کچھ سال پہلے تک سیروسیاحت کے دوران بس یاداشت کے لئے سمارٹ فون وغیرہ سے کچھ تصویریں بناتا۔ جبکہ بطور لکھاری الفاظ کے ذریعے منظر کھینچتا۔ وقت گزرتا گیا اور الفاظ سے منظرنامہ کھینچتے کھینچتے معاملہ ڈی ایس ایل آر کیمرے سے منظر پکڑنے تک پہنچ گیا۔ یوں باقاعدہ فوٹوگرافر بھی بن گیا۔ تب سے فوٹوگرافی کے متعلق مسلسل پڑھتا، نت نئے تجربات کرتا، معلوماتی ویڈیوز دیکھتا اور نئی سے نئی تکنیک سیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ اب بات یہ ہے کہ سمارٹ فون اپنے بہترین سافٹ ویئر کی مدد سے ”ریڈی ٹو یوز“ تصویر بنا کر دے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو ہلکا پھلکا ”ٹی ٹاں“ کرنا پڑے گا۔ جبکہ بڑے کیمرے کے ”ششکے“ تو ہوتے ہیں اور اس سے جدید فوٹوگرافی بھی کی جا سکتی ہے، مگر بڑے کیمرے اور اس کے سازوسامان سے لے کر استعمال کرنے اور پھر تصویر تیار کرنے کے اپنے ہی بکھیڑے ہیں۔ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا بلکہ یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ پہلے اپنی فوٹوگرافی کی نوعیت اور ترجیح دیکھیں اور پھر← مزید پڑھیے
بچپن میں ایک دفعہ ملتان گیا تھا اور پھر ستائیس سال بعد اس شہر میں دوبارہ قدم رکھا۔ بس جی اک شام محبوب کے پہلو میں بیٹھ کر عکس بنانا تھا۔ اور یہاں بھی ”تیرے“ نام کا دیا جلانا تھا۔ اور جو تھل جیپ ریلی دیکھنے پہنچے تو رات ملتان میں، پاکستان کے مشہور و معروف برڈر اور فوٹوگرافر ڈاکٹر سید علی حسان کے آستانے پر ٹھہرے۔ باقی پیر محبوب کو قدموں میں لاتے ہیں مگر ہمارے مرشد ہمیں ہی محبوب کے قدموں میں لے گئے۔ ویسے بھی عشق کا تقاضا یہی ہے کہ تو زیر ہو، تو قدموں میں بیٹھ، نہ کہ محبوب۔ پاکستان کے دیگر خوبصورت چوک چوراہوں کی طرح ملتان کا گھنٹہ گھر چوک بھی زبردست ”فوٹوجینک“ ہے۔ اوپر سے یہاں تاریخ تہہ در تہہ پروئی ہوئی ہے۔ جس طرف بھی کیمرہ کر کے تصویر بناؤ تو کچھ نہ کچھ تاریخ عکس بند ہو ہی جاتی ہے۔ اگر اک طرف قلعہ کہنہ قاسم میں بہاؤ الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات اور دیگر عمارتیں ہیں تو دوسری طرف انگریز دور کا گھنٹہ گھر ہے۔ بہرحال اُس رات جب گھنٹہ گھر چوک پہنچے تو تصویر بنانے کے لئے جگہ ڈھونڈ ہی لی۔ اور وہ تھی دم دمہ آرٹ گیلری کی چھت۔۔۔ مگر ہوا یوں کہ← مزید پڑھیے
کیا آپ کا محبوب بھی چاند ہے؟ بس جی! پھر آہیں بھریں اور محبوب کو دور سے ویسے ہی دیکھیئے ”چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے“۔ وہ کیا ہے کہ آپ کی طرح کے اک پرندے چکور کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے۔ ویسے ہے ناں حیرانی کی بات کہ عاشق چکور کے جیسے خوبصورت اور محبوب چاند کی طرح کدو سے اور بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔ خیر ہم نے ٹلہ جوگیاں کے راستے سے چکوروں کے غول در غول اڑتے دیکھتے ہیں۔ گویا ہم کہیں گے کہ روہتاس کے بعد ”سڑک جو جائے ٹلے… تو جوگی رُلے… گل کِھلے… مور ملے، چکور ملے“۔۔۔ ویسے اس راستے کی عجب← مزید پڑھیے
اگر میں کہوں کہ مجھے گوجرانوالہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور نانگاپربت کی چوٹی نظر آئی ہے تو کیا آپ مان لو گے؟ اور اگر اس کی تصویر بھی دکھاؤں تو کیا یقین کر لو گے؟ بہرحال ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں ہم اک روز فجر کے وقت، گوجرانوالہ کے قریب لودھی مسجد کی فوٹوگرافی کرنے گئے۔ اک خوبصورت صبح کا سندیسہ لئے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی کہ میں نے شور مچا دیا، گاڑی روکو، گاڑی روکو... وہ دیکھو پہاڑ۔۔۔ باقی ٹیم نے یقیناً یہی سوچا ہو گا کہ جس طرح بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہوتے ہیں، ایسے ہی منظرباز کے خوابوں میں پہاڑ... بھلا گوجرانوالہ سے پہاڑ کہاں نظر آنے لگے... مگر وہ ایسی حقیقت تھی کہ← مزید پڑھیے
گو کہ بات شغل میلے کی ہے، مگر کئی نام نہاد ”ٹریولرز اور ٹریکرز“ وغیرہ کی جانب سے بڑا ظالم طنز ہے۔ اور وہ یہ کہ ”مری جانے پر ہی بلندی کی وجہ سے جن کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، وہ لوگ بھی خود کو ٹریولر کہتے ہیں“۔۔۔ وڈے ٹریولرز دی ایسی دی تیسی۔ جبکہ آپ خود کو ہلکا مت لیں۔ طبیعت کی خرابی کو لے کر چھوٹے چھوٹے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چلیں آئیں آج بلندی کے اثرات پر کچھ بات کرتے ہیں۔ کئی پہاڑی علاقوں میں ایک اصطلاح ”ہائیٹ ہونا یا ہائیٹ لگنا“ استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں کو ہائیٹ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بلندی کے اثرات کی وجہ سے فلاں کی طبیعت خراب ہو چکی ہے۔ اس خراب طبیعت کو نظرانداز کیا جائے تو بات موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ اس کا علاج یہ ہے کہ← مزید پڑھیے