سیاحت کے دوران جب دوست احباب کچھ زیادہ دوڑیں مچاتے ہیں تو مجھے الجھن ہونے لگتی ہے۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہوتے ہیں اور میں اپنی جگہ۔ انہیں منزل پر پہنچنے کی جلدی یا پھر صرف سیروتفریح مقصود ہوتی ہے، جبکہ میں سیاحت سے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بے شک میں بھی منزل کا رُخ کر کے نکلتا ہوں لیکن میرے لئے منزل سے زیادہ سفر اہم ہوتا ہے۔ منزل پر پہنچ گئے تو بہت اچھے ورنہ کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ ”دوڑ سوڑ“ شدید الشدید مسئلہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ دوڑ سوڑ کے اس پار اک سکون نگری ہے اور میں اسے حاصل کرنے کے لئے یہ کرتا ہوں کہ← مزید پڑھیے
دریائے چناب کے کنارے پر۔۔۔ آسمان پر چھائی کہکشاں۔۔۔ اک جلتا الاؤ۔۔۔ اک بیری کا درخت۔۔۔ اور اس کے پاس درویش کی کُٹیا۔۔۔ ”اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے“۔۔۔ سڑک چھوڑی، بند سے اترے اور عین کنارے پر چلتے چلتے گھاس پھوس سے بنی کُٹیا کے قریب پہنچے۔ اس دشت و بیابان میں ایک طرف رات شدید تاریک، خطرناک کیڑے مکوڑوں کا گڑھ، اور دوسری طرف چناب میں طغیانی بڑھ رہی تھی۔ پانی کناروں سے باہر نکلنے ہی والا تھا۔ مگر اک دیوانے کو اپنے مطلوبہ نظارے کی تصویر درکار تھی۔ اور پھر اسی دوران کنارہ ٹوٹ کر گرا، پانی تیزی سے باہر نکلا اور مجھے← مزید پڑھیے
وقت گزرتا جا رہا ہے مگر کورونا کی وجہ سے ایسے مجبور ہوئے بیٹھے ہیں کہ سیروسیاحت کے واسطے دور دراز جنگل بیابانوں اور پہاڑوں وغیرہ میں نہیں جا سکے۔ اب تو ماضی کے سفر بھی خواب سے لگنے لگے ہیں۔ بلکہ میں تو پوچھتا پھر رہا ہوں ”سنا ہے زمین پر پہاڑ بھی ہوتے ہیں“۔ جس طرح زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری ہے ایسے ہی ہم جیسوں کے لئے ”سفری ریاضت“ بھی ضروری ہے، ورنہ ”پھاوے“ ہو جائیں۔ لیکن کورونا سے لڑائی ایک باقاعدہ جنگ ہے اور اس جنگ میں کافی کچھ معطل ہو چکا ہے۔ لہٰذا سکون کی تلاش میں سفارشیں کروا کر اور رشوتیں دے کر جانا تو کیا جانا۔ اوپر سے قدرت کی کھوج میں بھی دو نمبری← مزید پڑھیے
کیا آپ نے ”اِن ٹو دی وائلڈ“ کتاب پڑھی یا فلم دیکھ رکھی ہے کہ جو سچی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں 24 سالہ کرسٹوفر تعلیم کے بعد اپنا کریئر بنانے کی بجائے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سچائیوں اور خوشیوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ پیدل چلتا، سفر کی مشکلات برداشت کرتا آخر کار جنگل بیابانوں اور ویرانوں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں اسے ایک پرانی کھڑی جادوئی گاڑی ملتی ہے۔ وہ اس گاڑی میں بسیرا کر لیتا ہے اور فطرت کے قریب رہتا ہوا کتابیں پڑھتا، اپنی نئی جنگلی زندگی کے متعلق سوچتا اور ڈائری لکھتا رہتا ہے۔ آخر اچانک اس جادوئی گاڑی میں اس کی موت ہو جاتی ہے۔ جیسا اس کے ساتھ ہوا اور اس جیسی گاڑی ہمارے اِدھر بھی← مزید پڑھیے
پہاڑوں پر شام اُتر رہی تھی مگر ہم پہاڑ چڑھ رہے تھے۔ اُس دن کی آخری چڑھائی ختم ہونے کو تھی اور میں دن بھر کی تھکاوٹ سے بے حال ہوا پڑا تھا۔ ایک جگہ سانس لینے رُکا۔ نظر اٹھائی تو سورج کی آخری کرنیں نانگاپربت کا بوسہ لے رہی تھیں۔ اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اچانک ایک سوال کوندا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنا کشٹ کیوں کر رہا ہوں؟ آخر میں نے تصویریں بھی کیونکر بنائی؟ اگلے ہی لمحے کچھ لہریں دماغ تک پہنچیں، قدرت نے جوابات عنایت کر دیئے۔ یہیں پر سیاحت کی ترقی و ترویج اور لوگوں کی راہنمائی جیسے مضحکہ خیر نعرے ← مزید پڑھیے