پڑھیے
سیانے کہتے ہیں کہ جو جس چیز کا ماسٹر ہو، اگر وہ وہی کام کرے گا تو خود بھی فائدے میں رہے گا اور باقی بھی اس کی وجہ سے سکھی رہیں گے۔ اگر کوئی ہیرو بننے کی کوشش میں ہر جگہ ٹانگ اڑائے گا تو اس کی اپنی ٹانگ تو ٹوٹے گی لیکن ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ اس لئے ہمیں اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرنی ہو گی اور وہی کام کرنا ہو گا جس کے لئے ہم بنائے گئے ہیں۔ جس طرح ہم سے پہلے لوگ اس دنیا کے سٹیج پر اپنا کردار ادا کر کے چلے گئے ہیں ویسے ہی ہم نے بھی← مزید پڑھیے
ایک زمانہ تھا جب لوگ صنم کو خط لکھتے اور جب خط مکمل لکھ لیتے تو دوبارہ پڑھتے تاکہ اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو درست کر لی جائے۔ لیکن اکثر یہی محسوس کرتے کہ یہ الفاظ اظہار محبت کے لئے بہتر نہیں۔ پھر کیا ہوتا، خط کو پھاڑ دیتے اور نیا خط لکھنے بیٹھ جاتے۔ یہی عمل کئی بار دہرایا جاتا اور جب دل اکتا جاتا تو سوچتے کہ سیدھی سیدھی بات لکھتے ہیں۔ اگر صنم کو پیار پر یقین آنا ہوا تو آ جائے گا، نہیں تو نہیں۔ آج میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔← مزید پڑھیے
اگر ہم اپنے آج کے حالات دیکھیں تو ہم بھی جنگ کی پوزیشن میں نہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم پہلے ترقی کریں۔ جب ہم ترقی کر جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے تو اول غیر مسلموں کو گستاخی کی جرأت ہی نہیں ہو گی اور اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہم منہ توڑ جواب دے سکیں گے۔ لیکن اس طرف کوئی نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہ کام یعنی مستقل مزاجی، ایمانداری، جذبے اور لگن کے ساتھ ترقی کرنا نعرے لگانے، جلوسوں میں اپنے ہی بھائیوں کے کاروبار تباہ کرنے اور ویب سائیٹ بلاک کرنے سے بہت مشکل ہے۔← مزید پڑھیے