بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر← مزید پڑھیے
اب باباجی کا ڈیرہ ایک بڑے کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پاک و ہند سے سکھ برادری کے ساتھ ساتھ مسلمان یاتری بھی جوق در جوق جاتے ہیں۔ اور ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور گئے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ بلکہ گندم کی وسیع و عریض فصلوں کے بیچ و بیچ سفید چونے سے ڈھکی ایک عمارت تھی۔ جس کے اردگرد ماحول ایسا تھا کہ میری سوچیں بے اختیار ”ٹائم ٹریول“ کیے دیتیں اور اک باباجی کنویں سے پانی نکال کر فصلوں کر سیراب کرتے۔ پیاری پیاری محبت بھری باتیں کرتے۔ فطرت سے محبت اور امن کا پیغام پھیلاتے۔ وہ وہی بابا گرو نانک تھے کہ جنہیں مسلمان اپنا بزرگ← مزید پڑھیے
پاکستان بننے کے بعد جوگی چلے گئے اور ٹلہ ویران ہو گیا۔ لیکن جنگلوں میں مور ناچتے رہے۔ حالانکہ جنگل سے لکڑی چُرانے اور ٹلہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بولے تو خزانے کی تلاش کرنے والے چور ٹلہ جاتے رہے۔ ان کے علاوہ حقیقت کے متلاشی، تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقین اِکادُکا بھی ٹلہ پہنچتے رہے اور موروں کا ناچ دیکھتے رہے۔ وہ بھی ایک جوگی تھا کہ جو چرخے کی کوک سن کر پہاڑ سے اتر آیا اور یہ بھی سیروتفریح کا شوقین ایک جوگی فوجی افسر تھا کہ جو ٹلہ سے نیچے فائرنگ رینج میں بیٹھا دوربین سے اکثر ٹلہ کی چوٹی کا جائزہ لیتا رہتا۔ آخر جوگی دل کی آواز سن کر پہاڑ چڑھ گیا اور پھر← مزید پڑھیے
اے سالِ رفتہ مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں۔ مگر جب تک سانسیں ہیں، میں تمہیں کبھی نہ بھولوں گا۔ تیری وہ اک شام بھی نہ بھولوں گا کہ جب میری امی جان اس دنیا سے چلی گئیں۔ اس واقعہ نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ بلکہ میرے لئے زندگی موت اور رشتوں ناتوں کے معنی ہی بدل گئے۔ سال 2019ء کے آغاز پر بہت کچھ سوچا تھا۔ سیاحت کے حوالے سے بھی کئی پلان تھے لیکن پھر دماغ کے تانے بانے ایسے بکھرے کہ دوستوں کو کہا یارو! مجھے معاف رکھو۔ خیر ان احباب کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے مشکل میں مزید مشکلات بڑھائیں اور خلوص کی واٹ لگائی۔ اور وہ احباب ہیں← مزید پڑھیے
ویران کھنڈر اور پرانی عمارتیں دیکھنا مجھے پسند ہیں۔ مٹ چکی تہذیبوں کے آثار کی سیاحت کا شوق رکھتا ہوں۔ اسی لئے میں ”ہُڑی پا ہُڑی پا“ کرتا ہڑپہ چل دیا۔ اور پھر خاک ہو چکے شہر کے اونچے نیچے ٹیلوں، ویرانوں اور ویرانے کی علامت پیلو کے درختوں سے گزرتے گزرتے منظرباز وقت کا سفر کر گیا۔ وادی سندھ کی تہذیب نے انگڑائی لی، ہڑپائی تہذیب جوان ہوئی اور ہڑپہ واپس ہری یوپیہ ہوا۔ انسانی ہڈیوں کے سفید سفوف سے واپس ہڈیاں بنیں۔ ان پر گوشت چڑھا۔ ان میں روحیں واپس لوٹیں۔ سارے کردار زندہ و جاوید نظر آنے لگے۔ ڈانسنگ گرل کا ناچ شروع ہوا اور← مزید پڑھیے