پنجابی جٹوں کا لڑکا سردار بوٹا سنگھ، جو ایک کتاب پڑھ کر اسلام سے متاثر ہوا اور مسلمان ہو کر کتاب کے مصنف کے نام پر اپنا نام ”عبید اللہ“ رکھا۔ اپنے ایک سندھی استاد سے محبت کی وجہ سے نام کے ساتھ سندھی لگایا۔ یوں عبید اللہ سندھی کہلایا۔ اک دنیا گھومنے والے تحریک آزادی ہند کے کارکن اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا مرقد دین پور میں ہے اور ہم وہاں فاتحہ خوانی کے لئے گئے۔۔۔ اس کے بعد سندھو ندی کے اُس پار جو ضلع راجن پور میں اُترے تو پہلے پہنچے ”سندھو رانی“ کے پہلو میں۔ ذرا غور کریں کیسا پیارا نام ہے ”انڈس کوئین“۔ سوا سو سال تک پانیوں پر تیرنے والی یہ رانی اچانک← مزید پڑھیے
محبت و امن کے سفیر مسجد سے نکلے تو اظہارِ یکجہتی کے لئے مندر پہنچے۔ اُدھر تم مسجد توڑو، اِدھر تم مندر توڑو۔ گویا تم دلوں کو توڑتے جاؤ، مگر ہم جوڑتے جائیں گے۔ کیونکہ ہمارا مذہب ”امن“ ہے، ہمارا پیغام محبت ہے۔ بھونگ مندر کے بعد رحیم یار خان کے پاس دریائے ہاکڑہ کے کنارے پتن منارہ گئے۔ کسی زمانے میں یہ ہندومت اور بدھ مت کا خاص مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر زمانہ بدلا، موسم بدلا اور دریائے ہاکڑہ خشک ہو گیا۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترسے اور ہاکڑہ تہذیب ریت کے ٹیلوں میں کہیں کھو گئی۔ پانی نہ صرف زندگی ہے بلکہ یہ تہذیبوں کا امین بھی ہے۔ پانی کی قدر کیجیئے صاحب۔ اور پھر امان گڑھ کی ہندو برادری← مزید پڑھیے
پنجاب کا آخری ضلع رحیم یار خان اور اس کی آخری تحصیل صادق آباد اور اس میں موجود اک قصبہ بھونگ اور وہاں بنی اک مسجد۔ جہاں ہم اک روز ساڑھے بارہ بجے کے قریب پہنچ گئے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اُدھر پہنچے ہی کیوں؟ الجواب:- بھونگ کی جامع مسجد دیکھنے۔ کیونکہ یہ تعمیرات کا اک شاہکار ہے۔ جس کی تزئین و آرائش میں سونے، چاندی، ہاتھی دانت اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ خیر ہم مسجد کی فوٹوگرافی میں اس قدر مگن تھے کہ پتہ ہی نہ چلا اور نمازِ جمعہ کا وقت قریب آ گیا۔ نمازی تشریف لانا شروع ہو گئے اور جب میں نے مسجد کے مرکزی کمرے میں سیلفی بنائی تو نمازیوں نے← مزید پڑھیے
ہم نے پہنچنے میں تھوڑی دیر کر دی اور تب تک جولاہے کی بیٹی ”گامن گدھوکن“ قتل کر کے جیل جا چکی تھی۔ بلکہ جیل کے دورے پر آئے نوجوان نواب صاحب گامن کے عشق میں گرفتار بھی ہو چکے تھے۔ اِدھر ہم پہنچے اور اُدھر گامن جیل توڑ کر فرار ہو گئی۔۔۔ بس پھر نواب صاحب ہجر میں تڑپنے اور سپاہی گامن کو ڈھونڈنے کی جان توڑ کوشش کرنے لگے۔ آخر گامن پکڑی گئی اور اس نے نواب صاحب کو ٹھوک کر جواب دیا کہ میں معشوقہ بن کر تمہارا بستر گرم← مزید پڑھیے
یہ تصویر دیکھنے میں جیسی بھی ہو لیکن اپنے آپ میں اک عجوبہ ضرور ہے۔ کیونکہ تصویر میں نظر آنے والے نوکیلے پہاڑ تصویر بننے کے مقام سے 200 کلومیٹر دور ہیں۔ ویسے ابھی تک کئی لوگ ضلع گجرات سے سو کلومیٹر دور پیرپنجال کے برف پوش پہاڑوں کے نظارے کو ہی ہضم نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں یہ دو سو کلومیٹر والی تصویر دیکھ کر پریشان تو ہوں گے، لیکن ہمارے پیارے نیلے سیارے یعنی زمین پر ایسے کئی انوکھے مقامات پائے جاتے ہیں کہ جہاں سے دور کے نظارے کی عجوبہ تصویریں بن سکتی ہیں۔ انہیں میں سے ہمارے ضلع گجرات میں دریائے چناب کے کنارے ہیں۔ جہاں پر میری تپسیا ایسی ہے کہ← مزید پڑھیے