کیا آپ کا محبوب بھی چاند ہے؟ بس جی! پھر آہیں بھریں اور محبوب کو دور سے ویسے ہی دیکھیئے ”چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے“۔ وہ کیا ہے کہ آپ کی طرح کے اک پرندے چکور کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے۔ گویا یہاں آوے کا آوہ ہی چاند کے عشق میں مبتلا ہوا پڑا ہے۔ اور کیا کبھی غور سے چاند کو دیکھا ہے؟ عجب ہی بلیک اینڈ وائٹ محبوب ہے۔ کدو جیا نہ ہووے تے۔۔۔ ویسے ہے ناں حیرانی کی بات کہ عاشق چکور کے جیسے خوبصورت اور محبوب چاند کی طرح کدو سے اور بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔
ایک طرف افزائشِ نسل کے دنوں میں چکور جھگڑالو ہوتا ہے تو دوسری طرف ہندی دیومالائی قصوں میں اس پرندے کو ”شدید محبت“ کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔ ویسے قدیم اردو لغت کے مطابق عاشق یا مجنوں کو بھی اشاراتاً چکور کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ پاکستان کا قومی پرندہ شاہین یا عقاب ہے۔۔۔ نہ سائیں نہ… پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے۔ کیوں ہے؟ علم نہیں کہ اپنے جھگڑالو ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر محبت کی علامت ہونے کی بنا پر۔ البتہ ہر دو صورتوں میں ٹھیک ہی ہے۔
مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتاب نانگاپربت کا ایک باب ”روڈ ٹو استور اور چکور ہی چکور“ ہے۔ جب وہ استور گئے تھے تب سڑک کچی اور بیابان تھی۔ لہٰذا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ”روڈ ٹو استور از فل آف چکورز“۔ مگر جب ہم پہلی دفعہ گئے تو استور روڈ پکی ہو چکی تھی۔ لہٰذا کوئی چکور نہ ملا۔ البتہ ہم نے ٹلہ جوگیاں کے راستے سے چکوروں کے غول در غول اڑتے دیکھتے ہیں۔ گویا ہم کہیں گے کہ روہتاس کے بعد ”سڑک جو جائے ٹلے… تو جوگی رُلے… گل کِھلے… مور ملے، چکور ملے“۔۔۔ ویسے اس راستے اور پھر ٹلہ جوگیاں پر اب چکور کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بالکل کم ہو جائیں، ہم نے انہیں فلمانے اور تصویریں بنانے کا فیصلہ کیا۔
وہ سفر خاص طور پر ٹلہ کے موروں اور چکوروں کے واسطے تھا۔ راستے میں بھی نظر آئے مگر کیمرے میں سما نہ پائے۔ ٹلہ پہنچ کر ساری رات فوٹوگرافی کرتے اور چاند کو دیکھنے میں گزر گئی۔ ایک آدھ گھنٹہ سونے کے بعد جب طلوع آفتاب کے وقت آنکھ کھلی تو مور دیکھنے کی خواہش میں آہستہ سے خیمے کا تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ مگر وہاں کوئی مور نہیں تھا، البتہ دیگر پرندوں کے ساتھ ساتھ چکور پھر رہے تھے۔ بس پھر کیمرہ لینز تبدیل کرنے کا تردد بھی نہ کیا اور سرہانے پڑے چھوٹو کیمرے سے ہی ویڈیو اور تصویریں بنانے لگا۔ اور یہ تصویر اسی وقت بنائی تھی۔ جب اک ”جوگی چکور“ تالاب کی برجیوں کے پاس جوگ بھر رہا تھا۔
ماہرین کے مطابق چکور گھاس اور جڑی بوٹیوں والی کھلی چٹانوں پر عموماً سطح سمندر سے دو ہزار سے چار ہزار میٹر کی بلندی پر پائے ہیں۔ جبکہ ٹلہ جوگیاں تو تقریباً 960میٹر بلند ہے یعنی چکوروں کے مسکن میں نہیں آتا۔ مگر ٹھہریئے حضور! وہ کیا ہے کہ ”مزید زیادہ ماہرین“ کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں چکور 600میٹر بلندی سے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی برڈز فوٹوگرافرز نے شاید ”مزید زیادہ ماہرین“ کی تحقیق نہیں پڑھ رکھی، اسی لئے چکور کو زیادہ بلندیوں پر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ٹلہ کی راہوں پر جوگ کے ساتھ ساتھ جنگلی مور و چکور ملتے ہیں۔۔۔
چکوروں کے بچے تو آج کل شاید بھرپور جوانی کو نہ پہنچے ہوں، البتہ ساون کی راہ دیکھتے موروں کی نئی نسل اب جوان ہو چکی ہو گی۔ لہٰذا موسم کچھ بہتر ہوتے ہی… ہم ہوں گے، ٹلہ ہو گا، مور ہوں گے، چکور ہوں گے۔۔۔ اور اگر ”تم“ بھی ہونا چاہتے ہو، اپنے ہونے کا احساس چاہتے ہو تو تیاری رکھو۔ جلد ہی ملیں گے ٹلہ کو جاتیں، جوگ کی راہوں پر۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں