ہم بیس پچیس سال سے اور ہمارے بڑے اس سے بھی پہلے کے دریائے چناب پر شہبازپور پل بننے کی خبریں سنتے آ رہے ہیں۔ مگر وطنِ عزیز میں وہ وعدہ ہی کیا جو بروقت وفا ہو۔ بہرحال لمبے انتظار کے بعد ایک دن پُل بننا شروع ہو ہی گیا۔ پل کے حفاظتی بند تقریباً بن چکے تھے اور جب کمپنی پل بنانے کے لئے دریا میں اتری تو حکومت بدل گئی۔ نئی حکومت نے آتے ہی ترجیحی بنیادوں پر اس منصوبے کو منسوخ کیا۔ حالانکہ درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگانے کی قائل حکومت دوسروں کا ”کریڈٹ“ مارنے میں ماہر مانی جاتی ہے لیکن اس پُل کے حوالے سے کریڈٹ کو کچھ زیادہ ہی محسوس کر گئی۔ اوپر سے ٹھیکیدار کمپنی کا شمار بھی مخالفین میں ہوتا تھا۔ خیر پل کا جو کچھ بنا ہوا تھا وہ ویسا ہی پڑا رہا اور من موجی دریا اسے آہستہ آہستہ بہا لے گیا۔ منصوبے کی فائل سردخانے میں پڑی رہی اور پھر ایک دن ”شریفِ لاہور“ کی میز پر پہنچی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فائل دیکھتے ہی شریفِ لاہور نے کہا ”یہ وہی پُل اور سڑک ہے ناں جس کے قریب ہمارے مخالفین کی زمینیں ہیں۔ نہ بھئی نہ، یہ پل تو نہیں بن سکتا۔“ غلام نے کہا ”جناب! آپ بے فکر رہیں۔ ہم نے سارا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ مخالفین کی زمینوں میں سے تو کیا، سڑک زمینوں کے آس پاس بھی نہیں بھٹکے گی۔“ شریفِ لاہور نے خوش ہوتے ہوئے کہا ”بتاؤ دستخط کدھر کرنے ہیں۔ باقی یہ منصوبہ ہر حال میں ہماری حکومت ختم ہونے سے پہلے پہلے مکمل ہونا چاہیئے“۔ آخر ”افتتاح بدستِ مبارک شریفِ لاہور“ والی تختی بھی تو کوئی اہمیت رکھتی ہے۔
دریائے چناب جب مقبوضہ وادی کشمیر سے پنجاب(پاکستان) میں داخل ہوتا ہے تو اس پر سب سے پہلا پُل ہیڈ مرالہ ہے۔ اس کے بعد گجرات اور وزیرآباد کے درمیان جی ٹی روڈ والا پل ہے۔ اب ان دونوں (مرالہ اور جی ٹی روڈ) کے بالکل درمیان میں شہبازپور گاؤں کے قریب ایک نیا پُل ہو گا۔ سال ڈیڑھ سال پہلے شہباز پور پُل دوسری دفعہ اور نئی جگہ پر بننا شروع ہوا۔ اس پل کا شمار اپنی نوعیت کے منفرد پُلوں میں ہوتا ہے۔ کیونکہ پُل خشکی پر بنایا گیا اور اب دریا کا رخ موڑ کر پُل کے نیچے سے گزارا جا رہا ہے۔ بلکہ رخ موڑنے کی بجائے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ دریا کا بل نکالا جا رہا ہے۔ دراصل جہاں اب خشکی پر پُل بنا ہے، پچاس ساٹھ سال پہلے دریا اسی جگہ بہتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چناب بادشاہ نے اپنے شمال مغربی کنارے کو لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ کئی دیہاتوں کو بہا لے گیا اور شہبازپور کے مقام پر بل کھا بیٹھا۔ اب نئے پُل کی وجہ سے بل تو نکل جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ پانی من موجی بادشاہ ہوتے ہیں۔ انجینیئرنگ کی معمولی سی غلطی پر بھی بپھر جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی غلطی ہوئی اور چناب نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تو سب کچھ بہا لے جائے گا بلکہ بہت سا علاقہ تہس نہس کر دے گا۔ خیر انجینئرز بھی کاکے نہیں۔ یقیناً وہ جانتے ہوں گے کہ بادشاہ کو کیسے پیار محبت سے رام کرنا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بڑی تیزی سے کام ہوا اور پل تقریباً مکمل ہے۔ بس چھوٹے چھوٹے کام رہتے ہیں، اس لئے ٹریفک کے لئے کھولا نہیں گیا۔ باقی حفاظتی اور رخ موڑنے کے لئے بند تقریباً باندھے جا چکے ہیں۔ دریا کے نئے راستے پر کسی عام نہر جتنی کھودائی بھی کر دی گئی اور وہاں سے پانی بہہ بھی رہا ہے۔ باقی جب گرمیوں میں زیادہ پانی آئے گا تو چناب بادشاہ اپنا مزید راستہ خود بنا لے گا۔ ویسے چناب اپنا راستہ جب بنائے گا، تب کی تب دیکھیں گے، لیکن اس سے پہلے پرانے راستے پر بند باندھ کر اسے بند تو کر دیا گیا ہے مگر نئی جگہ پر کھدائی مناسب حد تک گہری نہیں کی گئی۔ یوں پرانے راستے کی نسبت نئے راستے کی سطح بلند ہے اور سطح تک پانی پہنچتے پہنچتے ہزاروں ایکڑز پر پھیل چکا ہے۔ بہت بڑی جھیل کا دلکش منظر بن چکا ہے۔ مگر ٹھہریئے! اسی جھیل میں گندم کی تقریباً تیار فصلیں زیرِآب آ کر برباد ہو چکی ہیں اور کسانوں کی کمائی لٹ چکی ہے۔ شاید کسانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ پانی اس قدر بلند سطح تک جائے گا اور اتنی زیادہ فصلیں برباد ہوں گی۔ اگر تو منصوبہ سازوں کو اس سارے کھیل کا علم تھا تو انہیں کسانوں کو پہلے آگاہ کرنا چاہیئے تھا۔ اور اگر منصوبہ سازوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ پانی سر سے گزر جائے گا تو پھر ایسے منصوبہ سازوں کے لئے یہی کہوں گا کہ ”لا لو چھتر تے پا لو لمیاں“۔
شہبازپورپل بننے سے ہمارے لئے صرف یہی آسانی کافی ہے کہ پہلے کشتی میں موٹرسائیکل رکھ کر دریا پار جاتے تھے اور چناب گردی کرتے تھے، اب پل کے ذریعے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ شہر اور خاص طور پر سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہمارے شہر جلالپورجٹاں سے بیس پچیس منٹ کی مسافت پر ہو گا۔ ایک طرف ایسا ہے تو دوسری طرف بات یہ بھی سوچنے والی ہے کہ جب برساتی نالوں میں طغیانی آتی ہے تو وہ پانی نالوں سے نکل کر ہمارے دیہاتوں کے اردگرد سے ہوتا ہوا دریا میں گرتا تھا۔ اب اس پانی کے راستے میں اونچی سڑک اور بند آ چکے ہیں۔ یوں اب جب سیلابی پانی آئے گا تو ہمیں خطرہ ہو گا۔ گوکہ سٹرک میں ایک دو نہایت چھوٹی چھوٹی پلیاں بنائی گئی ہیں مگر منصوبہ ساز شاید یہ نہیں جانتے کہ کبھی کبھی تو پانی بہت زیادہ آتا ہے اور یہ معمولی سی پلیاں اسے سہار نہیں سکیں گی۔ یوں کئی دیہات ڈوب جائیں گے۔ چاچے فیقو! نے جب ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا تو میرے پاس کوئی اور جواب نہیں تھا، اس لئے صرف اتنا کہا ”چاچا فکر نہ کر۔ اگر ہم ڈوبیں گے تو ’صنم‘ کو بھی لے ڈوبیں گے۔“
کئی مقامی لوگوں کو اس سارے منصوبے کی سمجھ نہیں آتی کہ کیا اوٹ پٹانگ بن رہا ہے۔ کیونکہ آٹھ دس کلومیٹر کے علاقے میں کئی عجیب و غریب بند بن رہے ہیں۔ خیر لوگوں کی آسانی کے لئے یہ تصویر بنائی ہے۔ تصویر میں نقشہ بنا کر دریا کے نئے راستے اور پل کا بتایا ہے۔ مزید فی الحال جہاں جہاں تک پانی پھیل چکا ہے اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔ چونکہ ہم انہیں علاقوں میں گھومتے اور فوٹوگرافی بھی کرتے رہتے ہیں تو لگے ہاتھوں جو جو تصویر جس جس جگہ بنائی تھی، تصویر کے ساتھ اس جگہ کی نشاندہی بھی کی ہے۔
ماشاءاللہ بہت مفید تحریر
پسند کرنے کا شکریہ۔
bhaot aala ji
very good info