محفوظات برائے ”معاشرہ“ زمرہ ( صفحہ نمبر 16 )
جب کسی سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیہات کو کم بجلی اور شہر کو زیادہ تو جواب ملتا ہے شہر میں انڈسٹری ہوتی ہے اور اگر اسے بجلی نہیں ملے گی تو انڈسٹری بند ہو جائے گی۔ شہری لوگ بجلی جانے اور گرمی لگنے پر گھر سے باہر نہیں نکل سکتے اس لئے ان کو بجلی زیادہ دی جاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اگر شہر کو بجلی صرف ان دو وجوہات کی بنا پر زیادہ دی جاتی ہے تو ہم دیہاتی مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں تو پھر کیا فصلوں کوآنسوؤں سے سیراب کریں؟ تیل کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں آ جا کر بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل سے کام چلایا تو بجلی بھی ”ٹھس“۔اگر انڈسٹری کے بغیر گزارہ نہیں تو زرعی ملک میں زراعت کے بغیر گزارہ کیسے ہو گا؟ میں مانتا ہوں انڈسٹری کے بغیر گزارہ نہیں لیکن کیا زراعت کے بغیر گزارہ ممکن ہے؟ کیا ہم دیہاتی گرمی لگنے پر باہر فصلوں میں جا بیٹھیں؟ کیا ہمارے بچوں کو گرمی نہیں لگتی؟ کیا ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہمارے بچے پنکھوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھ سکیں؟ کیا ہمیں سستی بجلی دیتے ہو جو ساری ساری رات بند رکھتے ہو؟کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ کیا ہمیں ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں؟ کیا ٹھنڈا پانی پینے سے ہمارے پیٹ خراب ہو جاتے ہیں؟اوئے بتاؤ ہمیں بتاؤ کیا ہم جانور ہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہم پاکستانی نہیں؟ سیاست دانو جواب دو تم کیسے پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کو صرف دیہاتی کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہو؟
← مزید پڑھیے
اللہ نہ کرے جب کسی انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ کئی لحاظ سے بے بس ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں انرجی کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی بُری طرح ٹوٹے ہوئے بھی ایک عرصہ ہونے کو ہے لیکن ہمارے حکمران کرسی بچانے کے چکر میں اس مرض کا علاج کرنے کی بجائے عام کو جھوٹے دلاسے اور جھوٹے سرکاری بیان دیتے رہتے ہیں۔ انہیں بیانات اور اشتہارات پر غریب عوام کا بے شمار پیسا لگا دیا گیا ہے۔ اگر یہی پیسا اپنی واہ واہ بنانے کی بجائے کسی کام پر لگایا جاتا تو آج ہمارے حالات بالکل ٹھیک نہ سہی لیکن کم از کم آج جیسے نہ ہوتے۔
ہمیں جھوٹے دلاسے دینے والے، ہمیں بجلی کم استعمال کرنے کا کہنے والے خود آرام سے عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے گھروں اور دفتروں میں بڑے بڑے جنریٹر اور یو پی ایس لگے ہیں۔ جو جہاں جائیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی چاہے وہ نتھیا گلی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ٹیکسوں اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ہمارے نوکر ہمیں ہی ذلت کی زندگی دے رہے ہیں۔
← مزید پڑھیے
یہ چھوٹی اور عام سی مثال اس لئے دی ہے کہ ہم عام لوگ ہیں اور ہمارا بس بھی ان عام اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر چلتا ہے۔ جب یہ عام لوگ ہی بڑے لوگ بنتے ہیں تو بس بھی بڑی بڑی باتوں پر چلتا ہے اور پھر کرپشن اور دیگر برائیاں بھی بڑی ہو جاتی ہیں۔ ہم میں اور صاحبِ اقتدار میں فرق صرف چھوٹے اور بڑے پیمانے کا ہے۔ ہمارے پیمانے میں تھوڑی شراب آتی ہے تو ہم تھوڑی پیتے ہیں اور صاحبِ اقتدار کے پیمانے میں زیادہ آتی ہے تو وہ زیادہ پیتا ہے۔ فرق صرف پیمانے کا ہے ورنہ ہم ہیں ایک جیسے ہی۔
← مزید پڑھیے
حکومت اور ان کے درباریوں سے صرف ہم یہ کہتے ہیں کہ اب وہ دور نہیں رہا کہ آپ نے جو کہا عوام نے چپ چاپ سن لیا اور پھر کچھ عرصہ بعد بھول گئے۔ اب میڈیا بہت تیز ہو چکا ہے اور ساتھ ساتھ عوام کے ذہن بھی کچھ کچھ کام کرنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے اب یہ سچے جھوٹے وعدوں اور باتوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔
← مزید پڑھیے
“بِلو” ابھی تک گھر میں ہی تھی کہ ایک دن سکول میں تفریح کے وقت ہمارا ایک دوست کچھ گنگنا رہا تھا جب غور کیا تو پتہ چلا کہ حضرت بِلو کے گھر جانے کی صدا لگا رہے ہیں۔ تھوڑی...
← مزید پڑھیے