ہم جیسوں کے بارے میں اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ انہیں سیاحت اور فوٹوگرافی کے لئے پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ کچھ سوچتے ہیں کہ جی ان کے پاس تو وافر پیسہ ہو گا یا انہیں سپانسر ملتا ہو گا۔ جبھی تو آئے روز سیروسیاحت کو نکلے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق رکھنے والے کچھ لوگوں کے پاس ریل پھیل ہو گی، لیکن سب کے پاس نہیں ہوتی۔ خیر دوسروں کو چھوڑیں، ابھی اپنا بتاتا ہوں۔ اور مجھے یہ سب بتانے میں کوئی عار نہیں کہ← مزید پڑھیے
اس مقام سے بہت اوپر ”پنج آب“ نے عشق کی معراج پائی اور اپنا آپ سندھو ندی میں فنا کر دیا۔۔۔ کسی کو محبوب نہر والے پُل پر بلاتے ہیں تو مجھے خود پُلوں نے ہی بلا رکھا تھا۔۔۔ وہ جس کے عشق میں راوی و چناب فنا ہوئے، اسی دریائے سندھ کے اک کنارے تاریک رات میں جیسے تیسے پہنچا۔ سامنے ہی ایوب اور لینس ڈاؤن پل سکھر روہڑی تھا۔ مگر میرے ارد گرد غضب کی تنہائی تھی۔ کچھ کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر کوئی بندہ آ گیا تو مجھے یہ سب کرتا دیکھ کر یقیناً شک کرے گا۔ اس لئے جلدی جلدی اپنا کام کرتا رہا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اچانک سے ایک بندے نے مجھے← مزید پڑھیے
رنی کوٹ قلعہ کے بعد ہماری منزل سکھر روہڑی کے قریب اروڑ میں وہ میدان تھا کہ جہاں محمد بن قاسم اور راجہ دہر کی جنگ ہوئی تھی۔ اسی میدان میں موجود پربتِ عشق بھی دیکھنا تھا۔ اور جب ایک بندے سے راستہ پوچھتے ہوئے بتایا کہ بس پہاڑی کی تصویر بنانے جانا ہے تو اس نے نہایت تجسس سے کہا کہ اللہ تجھے مدینے لے جائے۔ اک تصویر کے لئے اس خراب موسم میں اتنی خجل خواری۔۔۔ خیر پربتِ عشق کو دیکھ کر سوچا کہ جہاں کسی نے میدانِ جنگ سجایا تھا، آج عین وہیں یہ پہاڑی محبت کی صدائیں لگا رہی ہے۔ گویا تلوار ہار گئی، عشق جیت گیا۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ابھی ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہو گا کہ← مزید پڑھیے
ہم سندھو نگری میں ”رنی ندی“ کے اس گھاٹ پر پہنچے کہ جہاں عظیم دیوارِ سندھ نے ہمارا راستہ روکا۔ رنی کوٹ تو میرے خوابوں کا قلعہ ثابت ہوا۔ جہاں اک وادی کے چاروں اور پہاڑ ہیں۔ اور ان پہاڑوں کے اوپر قلعہ کی بیرونی فصیل دیوارِ چین کی مانند ہے۔ سطح مرتفع کے درمیان میں اک اونچی سی پہاڑی ہے۔ جس کے اوپر بادشاہ کا محل ہے۔ پاس اک ندی بہتی ہے۔ جس کے اُس پار اک سرسبز گاؤں ہے۔ گاؤں سے قلعہ تک آنے کے لئے ندی کے اوپر ایک پُل ہے۔ اور اس پل پر اک شہزادی← مزید پڑھیے
راج کماری اوچاں رانی کے شہر دیوگڑھ جانا بھی عجب اتفاق ہی تھا اور پھر بڑی مشکل سے وہاں کے ”دیو“ سے جان چھڑائی۔۔۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہم دیو گڑھ پہنچے تو وہ جگہ قبرستان نما تھی اور وہاں پر مقبروں اور مزاروں کا یوں ہی سمجھیں کہ پورا کمپلکس تھا۔ اور پھر دیو اور جِنوں نے ہمیں گھیر لیا۔ وہ ایسے نذرانہ نکلوانے کے درپے تھے کہ جیسے جگا لینا یا ہفتہ وصولی کرنی ہو۔ بلکہ وہ لوگ تو ایسے پیچھے پڑ گئے جیسے ہماری جان ہی بطور نذرانہ وصول کریں گے۔ اور پھر وہاں ایسی صورتحال بن گئی کہ← مزید پڑھیے