پنجاب حکومت تقریباً ایک لاکھ دس ہزار لیپ ٹاپ طلباء میں تقسیم کر رہی ہے۔ میرے خیال میں تو لیپ ٹاپ کی یہ سکیم ایک اچھا قدم ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیل (Dell) کے جو لیپ ٹاپ دیئے جا رہے ہیں اگر یہ ایک لاکھ کی تعداد میں خریدیں جائیں تو فی لیپ ٹاپ کی قیمت پچیس تیس ہزار پاکستانی روپے بنتی ہے جبکہ اس کام کے لئے خزانے سے کہیں زیادہ رقم لی گئی ہے۔ خیر یہ سنی سنائی باتیں ہیں اور بھاڑ میں جائیں ایسی باتیں۔ ہم تو اتنے میں خوش ہیں کہ چلو کوئی تو اس ملک کو اکیلا نہیں کھا رہا بلکہ تھوڑا سا ہمیں بھی دے رہا ہے۔
آج شہباز شریف صاحب جامعہ گجرات (یونیورسٹی آف گجرات) لیپ ٹاپ کی تقسیم کرنے آئے ہوئے تھے اور ساری بجلی ہی پی گئے کیونکہ آج سارا دن بجلی نے ایک منٹ بھی دیدار نہیں کروایا، پہلے پھر بھی سارے دن میں دو گھنٹے مل جاتی تھی۔ خیر اس کے علاوہ شاہراؤں پر یہ بڑے بڑے بینر لگے ہوئے تھے۔ تمام جعلی ڈگری والوں کی طرف سے وزیراعلیٰ کو خوش آمدید کہا جا رہا تھا۔ اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات۔ ویسے ایک بات ہے، جامعہ کو جانے والی سڑک جو کافی عرصہ سے ٹوٹی ہوئی تھی وہ بن گئی ہے۔ یوں تو جامعہ گجرات نئی نویلی دلہن ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بڑی اجلی اجلی رہتی ہے مگر آج خصوصی طور پر صفائی کا انتظام تھا۔ آپس کے بات ہے چوہدریوں نے گجرات کے لئے ایک ہی تو انسانوں والا کام کیا ہے اور وہ یہی جامعہ گجرات ہے۔ گو کہ جامعہ کا نام رکھتے ہوئے بابا جی سے زیادتی ہوئی ہے لیکن یہ کہانی پھر سہی۔
جن طلباء کو آج لیپ ٹاپ ملے ہیں انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ ایک لمبی کھجل خرابی کے بعد کچھ ہاتھ تو لگا۔ خاص طور پر ملتان کا وہ طالب علم جو بیچارہ چھٹیوں میں گھر پہنچا تو اطلاع ملی کہ لیپ ٹاپ والا فارم کل جمع کروانا ہے تو انہیں قدموں واپس مڑا اور ساری رات کا سفر کرتے ہوئے صبح جامعہ گجرات پہنچا اور فارم جمع کروا کر رات کو پھر گھر روانہ ہوا۔ ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ پتہ چلا کہ وہ فارم منسوخ ہو گئے ہیں لہذا کل نئے جمع کروانے ہیں بیچارہ پھر واپس جامعہ فارم جمع کروانے پہنچا۔ باقی جن طلباء کو آج بھی لمبے انتظار کے بعد نہیں ملے وہ اپنا سا منہ لے کر اور شہباز شریف صاحب کی تقریر سن کر گھروں یا ہاسٹل کو لوٹ گئے ہیں۔ مزید جنہیں لیپ ٹاپ کے ساتھ ملنے والی سی ڈیز نہیں ملیں انہیں اب کئی دن تک دفاتر کے چکر لگانے ہوں گے۔ ویسے آئی ٹی کے طلباء کا اچھا کاروبار چمکا ہوا تھا وہ دو سو روپے میں ونڈوز انسٹال کر کے دے رہے تھے کیونکہ لیپ ٹاپ کا آپریٹنگ سسٹم اوبنٹو ہے اور ہمارے ہاں ”محنتی“ طلباء کے سامنے اوبنٹو کا لفظ ”بنٹے“ کی طرح گول گول گھومتا ہے، باقی اوبنٹو چلانا تو دور کی بات۔
مجھے پتہ ہے ایسی باتیں کرنے والوں کے لئے انگلی ہلتی ہے اور وہ معزول ہو جاتے ہیں۔ اجی ہمیں کسی نے کیا معزول کرنا ہے کیونکہ ہم اس جگہ پہنچے ہی نہیں جہاں سے ہمیں کوئی معزول کر سکے۔ ویسے بھی ”چھتر“ کھا کھا کر اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اب چھوٹی چھوٹی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خیر لیپ ٹاپ دینے کی تفصیل میں ایک بات یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ ادارے کا پرائیویٹ طالب علم بھی اگر شرائط پر پورا اترے تو وہ بھی لیپ ٹاپ کا حقدار ہے۔ جب ہم نے یہ بات پڑھی تھی تو اپنے ایک جاننے والے کو کہا کہ بھائی جان آپ نے تو اپنے مضمون اور سال اول میں پوری جامعہ گجرات میں دوسری پوزیشن لی ہے پھر آپ اپلائی کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ طلباء کو نہیں مل رہے۔ ہم نے تحقیق کر کے بتایا کہ حضرت وہ دوسری قسم کے پرائیویٹ ہیں جنہیں نہیں مل رہے بلکہ آپ جیسے پرائیویٹ کو بھی مل رہے ہیں اور شہباز شریف کی اپنی ویب سائیٹ پر یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ خیر ہمارے جاننے والے نے دوڑیں تیز کر دیں۔ غریب بندہ ہے، گھر کا واحد کفیل ہے اور ٹیویشن پڑھا پڑھا کر گزارہ کرتا ہے۔ نہایت ہی مشکل حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب اسے لیپ ٹاپ کی امید لگی تو سرکاری دفاتر اور جامعہ گجرات کے چکر شروع ہوگئے۔
پہلے کنٹرولر امتحانات کو ملا۔ کنٹرولر نے کہا تم واقعی حقدار ہو اور تمام شرائط پر پورے اترتے ہو۔ تمہارا کیس آگے بھیجنا چاہئے۔ اس کام کے لئے رجسٹرار کو ملو۔ حضرت کئی دن رجسٹرار کے دفتر کے چکر کاٹتے رہے اور رجسٹرار نے اس کی ایک نہ سنی۔ اوپر سے جہاں ایسی صورت حال کی شکایت درج کروانی ہے ، ان افسران سے ملنا بھی بیچارے غریب کے بس کا روگ نہیں۔ خیر وہ بیچارہ تھک ہار کر چپ کر گیا۔ دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ خود جامعہ گجرات کے استاد (ملازم) جو ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں انہیں لیپ ٹاپ ملے ہیں۔ طلباء سے ایک حلف نامہ بھی لیا گیا جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ کہیں ملازمت نہیں کرتے اور واقعی حقدار ہیں اور خود سے لیپ ٹاپ نہیں خرید سکتے، لیکن میں کئی ایک ایسے طلباء کا بتا سکتا ہوں جو امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر انہیں لیپ ٹاپ ملے۔ ان کی امیری غریبی یا ملازمت کی کسی نے تصدیق نہیں کی مگر نہیں سنی گئی تو غریب کی۔
اجی ہمیں کسی امیر یا ملازم کو لیپ ٹاپ ملنے پر ذرہ بھی کوئی شکایت نہیں۔ بس رونا یہ رو رہے ہیں کہ وہ غریب جو جامعہ کے ”ریگولر“ طلباء کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسری پوزیشن لیتا ہے، جس کو لیپ ٹاپ کی ضرورت بھی ہے اور وہ حقدار بھی ہے، آخر ایسے محنتی طالب علم کو صرف اس بات کی سزا دی گئی کہ وہ غریب ہے اور جامعہ کی فیس جمع نہ کروا سکنے کی وجہ سے پرائیویٹ پڑھ رہا ہے۔ گو کہ میری آواز نقار خانے میں طوطی کے مصداق سہی، چاہے میری آواز جامعہ گجرات کے رجسٹرار اور باقی انتظامیہ تک پہنچے نہ پہنچے لیکن حقیقت یہی ہے کہ رجسٹرار نے بہت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہمارے لئے یہ عام سی بات ہے کہ چلو یار جہاں اتنوں کو مل گیا وہاں چند ایک کو نہیں ملا تو کوئی بات نہیں۔ مگر آج وہ بندہ دیکھنے سے تعلق سے رکھتا تھا۔ ایک طرف ہر کوئی لیپ ٹاپ لئے جا رہا ہے اور دوسری طرف غریب کا بچہ اتنا پڑھنے کے باوجود بھی خالی ہاتھ ہے۔ ٹھیک ہے بھاڑ میں جائے لیپ ٹاپ، ہمت والے ہمت سے چلتے رہتے ہیں، مگر ہر کوئی آپ جیسا ہمت والا نہیں ہوتا۔
ہم نہیں کہتے کہ شہباز شریف صاحب ہمارے خادمِ اعلیٰ بنیں بلکہ وہ وزیرِ اعلیٰ ہی رہیں۔ ہم ایک دفعہ بھی یہ نہیں کہتے کہ آپ لیپ ٹاپ کی صورت میں ووٹوں کی دوڑ لگا رہے ہو، بلکہ ہم آپ کے اس قدم کو بہت اچھا جانتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک اچھا قدم ہے مگر سرکار اندھا دھن لیپ ٹاپ تقسیم کرتے ہوئے اتنا خیال تو کرو کہ واقعی غریب کو اس کا حق مل بھی رہا ہے یا پھر آپ ہی کے چاہنے والوں کی جیب میں جا رہا ہے۔
آج جامعہ گجرات میں تقریباً دو اڑھائی ہزار طلباء کو لیپ ٹاپ ملے۔مزید تقریباً دو ہزار کو بعد میں ملنے ہیں۔ ویسے آج جامعہ گجرات ڈیل و ڈل ہوئی تھی کیونکہ ہر بندے کے ہاتھ میں اور ہر طرف ڈیل کے لیپ ٹاپ ہی لیپ ٹاپ تھے۔ چلیں جی جب جلد ہی ایک لاکھ بیس ہزار کو لیپ ٹاپ مل جائیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ گوگل سرچ کی رپورٹ کیا کہتی ہے۔ بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ طلباء بند رستے توڑ کر ویب سائیٹوں تک پہنچیں گے یا پھر واقعی بہتری کی طرف جائیں گے۔ ہماری تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللہ کرے طلباء ان لیپ ٹاپ کا مثبت استعمال کریں اور ملک و قوم کو فائدہ پہنچائیں۔
بہت اچھا لگا آپ کا مضمون پڑھ کر ، میں بھی کسی کو جانتا ہوںجسکو لیپ ٹاپ ملنا ہے ، مجھے کافی خوشی ہوئی تھی سن کر ۔۔۔ لیکن پھر بعد میں اس قسم کی خبریں سننے کو ملنے لگیں کہ ایک لیپ ٹاپ جتنے کا ہے اُس سے دگنے پیسے ان لوگوں نے نکالے ہیں ۔۔ میرے خیال سے اس پر اگر واقعی کچھ حقائق ہیں تو وہ سامنے آنے چاہیں۔
دوسرا نقطہ جو آپ نے اُس غریب لڑکے کے بارے اُٹھایا اس کے بارے میں پڑھ کر کافی افسوس ہوا ، واقعی سچ ہے غریب کا کوئی پرسان حال نہیںہوتا ۔ ساتھ میںخوشی بھی ہوئی کہ چلو کسی نے تو اس بات کو قابلَ توجہ سمجھا ۔ میرے خیال سے اس لڑکے کو چاہیے تھا کہ رجسٹرار کے خلاف دو چار درخواستیں بھی جمع کرواتا ۔۔۔
میرے خیال سے آپ کے اس مضمون کو شہباز شریف کی توجہ میں لانا چاہیے ٹویٹ کر اور فیس بک کو استعمال کر کے کچھ دن پہلے ایک ویڈیو دیکھی تھی جن میںکچھ طالبات رہ گئی تھیں تو شہباز شریف نے ایک میٹنگ انکے لیے بلوائی تھی ۔۔ تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس پر بھی کچھ توجہ کر لے ۔۔
لیپ ٹاپ کی یہ سکیم واقعی ایک خوشی کی خبر تھی بلکہ ابھی بھی ہے۔ بس ہمارے کچھ لوگ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے ساری سکیم کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ باقی اس بندے نے پہلے بھی درخواست دی ہوئیں ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ اب دوبارہ کوشش کر رہے ہیں۔ امید تو یہی ہے کہ کوئی بہتری ہی ہو گی۔
آپ نے بے حد زیادتی کی ہے اگر تقسیم سے پہلے یہ بات لکھی ہوتی تو آپ کو مشورہ دے دیتے۔
اُس بندے کو چاہئے تھا کہ ایک احتجاجی بینر لکھوا لیتا جو کہ بمشکل 150 روپے کا بننا تھا جس میں لکھتا کہ میں نے دوسری پوزیشن لی ہے پر مجھے لیپ ٹاپ کا فارم نہیں دیا جارہا۔
اب بھی آپ اُس کو لیپ ٹاپ مل سکتا ہے لیکن اگر آپ اُس کا ساتھ دیں تو
اُس کی ایک درخواست بنائیں اور اُسے وی سی آفس میں سبمٹ کردیں درخواست میں التجاح کے الفاظ کم سے کم استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ مدعا بیان کریں رجسٹر کی ھٹ دھرمی کا خصوصی طور پر زکر کریں
اسی درخواست کی کاپی بنا کر ڈسٹرکٹ آفسیر گجرات کو دست بدستہ دے کر آئیں تو زیادہ بہتر ہے بصورت دیگر ڈاک کر دیں
سب سے آخر میں درخواست میں کانٹ چھانٹ کر کے پنجاب محتسب کو لکھ دیں
پھر دیکھیںیونیورسٹی اپنے فنڈ سے لیپ ٹاپ دے گی نہیں تو ڈی سی او اپنے فنڈ سے جاری کروا دے گا
عبدالقدوس بھائی واقعی میں بھی سوچ رہا تھا کہ میں نے شاید تاخیر کر دی ہے لیکن کیا کریں ہمیں بھی سارے اصل حالات کا کل ہی پتہ چلا تھا۔ باقی ہم تو اس کا ساتھ دے رہے ہیں جبھی تو یہ تحریر بھی لکھی ہے۔ آپس کی بات ہے وہ بینر لکھوا کر لگاتا کہاں پر؟ کیونکہ فوراً سے پہلے اس کا بینر ہٹا دیا جاتا یا پھر ساتھ میں اس کو بھی چھترول ہوتی۔
ڈسٹرکٹ آفیسر گجرات کو ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی درخواست دی جا چکی ہے، رجسٹرار کی ہٹ دھرمی دیکھیں کہ اس نے درخواست تک لینے سے انکار کر دیا تھا۔ رہی بات پنجاب محتسب کو درخواست تو وہ بھی بھیج دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے اگر اعلیٰ حکام تک یہ بات پہنچ جائے تو پھر اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔
مرشد!
ادھر کینیڈا میں ایک یونیورسٹی ہے۔ سنا ہے داخلہ ہوتے ہی طالب علم کو لیپ ٹاپ تھما دیتے ہیں۔ ❗
فیس اس کی بعد میں وصولتے رہتے ہیں۔ 🙄
پتا کراؤ یہ شریف سکیم بھی کچھ اسی قسم کی تو نہیں ؟
شروع میں ایسی باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ پندرہ ہزار سیکیورٹی جمع کروانی ہے اور اسی طرح کی چند اور باتیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں اور لیپ ٹاپ مکمل طور پر مفت میں دیا جا رہا ہے یعنی شریف سکیم واقعی شریف ہے۔ 🙂 😉
بہت اعلی لکھا جناب۔
بجلی تو بیچارے زرداری ساب اور مرشد اعظم ساب نے ذرا شغل میلے کیلئے بند کروادی ہوگی۔
چھترول سے جو آپ بے حس ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ڈھیٹ ہونا باقی ہے۔
ذرا بچ کے جناب ہمیں آپ کا ڈھیٹ ہونا سن کر انتہائی دکھ ہو گا 😆 😆 😆
اجی ہم کونسا اکیلے بے حس و ڈھیٹ ہو رہے ہیں، یہاں تو ساری عوام ہمارے ساتھ ہے۔ ایک یہی تو پوری عوام میں مشترک بات ہے اور ہمیں حوصلہ بھی اسی بات کا ہے کہ چلو ہم اکیلے تو نہیں۔۔۔ ویسے ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب ہم کہتے ہیں کہ چھتر مارنے والوں کی تعداد بڑھاؤ، تاکہ قطار میں نہ لگنا پڑے اور جلدی جلدی چھتر کھا کر چلتے بنیں 😆 😆 😆
بس کئی سارے گھپلے ہونے ہیںابھی اس طرحکے۔ حقدار رہ جائیں گے، کچھ کو مل جائے گا۔
لیکن میرے ذاتی خیال میںانڈیا والا آئیڈیا بہتر تھا۔ پاکستانی کوئی چار ہزار روپے کا ٹیبلٹ، تین گھنٹے بیٹری اور لیکچر ویکچر دیکھو سارے، آفس بھی موجود۔ بجائے کہ لیپ ٹاپ دئیے جاتے۔
میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ جو مشین ابھی دی گئی ہے اس سے انڈیا والا آئیڈیا زیادہ بہتر تھا یا پھر اس سے تھوڑا زیادہ کر لیا جاتا، پیسے کی بھی بچت ہو جاتی کیونکہ یہ مشین بھی 2.1 ڈیول کور، 2جی بی ریم کے ساتھ ہے۔ خیر ایک عام طالب علم کے لئے یہ بھی کافی ہے۔ باقی ہمارے حالات دیکھیں جائیں تو یہ ایک زبردست قدم ہے۔
باقی آپ کو بھی مل رہا ہے یا نہیں؟
پہلے لگتا تھا کہ اندر کچھ پک رہا ہے اب لگتا ہے کہ کچھ پھٹنے والا ہے۔ اللہ ہم پر اپنا کرم قائم رکھیں۔
آمین
عبدالقوس صاحب کا مشورہ درست ہے ۔ اس پر عمل کرنا چاہیئے ۔ مثل مشہور ہے ” جھوٹے کو اُس کے گھر پہنچانا چاہیئے”۔
ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ اول حکمران اچھے نہیں ملتے اور اگر کوئی بھلائی کرنا چاہے تو سرکاری ملازمین بربادی پر کمر باندھ لیتے ہیں
ان کے مشورے پر پہلے ہی کسی حد تک کام ہو چکا ہے، باقی بھی کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ جہاں تک ہو سکا جھوٹے کا تعاقب کریں گے۔
کام تو وزیر اعلیٰ نے واقعی بہترین شروع کیا ہے لیکن سرکاری ملازمین اور کئی سیاست دان اس کو بھی گندہ کر کے چھوڑیں گے۔
بہت اچھے بلال صاحب اچھی تحریر ہے۔
شکریہ جناب۔
یہ تحڑیر ایک اچھی کا وش ہے انتظامی خرابی کی نشاندہی کے سلسلے میًں اور بیادی طور پر یہ اُس معاشرتی و انتظامی نقائصکی نشاندہی کرتی ہے جو ایک عمدہ سرکاری کاوش کو ناکام کرنے کا سبب بنتی ہیں!
عبدلقدوس کے مشورے پر عمل کرنا بہتر ہو گا!
بھائی جان تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
باقی عبدالقدوس کا مشورہ ہمیں بھی اچھا لگا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔
کتنے لوگوں نے شہباز شریف کو ٹیوٹی پیغام بھیجا ؟؟؟
بلال بھائی بہت اچھا لکھا آپ نے ۔ اور اس غریب طالبعلم کی آواز اُٹھا کر آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے اللہ پاک ان شاء اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے حکمرانوں کو میرٹ ہی فیصلے کرنے کی توفیق دے
آمین
تحریر اچھی ہے۔
سنے میں آیا تھا کے لپ ٹاپ کی تعداد زائد ہے اور طلباکم تو پھر یہ زیادتی کیوں؟؟؟
ہمارے ہاں ، اترپردیش میں ملائم سنگھ یادو (جنہیںایک زمانے میں “مولوی ملائم سنگھ” یا “ملا ملائم سنگھ” کا بھی خطاب ملا تھا) کے فرزند دلبند اسی وعدے کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز ہوئے ہیںکہ جیتنے پر ریاست کے تمام نوجوانوںکو لیپ ٹاپ دیںگے۔
راجیو گاندھی کے فرزند واحد (جنہیں مستقبل کے وزیر اعظم ہند بنانے کے چکر چل رہے ہیں) کو بری طرح شکست فاش دے کر اکھلیش یادو اب اگر اتر پردیش جیسی بڑی اور اہم ریاست کے چیف منسٹر بنے ہیںتو ہمیں دیکھنا یہی ہے کہ لیپ ٹاپ والا وعدہ کب پورا ہوتا ہے؟
ویسے ۔۔۔ آپ کے ہاں کی سرخ فیتے والی کاروائیاں ہمارے ہاںکی بھی پرانی روایت ہے۔ مگر شکر ہے کہ ذرا سی گڑبڑ پر نیٹ پر نوجوانوں کے گروہ کے گروہ واویلا مچا کر میڈیا تک اس “گھوٹالے” کی خبر پہنچا دیتے ہیں اور سرکاری افسروں کو ایکشن لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
آب ٹھیک کہ رہے ہیں اس سے طلبہ کی حوصلہ افایئ ہوگی۔
یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ سرکاری سکیم ہو اور ایسے گھپلے نہ ہوں۔ ویسے میری ایک رشتہ دار کو پنجاب یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ مل چکا ہے اور دوسری جو میرٹ پر میڈیکل کالج میں داخل ہوئی وہ ہنوز انتظار میں ہے۔ ان کے کالج والے ہر دوسرے ہفتے وزیرِ اعلیٰ کے آنے اور پھر پروگرام کے ملتوی ہونے کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اسی انتظار میں ان طلبا کا سالِ دوم بھی تقریباً آدھا گزر چکا ہے۔