آج کے دور میں سیر و سیاحت اور سفر کے لئے جہاں دیگر تیاریاں ہوتی ہیں، وہیں پر کچھ سمارٹ فون ایپس(Apps) بھی ضروری ہیں، جو کہ سفر کے دوران بہت مددگار ہوتی ہیں اور ان سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان ایپس کی مدد سے مفت میں موسم اور راستوں کی معلومات، ہوٹل کی تلاش، زمین پر اپنا مقام اور اس کی نشاندہی، رفتار، سمتیں اور سطح سمندر سے اپنی بلندی وغیرہ معلوم ہوتی ہے۔ اور تو اور اپنے سفر کا مکمل ٹریک بھی بن جاتا ہے اور آپ کے اپنے آن لائن گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں کہ آپ اس وقت کدھر ہیں یا کس سمت سفر کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی زبردست ایپ کا نام اور طریقہ استعمال یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
جو سوتے ہیں، وہ کھوتے ہیں اور آج کل ”کھوتے“ کو تو لوگ کھا جاتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی فوراً بستر چھوڑا، تیاری کی، فوٹوگرافی کے لئے کیمرا رکھا اور انارکلی کی تلاش میں ہرن مینار چل دیا۔ یہ مینار مغل بادشاہ جہانگیر نے بنوایا تھا۔ وہی جہانگیر جو پہلے شہزادہ سلیم عرف شیخو ہوا کرتا تھا اور جس کی چکربازیوں کے چکر میں بیچاری انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا اور بعد میں خود جناب ”نورالدین“ بن بیٹھے۔ خیر سلیم کو چھوڑو اور انارکلی کی تلاش میں ہرن مینار کا چکر لگاؤ، تالاب میں ڈبکیاں نہ لگاؤ، بس بارہ دری میں چین کی بنسری بجاؤ اور اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو منظرباز کی طرح ایک انارکلی نہیں بلکہ کئی انارکلیوں سے← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
یوں تو ہم ایک زمانے کو دوست رکھتے ہیں لیکن ابھی ذکر ہے جنابِ شمس، مسٹر بمبوکاٹ اور محترم چندربھاگ کا… اور عکس ساز کا۔ یہ سب منظرباز کے ہمراز ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اشرف المخلوقات کو چھوڑ کر ان سے دوستی کر لی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کو دل کی بات کہتے ڈر لاگے ہے صاحب۔۔۔ چناب کنارے والے نے محبوب نگری میں کہا تھا کہ سب تعبیریں اک خواب کیں… سب پنکھڑیاں اک گلاب کیں… سب کرنیں اک آفتاب کیں… جن میں… ہم کنارے چناب کے… ہم سپوت دوآب کے… ہم شہرِخوباں کے… ہم ارضِ جاناں کے… اور ہم← مزید پڑھیے
پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک← مزید پڑھیے