لمبے انتظار کے بعد ایک دن دریائے چناب پر پُل بننا شروع ہوا۔ پل کے حفاظتی بند بنا کر جب کمپنی پل بنانے کے لئے دریا میں اتری تو حکومت بدل گئی۔ درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگانے کی قائل حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو منسوخ کر دیا۔ پل کا جو کچھ بنا ہوا تھا وہ ویسا ہی پڑا رہا اور من موجی دریا اسے آہستہ آہستہ بہا لے گیا۔ منصوبے کی فائل سردخانے میں پڑی رہی اور پھر ایک دن ”شریفِ لاہور“ کی میز پر پہنچی۔ یوں دوسری دفعہ اپنی نوعیت کا منفرد پل خشکی پر بننا شروع ہوا۔ بند باندھ کر دریا کو بند کر دیا گیا۔ پانی وسیع رقبے پر پھیل گیا۔ گندم کی تیار فصل برباد ہو گئی۔ اب اگر ہم ڈوبے ہیں تو صنم← مزید پڑھیے
بھلے زمانے کی بات ہے کہ خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے اور تب میڈیا پر ”رمضانی ٹرانسمیشن“ نہیں ہوتی تھی۔ روزہ کشائی کی بجائے افطاری ہوا کرتی تھی۔ ویسے ہم کوئی ”انیس سو پتھر“ کے زمانے کے بھی نہیں اور نہ ہی قائم علی شاہ صاحب ہمارے ہم جماعت تھے۔ ہمارا بچپن گزرے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ خیر ہمارے بچپن میں تو رمضان کی سب سے مزے کی چیز عید کارڈ اور تراویح ہوتی تھی۔ تراویح میں بچہ پارٹی خوب تفریح کیا کرتی۔ جیسا کہ ایک بچے نے حاجی صاحب کو حالتِ سجدہ میں← مزید پڑھیے
اس ”ہارن باز“ ہجوم کے چکر میں حالت ایسی ہو گئی کہ ہمت ہارنے لگا۔ آخر کار آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں گھٹنوں کے بل گرا۔ ساتھ ہی اک خیال آیا کہ یہ شہ سوار میدانِ جنگ میں گر رہا ہے یا پھر طفل گھٹنوں کے بل ہو رہا ہے؟ گویا میں خود پر ہنسا۔ پھر ایک آواز سنائی دی۔ ہاتھ میں گلاس پکڑے وہ میرے سامنے تھی۔ گلاس میں پانی تھا لیکن اگر زہر بھی ہوتا تو چپکے سے میرے خلق میں اتر جاتا۔ اس چُلو بھر زندگی میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ← مزید پڑھیے
اگر میں ادیب ہوتا تو یہ سب کسی کہانی یا افسانے کی صورت میں لکھتا۔ پھر ہر کسی کو پڑھتے ہوئے مزا بھی آتا اور میری بات بھی سب تک پہنچ جاتی۔ بہرحال بات یہ ہے کہ سائنس چیزیں بناتی ہے جبکہ ادب انسان کو ”انسان“ بناتا ہے۔ زمین کے گرد گھومتے سٹیلائیٹ کی طرح، ادیب معاشرے کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے علم و ہنر کے ذریعے ایسے ایسے تازیانے برساتا ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کو ہی دیکھ لیں۔ ویسے کئی بیچارے لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو نے فحش اور جنس نگاری← مزید پڑھیے
کئی پاکستانی پردیسیوں کو ایک خاص بیماری لگی ہوئی ہے۔ ان کا کام پاکستان کی ہر چیز پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ میں ایسے پردیسیوں کو ”مینگوز“ کہتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے مزیدار آموں کی طرح یہ بھی ایکسپورٹ ہو گئے۔ ان کا اصل سواد تو بیگانے لے گئے۔ ہمارے لئے پیچھے بس گھٹلیاں بچی ہیں، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سروں پر برستی ہیں۔ ایک دفعہ جب مینگوز نے پاکستان میں رہنے والوں کو جاہل کہا، تو میرا میٹر گھوم گیا۔ پھر میں نے زرمبادلہ، حب الوطنی اور دیگر کئی باتوں پر کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے