راج کماری اوچاں رانی کے شہر دیوگڑھ جانا بھی عجب اتفاق ہی تھا اور پھر بڑی مشکل سے وہاں کے دیو سے جان چھڑائی۔۔۔ ہوا کچھ یوں کہ رات کو گجرات سے چلے، ساری رات گاڑی چلتی رہی اور پھر صبح ہونے کو آئی۔ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ سوچا کہ کسی جگہ رک کر ناشتہ کرتے ہیں، مگر موٹروے (M-5) پر قیام و طعام گاہ آ ہی نہیں رہی تھی۔ ارادہ بنا کہ کسی انٹرچینج سے اتر کر اور پھر قریبی شہر جا کر ناشتہ کیا جائے، اتنے میں پوچھا ”جلدی جلدی بتاؤ کہ اس انٹرچینج سے گاڑی اتاروں یا نہیں“۔۔۔ ساتھ بیٹھے نقشوں کو کھنگالنے والے نے جواب دیا ”اتار دو“۔۔۔ یوں عین وقت پر گاڑی موٹروے سے اتر کر دیو گڑھ کی طرف چل دی۔
اچھا یار! گوگل والی کُڑی سے ذرا ”جیوندی بی بی“ کے مقبرے کا راستہ تو پوچھو۔ اور پھر راستے دکھانے و سمجھانے والی نے بتایا کہ یہیں پاس ہی تو ہے۔ یوں پہلے وہاں جانے اور پھر ناشتے کا پروگرام بنا۔ تصویر کا درمیانی مقبرہ وہی ہے۔ جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی مجوزہ فہرست میں شامل ہے۔ جب ہم اس طرف جا رہے تھے تو تھوڑی دور سڑک سے مقبرہ نظر آنے لگا اور اس وقت مقبرے کے پیچھے سے سورج طلوع ہو رہا تھا۔ وہ کیا ہی دلربا نظارہ تھا۔
یہ جگہ قبرستان ہے اور یہاں پر مقبروں اور مزاروں کا یوں ہی سمجھیں کہ پورا کمپلکس ہے۔ بلکہ پورا اوچ شہر ہی مزاروں سے بھرا پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ 500 قبل مسیح میں یہ شہر آباد ہوا اور پھر جب یہاں اسلام پہنچا تو یہ شہر اسلامی تعلیمات کا مرکز بن گیا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں بخارا سے سید جلال الدین حیدر سرخ پوشؒ یہاں آئے تو اس وقت راجا دیو سنگھ راجپوت بادشاہ تھا اور اسی کی نسبت سے اس شہر کا نام ”دیو گڑھ“ تھا۔ بعد میں اس کی بیٹی راجکماری اوچاں رانی مسلمان ہو گئی تو اسی کے نام پر اس شہر کو اوچ کا نام دیا گیا۔ کئی اولیاء کا یہاں مدفن ہے، انہیں میں سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاریؒ بھی شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ بابا بلھے شاہ ایک دفعہ اوچ میں کسی بزرگ کے پاس پہنچے اور ان سے تعارف پوچھا تو جواب آیا ”اسی اُچے، ساڈی ذات اُچی، اسی وچ اوچ دے رہنا آں، عقل ہووی تے رمز پہچانی، اسی مڑ مڑ تینوں کہندے آں“۔ جواب میں بابا بلھے شاہ نے اپنا تعارف یوں کرایا ”اسی قصوری، ساڈی ذات قصوری، اسی وچ قصور دے رہنا آں، عقل ہووی تے رمز پہچانی، اسی مڑ مڑ تینوں کہندے آں“۔۔۔ (یہ بات سنی سنائی ہے، میرے پاس اس کا کوئی مستند حوالہ نہیں۔)
ہم اوچ شریف پہنچے اور سرخ پوش صاحب کے مزار کے قریب گاڑی کھڑی کی۔ سیڑھیاں چڑھ کر مزار کے احاطے میں پہنچے، جہاں جگہ جگہ فوٹوگرافی ممنوع کے بورڈ آویزاں تھے۔ یہ مزار محکمہ اوقاف کی زیرِ نگرانی ہے لیکن اکثر مزارات کی طرح یہاں بھی ”لوکل مجاور“ موجود تھے۔ یوں ہی سمجھیں کہ وہ ایسے دیو اور جن تھے کہ جنہوں نے ہمیں گھیر لیا۔ وہ اس طرح نذرانہ نکلوانے کے درپے تھے کہ جیسے جگا لینا یا ہفتہ وصولی کرنی ہو۔ اوپر سے نذرانہ اوقاف کے ڈبوں میں ڈالنے سے روک کر خود جھپٹنا چاہتے تھے۔ بلکہ وہ لوگ تو ایسے پیچھے پڑ گئے کہ جیسے ہماری جان ہی بطور نذرانہ وصول کریں گے۔ یوں ہمیں ٹھیک طرح سے فاتحہ خوانی کرنے دی نہ فنِ تعمیرات (آرکیٹکچر) دیکھنے دیا۔ خیر ان سے بڑی مشکل سے پیچھا چھڑا کر دوسری طرف نکلے، جہاں جیوندی بی بی کا مقبرہ تھا۔ کچھ وہ کھلی جگہ صبح صبح نہایت پُرسکون تھی اور کچھ ”ہائی جیکروں“ سے جان چھوٹی تو ہم نے سکون کا سانس لیا۔ ویسے وہاں بھی ایک بندہ آن ملا لیکن یہ واقعی بندہ تھا۔ جو کہ غالباً کسی محکمے کا ملازم تھا اور اپنے تئیں گائیڈ بن کر بڑے اچھے طریقے سے راہنمائی کرنے لگا۔۔۔ خیر یہاں موجود مقبروں کو تسلی سے گھوم پھر کر دیکھا، مختلف زاویوں سے فوٹوگرافی کی۔ اور پھر ”پرندو بادشاہ“ نے اڑانیں بھریں اور یہ تصویر پرندو سے ہی بنائی تھی۔ اس کے بعد وہاں سے نکلے اور ہائی جیکروں سے نظریں چرا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔ انٹرچینج کے قریب پہنچ کر ایک ٹرک ہوٹل سے ناشتہ کیا اور پھر سندھو نگری کی اور چل دیئے۔ کیونکہ دیو گڑھ کے بعد ہماری اگلی منزل ”شیر گڑھ“ تھی اور وہاں ہمارے ساتھ کیا ہوا، یہ کہانی پھر سہی۔۔۔
اگلی قسط : میرے خوابوں کا قلعہ
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں