روح بنجر ہے اور پیاسا من
کبھی آؤ چناب کی صورت
یہ شعر شاعرہ دِیاخلیل صاحبہ کا ہے۔ مسافرِشب کی وساطت سے یہ شعر اور پھر شاعرہ کا نام معلوم ہوا تھا۔ کچھ چیزیں کئی لوگوں کے لئے عام سی ہوتی ہیں مگر بعض کے لئے وہی بہت خاص ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ شعر شاید آپ کو عام سا لگے مگر مجھے بہت پسند ہے۔ اور پسند بھی کیوں نہ ہو؟ آخر اس میں میرے چناب کا ذکر ہے اور وہ بھی یوں کہ محبوب کو چناب کی صورت بلانا…… واہ کیا ہی کہنے۔ بنجر روح اور پیاسے من کو سیراب کرنے کے لئے چناب کے انداز سے خوبصورت انداز بھلا کس کا ہو سکتا ہے؟ ہم چناب کنارے والے تو یہی کہیں گے کہ یہ عاشقوں کے دریا چناب کا ہی کمال ہے۔ سن لیا تم نے؟ اور تم تو جانتے ہی ہو کہ اس بنجر روح کو سیراب کرنے چناب کی صورت کون آ سکتا ہے؟ صرف تم، اے چناب کی صورت آنے والے! صرف اور صرف تم۔۔۔ شالا وسدے رہن پتن چناں دے، تے او جیہڑے اینہاں تک آئے۔۔۔
زیرِ نظر تحریر کے ساتھ میری دو تصویریں بھی ہیں۔ جوکہ پچھلے دنوں سیاحت کے دوران ایویں بنی تھیں۔ ایک جھیل کٹورہ کے کنارے محترم شفان حسن نے بنائی۔ دوسری میں کمراٹ آبشار کے سامنے بیٹھا ہوں اور یہ تصویر انم خان صاحبہ نے بنائی تھی۔ دونوں تصویریں بنتے وقت کوئی آیا اور ایسا چھایا ہوا تھا کہ تب مجھے معلوم بھی نہ ہو سکا کہ کسی نے چپکے سے میری تصویر بنالی ہے۔ وہ تو جب سفر سے واپسی شروع ہوئی اور سب اپنی اپنی بنائی تصویریں دکھانے لگے، تب معلوم ہوا کہ نایاب لمحات بھی قید ہو چکے ہیں۔ تصویریں بنانے والوں کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے میری زندگی کے کن لمحات کو آبِ حیات پلا دیا ہے۔ یہ تحریر لکھنے کی ایک بڑی وجہ تصویریں بنانے والوں کو ”فوٹوکریڈٹ“ دینا بھی ہے۔ دونوں احباب کا بہت بہت شکریہ کہ جانے انجانے میں انہوں نے ایسی تصویریں بنا دیں۔
دونوں تصویروں میں مناظر تو مختلف ہیں، مگر ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔ بلکہ میری نظر میں یہ ایک جیسی ہیں۔ ظاہری طور پر منظرباز اکیلا نظر آ رہا ہے، مگر اُس وقت کوئی اور بھی اس کے ساتھ تھا۔ فوٹوگرافی کے اعتبار سے یہ تصویریں شاید عام سی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں تکنیکی غلطی ہو، مگر میرے لئے اس شعر کی طرح یہ تصویریں بھی بہت اہم ہیں۔ کیونکہ یہ ان لمحات کی ہیں، جب کوئی چناب کی صورت آ یا ہوا تھا اور سارے منظرنامہ پر چھایا ہوا تھا۔ لمبی چوڑی سیاحتوں، دربدر بھٹک کر، لمبی لمبی تحریروں، ڈھیروں تصویروں اور دیگر کئی طریقوں سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اس کی ایک جھلک اس وقت میرے سامنے پردۂ سکرین پر چل رہی تھی اور باقی سب صاف ہو چکا تھا۔ زمان و مکاں سے آگے اک محبوب نگری آباد تھی۔ جہاں اوٹ پٹانگ بوجھ اتارے اک ملنگ اپنے حال میں مست تھا… اک جہاں محوِرقص تھا۔ کوئی گا رہا تھا… عشق بلھے کو نچا رہا تھا… اور وہ ناچے جا رہا تھا۔ ہر تماشے سے بے پرواہ، ہر چیز سے بے نیاز، بس وہ ناچے ہی جا رہا تھا۔ اے چناب کی صورت آنے والے! تم تو جانتے ہی ہو کہ ”عشق بلھے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے“۔۔۔
اور وہ جو پوچھتے ہیں اور نہیں سمجھتے مگر سمجھنا چاہتے ہیں۔ اے چناب کی صورت آنے والے! جیسا مجھے سمجھایا، انہیں بھی سمجھا دے کہ… کبھی جو نکلو دن یا راتوں میں… غور کرو آسمان کی باتوں میں… کائنات کی رعنائی میں… ارض کی زیبائی میں… اگر وہ تجھے پکڑ لے… اپنے سحر میں جکڑ لے… پھر خود ہی سمجھ جاؤ گے کہ کوئی… اوڑھ کر لباسِ مجاز… پکڑ کر کاسۂ نیاز… کیوں بنا منظرباز۔۔۔ انہیں سمجھا دے… وجہ رکھتی ہے یہ منظربازی… آسانی سے نہیں ملتی بے نیازی۔۔۔ انہیں بھی بتا دے… آخر کس کے لئے ہیں محبت کے مکتوب… اور یہ سارے روپ بہروپ… اور اتنی دوڑ دھوپ۔۔۔ آخر کون ہے… وہ آب کی مورت چھانے والا… وہ چناب کی صورت آنے والا۔۔۔ وہ زندگی کا کنارہ… اور وہی تو ہے سارے کا سارا۔۔۔
اے چناب کی صورت آنے والے… عاشقوں کو نچانے والے… اگر میں شاعر ہوتا… کھلی فضاؤں کا طائر ہوتا… پھر کھل ڈل کر کہتا… دریاؤں جیسا بہتا۔۔۔ کرتا حروف کی ایسی کندن کاری… جو ہوتی اصل فنکاری۔۔۔ بولتا کہ ایسے بولتا… گویا منظر پر منظر کھولتا۔۔۔ مگر… افسوس! چناب کی صورت آنے والے… روحوں تک سمانے والے… اے جانِ جاں… میں نہیں فصیح البیاں… گویا تو ہی سمجھا دے… دلوں میں سما دے… کہ… یہ نہیں کوئی جنوں… مگر ہے سکوں ہی سکوں۔۔۔ ویسے بھی محبوب نگری کی اونچی فصیل اور لمبی تفصیل میرے بس کی بات نہیں… کیونکہ ایسی باتوں پر… یہ سنسار… کرے سنگسار… پاگل بنا ئے… الٹا لٹکائے… سولی چڑھائے۔۔۔
ارے! آپ تو پریشان ہی ہو گئے کہ ایم بلال ایم کیسی باتیں کر رہا ہے۔ زیادہ پریشان نہ ہوں کیونکہ جلد ہی جہازبانڈہ، جھیل کٹورہ اور کمراٹ کا سیدھا سادہ سفرنامہ لئے حاضر ہوتا ہوں۔ باقی جو رب سوہنے دی مرضی۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر ہے، کچھ اور خوبصورت تصایر مزید شامل کرتے تو اور بھی اچھا ہوتا۔
بہت زبردست تحریر۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان خوبصوت مناظر کی عکاسی پڑھتے پڑھتے ذہن نشین ہو رہی تھی۔ جیسا کہ عبدالباسط صاحب نے کہا کہ اگر تصویری مناظر مزید شامل کر لیے جاتے تو تحریر کو مزید چار چاند لگ جاتے۔