وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ اکثر اوقات وقت اور حالات کے ساتھ لوگ بھی بدل جاتے ہیں مگر چاچا فیقو ذرا بھی نہیں بدلا اور آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔ بالکل پہلے کی طرح بات کرتے ہوئے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ۔ جب کبھی ملتا ہے تو سلام دعا سے پہلے یہی کہتا ہے کہ میں نہ کہتا تھا ایک دن سلطان راہی انجمن کو بھگا لے جائے گا اور دیکھ لو ویسا ہی ہوا ہے۔ تم لوگ تب میری بات پر غور کرتے تو آج یہ گاؤں تمہارے پلان کے مطابق ایک مثالی گاؤں ہوتا۔ آگے سے میں کہتا ہوں چاچا چھوڑ پرانی باتیں، قاری اپنی دنیا میں خوش اور ہم اپنی میں خوش۔ تو یہ بتا کہ گاؤں میں کیا نیا تازہ چل رہا ہے؟ چاچا فیقو لڑکوں کی شرابی محفلوں کے لڑائی جھگڑوں سے شروع ہوتا ہے اور لڑکیوں کے چکروں پر باتیں کرتے ہوئے ایسی ایسی کہانی سناتا ہے کہ اگر چاچے فیقو کی کہانیاں انٹرنیٹ پر ڈال دی جائیں تو وہ ویب سائیٹ چند دنوں میں ٹاپ ٹین میں آ جائے۔ 🙂 ابھی چاچے فیقو کی کہانیوں سے صرف اقتباس دیئے تو پھر میرا بلاگ تو بہت پڑھا جائے گا لیکن اگر چاچے فیقو کو ذرا بھی شک ہو گیا کہ میں اسے انٹرنیٹ پر ”بدنام“ کر رہا ہوں تو پھر میری خیر نہیں۔ دیگر کہانیوں کے ساتھ ایک ”گندی کہانی“ میری بھی شامل ہو جائے گی۔ اور تو اور چاچے فیقو نے انٹرنیٹ پر میرے معاشقے کی کہانی خود سے تیار کر کے ”ڈیروں“ پر پھیلا دینی ہے۔ جن بڈھوں کو انٹرنیٹ کا نہیں پتہ، انہوں نے بھی حقہ پیتے ہوئے یہی اندازے لگاتے رہنا کہ ضرور انٹرنیٹ کسی گوری کا نام ہو گا۔ ایسی افواہوں سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ چپ ہی رہا جائے، ویسے بھی چاچے فیقو سے ڈرنے میں ہی عافیت ہے۔ وہ کیا ہے کہ سیانے کہتے ہیں ”ڈرو سچے خدا سے اور بندے بے حیاء سے“۔
ویسے چاچا فیقو بے حیاء نہیں۔ لاکھ اِدھر اُدھر کی بدخوئیاں کرے گا، بڑی کہانیاں سنائے گا مگر کسی کا نام نہیں لے گا۔ جب کبھی چاچے سے کہانی کے کرداروں کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب یہی ملا کہ چپ کر کے حقیقت جانو، مزے لو اور پردہ ہی رکھو۔ عزتیں نہ اچھالو۔ کئی دفعہ چاچا کہتا ہے کہ تم لوگوں کو یہ باتیں صرف اس لئے بتاتا ہوں کہ تمہیں پتہ چل سکے کہ برائی کہاں تک پہنچ چکی ہے، اگر بچ سکتے ہو تو بچ جاؤ اور باقیوں کو بھی بچا لو۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ فیقو بہت دور اندیش اور سیانا بندہ ہے جبکہ کئی کہتے ہیں کہ فیقو محفل جمانا جانتا ہے اور بس خود ساختہ باتیں کر کے دوسروں کو اپنے گرد جمع کر لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چاچا فیقو چاہے خود ساختہ کہانیاں سناتا ہے یا اصلی مگر اس کی ہر بات کی کوئی نہ کوئی اہم وجہ ضرور ہوتی ہے۔ مذاق میں ہو یا سنجیدہ، جو بھی بات کرے گا اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ کبھی مذاق کر کے بات نکلوا رہا ہوتا ہے تو کبھی لوگوں کی اندر کی بات بتانے کی آڑ میں کوئی نہ کوئی سبق دے رہا ہو گا۔ لوگوں کے تجسس کی تسکین بھی کرتا ہے اور اچھی بات بھی بتا جاتا ہے۔ ویسے ہے بڑا شغلی۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ فیقو شیطان بندہ ہے اور لوگوں کو لڑواتا ہے۔ ہو سکتا لوگوں کا خیال ٹھیک ہو مگر میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ چاچا فیقو شیطان نہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے موجودہ راہ اپنا لی ورنہ کالج کے زمانے میں جب ہم آوارہ گردی کیا کرتے تھے تب ایک دفعہ گاؤں میں ہماری کسی کے ساتھ اچھی بھلی لڑائی ہوئی، بات فائرنگ تک پہنچ گئی۔ تب اگر چاچا فیقو بروقت دونوں پارٹیوں کو نہ سمجھاتا تو شاید ہوائی فائرنگ کی بجائے سیدھے فائر ہوتے۔ خیر میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ وہ صلح صفائی کرواتا ہے اور اچھا مشورہ دیتا ہے۔
مجھے تو آج بھی چاچا فیقو کسی فلم یا ناول کا کردار لگتا ہے۔ اوپر سے چاچے کے مصطفیٰ قریشی جیسے ڈائیلاگ سونے پر سہاگہ ہیں۔ آج سے تقریباً سولہ سترہ سال پہلے میں نے چاچے فیقو کو پہلی دفعہ دیکھا۔ اس کا نام تو بڑوں سے سن رکھا تھا مگر دیکھا نہیں تھا۔ وہ کیا ہے کہ چاچا فیقو جوانی میں گھر سے بھاگ گیا تھا اور ایک لمبے عرصے تک گاؤں والوں کو نہیں پتہ تھا کہ فیقو کدھر ہے۔ اسی دوران چاچے نے خود ہی شادی بھی کر لی تھی اور اس کے بچے بھی ہو چکے تھے۔ بقول چاچے فیقو کی کہانیوں کے اس دوران اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی بھی پیا تھا اور زیادہ عرصہ گوجرانوالہ کے بڑے بڑے پہلوانوں کے ساتھ گزارہ تھا اور پھر کچھ عرصہ کراچی میں رہا۔ جب واپس گاؤں آیا تو تب ہم گاؤں کے بچے اس کے اردگرد بیٹھ جاتے اور چاچا رنگ رنگ کی کہانیاں سناتا۔ کبھی سناتا کہ ایک دفعہ مجھے رات کو چڑیل مل گئی، میرے پاس خنجر تھا اور میں نے چڑیل کو بالوں سے پکڑ کر کہا کہ سچ بتا نہیں تو خنجر گھونپ دوں گا۔ بس پھر وہ عورت جو چڑیل کا روپ دھار کر ویرانے میں جادو ٹونہ کر رہی تھی فوراً بولی کہ ”بھراوا“ معاف کر دے، میں کوئی چڑیل نہیں بس اپنے خاوند کو رام کرنے کے لئے ٹونہ کر رہی تھی۔ 🙂 ویسے چاچا بھی کیا لمبی لمبی چھوڑتا تھا۔ سنا ہے چاچا فیقو خود جوانی میں کئی چڑیلوں کے دل کی دھڑکن تھا۔
اکثر چاچا فیقو کہتا ہے کہ ہمارا پرانا زمانہ ہی ٹھیک تھا، کم از کم شرم و حیاء تو تھی۔ میں جواب میں مذاق کے طور پر کہتا ہوں چاچا جس زمانے میں تجھ جیسا ”سلجھا“ ہوا انسان ہو بھلا وہ کیسے بے شرم ہو سکتا ہے۔ 🙂 چاچا فیقو آج بھی نوجوانوں سے بڑے کھلے ڈھلے انداز میں بات کرتا ہے۔ اس معاملے میں شرم نام کی کوئی چیز اس کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ 🙂 وہ بات جو کوئی سوچتے ہوئے بھی ڈرتا یا شرماتا ہے، چاچا فیقو وہی بات نہایت آسانی سے اور ہنستے ہوئے کہہ جاتا ہے۔ پچھلے دنوں چاچا بڑے چسکے لینے والے انداز میں کہنے لگا کہ سنا! انٹرنیٹ پر پھر خوب ”ننگے پِنڈے“ (ننگے جسم) دیکھتا ہے یا ابھی تک ”حاجی ثناء اللہ“ ہی ہے؟ یار کبھی ہمیں بھی کچھ دیکھا دے۔ پتہ نہیں چاچے فیقو نے کہاں سے سن لیا ہے کہ انٹرنیٹ پر صرف فحش مواد ہوتا ہے۔ خیر میں نے جان چھڑانے کے لئے جواب میں کہا کہ چاچا گورنمنٹ نے گندی ویب سائیٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ چاچا فیقو بولا ”چھڈ یار! ساڈی واری آئی تے کُوگو رو پیا“۔ ویسے چاچا ”اخیر آئیٹم“ ہے۔ گاؤں کے بچوں سے لے کر بڑوں تک ہر کسی کی اندر کی کوئی بات ہو نہ ہو مگر چاچے فیقو کے پاس اندر کی خبر ضرور ہوتی ہے۔ چاچے کی نظر بھی کمزور ہو چکی ہے اور سنائی بھی تھوڑا کم دیتا ہے۔ مگر آج بھی اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے اور کوئی بولے نہ بولے مگر چاچا اندر کی بات ضرور سن لیتا ہے۔
یوں تو چاچے کی باتوں اور واقعات پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے بلکہ مکمل ویب سائیٹ بنائی جا سکتی ہے، مگر آخری بات سنا کر اجازت چاہوں گا، کیونکہ فی الحال میں یہ کتاب یا ویب سائیٹ والا ”کارنامہ“ انجام نہیں دے سکتا۔ خیر ہوا یوں کہ ایک دفعہ زمین کے ایک مسئلے کے لئے پنچائیت بیٹھی ہوئی تھی۔ بات چیت ہو رہی تھی۔ چاچا فیقو بولا تو اس کے بیٹے نے یہ کہہ کر اسے چپ کرا دیا کہ ”ابا آپ کو نہیں پتہ“۔ تھوڑی دیر بعد پھر چاچا بولا تو بیٹے نے پہلے کی طرح چپ کرا دیا۔ ایسا تین چار دفعہ ہوا تو چاچے کو غصہ آ گیا اور برداشت جواب دے گئی۔ چاچا فیقو بھری پنچائیت میں اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے بولا کہ کہتا ہے مجھے نہیں پتہ، ”کتے دیا پترا، مینوں کُج نئیں پتہ تے فیر توں کِتھوں جم پیا؟ (کتے کے بچے، مجھے کچھ نہیں پتہ تو پھر تم کیسے پیدا ہو گئے؟)“۔ 🙂 چاچے کے شروع ہونے کے بعد اس کے بیٹے کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ یہی سوچ رہا ہو گا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ ویسے آسمان تو اس پر پہلے ہی گر پڑا تھا۔ اس دن چاچے فیقو کو کچھ زیادہ ہی غصہ آ گیا تھا اور اس نے پنچائیت میں اپنے بیٹے کو جو جو اور جن جن الفاظ کے استعمال سے کہا وہ مزید یہاں نہیں لکھا جا سکتا۔ دیہاتوں کے رہنے والے یا چاچے فیقو جیسے دیہاتی بڈھوں کے بارے میں جاننے والے جانتے ہوں گے ”مچھریا بڈھا (بھڑکا ہوا بڈھا)“ کون کون سی گردان سناتا ہے۔ 🙂
مجھے تو چاچا فیقو آئی ایس ائی کا بندہ لگتا ہے۔
چاچے کا تکیہ کلام بھی لکھ دیتے تو مزہ آ جاتا ۔ ایسے بابے تکیہ کلام کے بغیر رہ نہیں سکتے
تحریر پڑھنے میں تو اچھی لگی، جیسے میں کوئی مزاحیہ ناول پڑھ رہا ہوں، مگر ایک بات ہے، چاچا فیقو کو واقعی میں پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر آپ ان کے “کارہائے نمایاں” کو بہت مزے لے لے کر بتاتے ہیں، ورنہ آپ کا “کہانی” والا اندیشہ سچ ثابت ہونے میں دیر نہیں لگنی۔۔۔۔ 😉
یار پرانے لوگ بھی کیا کمال کے ہوتے ہیں۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ ہم ان کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ “آپ کو نہیں پتہ” یہ نیا زمانہ ہے۔۔بس ان سے ہی زندگی ہے۔۔۔اللہ چاچے فیقو کو سلامت رکھے۔۔
اعلیٰ۔۔۔
عمر کا زیادہ ہوتے چلا جانا اپنے ساتھ کچھ منفرد آزادیاں بھی لاتا ہے۔ کم عمری میں ہم یہی سوچتے ہیں کہ بڑوں کو پتا ہی ہو گا ان باتوں کا جن کا وہ دھڑلے سے دعویٰ کررہے ہیں۔ خود چوٹی پر جا کر پتا چلتا ہے کہ سب نری بکواس ہے۔ سب انسانوں کے پاس سوالات ہیں اور جوابات صرف گھڑے ہوئے۔ اب ہم خود بڈھے ہیں جو دل میں آئے گا بک دیں گے جس نے جو کرنا ہے کرلے۔نہ ہمیں رشتہ چاہئیے نہ نوکری! زندگی بھی گزار چکے۔
عمدہ۔۔ ایسا چلتا پرزہ کہاں سے حاصل کیا گاؤں والوں نے۔
چاچے کی حسرت پوری کردینی تھی 🙄
السلام علیکم! محمد بلال محمود صاحب! ایک عرصے کے بعد تبصرہ لکھ رہا ہوں گزشتہ تبصرہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر آپ نے حذف کر دیا تھا۔ آپ نے حالات حاضرہ اور سماج کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے مفر نہیں۔ اس افسانے کے تینوں حصوں کو بغور پڑھا۔ آپ کی تحاریر میں بہتری آتی جا رہی ہے۔ گو کہ میں کوئی نقاد نہیں لیکن آپ کی تحریر پہلے کی نسبت بہتر ہے۔ آپ نے بڑے ہی احسن پیرائے میں بڑی بڑی باتوں کو سادہ الفاظ میں ڈھال کر رکھ دیا۔ انجمن کا تو وہ بیڑا غرق ہوا جس کا مجھے پہلی قسط میں ادراک ہو چکا تھا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ویسے ہمارے پرانے گاؤں میں سے ایک فیکا اغوا ہو گیا تھا جوانی کے بعد واپس ملا تھا والدین کو۔ اور ہمارے ایک دوسرے گاؤں میں ماموں عباس آپ کے چاچے فیقے کا عکس ہے۔ باقی رہا انجمن اور قاری کا معاملہ اس کا منطقی انجام یہی تھا۔