ایک وقت تھا کہ لاہور شہر میں درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگایا جا رہا تھا اور حکومتِ پنجاب سارے پنجاب کو بھول کر صرف لاہور کو ہی ”لاہور شریف“ بنانے پر لگی ہوئی تھی۔ مگر شاہدرہ ریلوے پھاٹک پر ایک ”فلائی اوور“ بنانے کی زحمت نہ کی گئی۔ جی ٹی روڈ جیسی اہم سڑک کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ پتہ نہیں جی ٹی روڈ اور خاص طور پر گجراتیوں سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا تھا۔ خیر خدا خدا کر کے اب لاہور سیالکوٹ موٹروے بن چکی ہے اور پوچھنا یہ تھا کہ عوام کے پیسے سے بننے والے اس تحفہ کے لئے شکریہ کس کا ادا کرنا ہے؟ آیا کسی ٹھیکیدار کا یا پھر نون شون عین غین کا، یا پھر← مزید پڑھیے
بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر← مزید پڑھیے
لمبے انتظار کے بعد ایک دن دریائے چناب پر پُل بننا شروع ہوا۔ پل کے حفاظتی بند بنا کر جب کمپنی پل بنانے کے لئے دریا میں اتری تو حکومت بدل گئی۔ درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگانے کی قائل حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو منسوخ کر دیا۔ پل کا جو کچھ بنا ہوا تھا وہ ویسا ہی پڑا رہا اور من موجی دریا اسے آہستہ آہستہ بہا لے گیا۔ منصوبے کی فائل سردخانے میں پڑی رہی اور پھر ایک دن ”شریفِ لاہور“ کی میز پر پہنچی۔ یوں دوسری دفعہ اپنی نوعیت کا منفرد پل خشکی پر بننا شروع ہوا۔ بند باندھ کر دریا کو بند کر دیا گیا۔ پانی وسیع رقبے پر پھیل گیا۔ گندم کی تیار فصل برباد ہو گئی۔ اب اگر ہم ڈوبے ہیں تو صنم← مزید پڑھیے
ماضی میں الیکشن کے دونوں میں ایک الگ ہی رونق ہوتی۔ مخالفین کو زچ کرنے کے لئے نوجوان فحش نعرے زوروشور سے لگاتے۔ چند ایک آگے درج کرتا ہوں۔ ویسے یہ سب معاشرے کو ورثے میں ملا تھا۔ کتوں اور گدھوں پر سیاست دانوں کے نام لکھنے اور ان کی کردار کشی کرنے کا رواج پرانا چلا آ رہا ہے۔ قائد اعظم اور فاطمہ جناح کی توہین اور ایوب کتا ہائے ہائے جیسا گالی کلچر عمران خان یا تحریک انصاف نے شروع نہیں کیا تھا۔ درحقیقت بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک سبھی نے اپنا حصہ← مزید پڑھیے
جہاں عوام کو آسانی سے خوشی نصیب نہیں ہوتی، وہاں پر ہمارا کیا جاتا ہے کہ اگر ہم دکھ کا نام خوشی رکھ لیں۔ جہاں عوام کو اتنا بھی ہوش نہیں کہ انہیں بجلی کے بل میں تکنیکی مار اور دھوکے دے کر کیسے کیسے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ جہاں حکومت اور ادارے مل بانٹ کر کھا رہے ہیں۔ جہاں ظلمت کی تاریک رات ہو، وہاں پر اگر کوئی کمینی سی خوشیاں منا بھی لے تو کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے؟ خیر یہ بات چھوڑیں، آئیے آپ کو ایک ناچتی چالاکی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ← مزید پڑھیے